Showing posts with label Biograph. Show all posts
Showing posts with label Biograph. Show all posts

Monday, September 21, 2015

ہائے جاوں کہاں

کوک اسٹوڈیو8: ایپی سوڈ 6


مجھے کوک اسٹوڈیو سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ شروع شروع میں روحیل حیات والا کوک اسٹوڈیو تو پھر بھی ایک آدھ بار نظر سے گزر گیا۔ لیکن مزید کوک اسٹوڈیو میرے بس کا نہیں ۔ مجھ سے ہمارے سنہرے گیتوں کا ریپ برداشت نہیں ہوتا۔ میرا بس چلے تو خوبصورت پرانی دھنوں کی ماں بہن ایک کرنے پر کوک اسٹوڈیو کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج کروادوں۔ لیکن آج میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔
آج غلطی سے میں نے کوک اسٹوڈیو تقریباً پورا دیکھا ۔ مطلب تقریباً پوری قسط۔۔ اب بندہ بخار میں پڑا پڑا اور کیا کرے ، بخار کو بہلانےکےلیے ٹی وی پر سرفنگ ہی کرتا رہے۔ اور سرفنگ میں میرے ہاتھ کیا لگا بلکہ میں کس کے ہتھے چڑھ گئی نہ پوچھو۔

Friday, July 24, 2015

قصہ ہماری بہادری کا


ویسے تو ہم کافی بہادر ہیں لیکن ایک بار ہماری بہادری پر بھی برا وقت آپڑا تھا۔ ہم مصر میں ایک ایسے ہاسٹل میں رہتے تھے جو کسی زمانے میں روسی انجینئرز کے لیے بنایا گیا تھا جو قاہرہ میں کسی پراجیکٹ کی تزئین و آرائش پر کام کر رہے تھے۔ ہم وہاں دیگر پانچ خواتین کے ساتھ مقیم تھے، ان میں سے دو بوسنیا اور ایک البانوی تھیں اور باقی کی دو یوگنڈا سے تھیں۔

گڈے گڑیا کا کھیل


میں بہت چھوٹی سی تھی، مجھےگڑیا سے کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ مگر ہوتا یہ تھا کہ میں سارا وقت گڑیوں میں لگی رہتی تھی۔ پڑھائی پر بھی دھیان کم دیتی تھی اور رات دیر تک گڑیوں سے کھیلتی اور انہیں ایسا ہی پھیلا ہوا چھوڑ کر سو جاتی تھی۔ امی مجھے گڑیوں سے کھیلنے سے باز رکھنے کے لیے کہتیں کہ رات کے وقت گڑیا کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ میں وجہ پوچھتی تو کہتیں کہ رات کو گڑیا کو ہاتھ لگانے سے گڑیا جن بن جاتی ہیں اور بچوں کو کھا جاتی ہیں ۔ جن ، چڑیلوں اور پچھل پیریوں سے ہمیں اس وقت بہت ڈر لگتا تھا ۔

Thursday, July 2, 2015

ولدالحرام

کچھ ایسے ہیں جو بس اجنبی نمبروں پر ایس ایم ایس کر کے دل پشوری کر لیتے ہیں ۔۔ آ پ لاکھ "خاموشی ہزار پسوڑیوں سے بچاتی ہے" والی پالیسیوں پر عمل کر لیں مگر ایک دن حد ہو ہی جاتی ہے۔بھلا آ پ کی والدہ بستر مرگ پر ہوں یا آپ کے جگر کے ٹکڑے ہسپتال میں داخل ہوں ۔ آپ کے لیے ہر ایس ایم ایس اور ہر کال قیمتی ہو اور ایسے میں آپ کومفت کے ایس ایم ایس سبسکرپشن جاری و ساری رہے۔ کتنی جھنجھلاہٹ ہوتی ہے ایسے ایس ایم ایس دیکھ کر ۔ اللہ کرے کوئی ان ولدالحراموں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے۔

Tuesday, June 23, 2015

ہم نے ڈرائیونگ سیکھی



ہوا یوں کہ ہم صرف ٹرائی کرنے گئےتھے پر افسری ہمیں واقعی میں مل گئی ۔ کچھ دن تو پبلک ٹرانسپورٹ پر دفتر آنا جانا کیا پھر افسری میں فرق پڑنے لگا ، ابا کی ، کیوں کہ ہم تو پبلک ٹرانسپورٹ ایکسپرٹ ہوچکے تھے اب تک یونیورسٹی کے دھکے کھا کھا کر ، ہمارا گھر شہر کے ایک کونے میں اور یونیورسٹی شہر کے دوسرے کونے میں، پھردفتر تیسرے کونے میں ۔ ہم اتنے ایکسپرٹ ہو چکے تھے کہ دروازے تک فل بس میں اتنے آرام سے سما جاتے تھے جیسے بھرے پیٹ میں پانی اپنا راستہ بنا ہی لیتا ہے۔ ہم تو مزے سے بس سے آتے جاتے تھے ، پر ابا کا خیال تھا کہ افسر افسر ہوتا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ سے دفتر جانے سے افسر کا "رباب" کم ہوتا ہے۔ سو گاڑی ہونی چاہیے، پر کیا کرتےکہ گھر میں کسی کو بائیک کے علاوہ کچھ بھی چلانا نہیں آتا تھا۔ سو فیصلہ کیا گیا کہ ہم کسی ڈرائیونگ اسکول سے پہلے ڈرائیونگ سیکھیں پھر گاڑی کا توڑ جوڑ کیا جائے گا۔ گاڑی ہمارے لیےہوگی تو سیکھنا بھی ہمی کو ہوگا۔

Friday, June 12, 2015

ایڈ جسٹ منٹ

اماں تو چلی گئیں پر سب سے مشکل کام تھا کہ فاطمہ کو کیسے بتایا جائے اور سمجھایا جائے۔ ایک دن ابو نے پہلے بڑے دادو کو دادی پھپھو کے گھر سے آسمان پر پہنچایااور ستارہ بنا دیا ۔ اسطرح بڑے دادو کوچ کرنےکے تقریباً دو سال بعد ستارہ بن گئے ۔ بڑا والا ستارہ، جو ہماری چھت پر مغرب کی سمت نظر آتا ہے۔ 

پھر ابو نے اماں کو ستارہ بنانے کی کوشش کی تو آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے، 

" کیا ہماری اماں اب کبھی واپس نہیں آئیں گی ؟" ابو اماں کو ستارہ بناتے بناتے رک گئے۔

Thursday, June 4, 2015

پہلوٹھی کی گاڑی

پہلوٹھی کی گاڑی ، مکران کوسٹل ہائی وے پر
آپ کی پہلی گاڑی بالکل پہلوٹھی کےبچے کی طرح ہی عزیز ہوتی ہے۔ پہلوٹھی کا بچہ سب کی آنکھ کا تارہ ہوتا ہے، اسکی ایک ایک ادا پر پورا گھر نثار ہوتا ہے، وہ ہنسے تو سب ہنس دیں اور وہ منہ بسورے تو سارا گھر پریشان ۔ اس کے ہر طرح کے لاڈ اٹھائے جاتے ہیں ۔نئے نئے کپڑے، جوتے، کھلونے لائے جاتے ہیں ۔اگر ماں اس کو ڈانٹ دے تو دادا دادی اور نانا نانی کے ہاتھوں اس کی شامت۔ بیمار ہوجائے یا بلاوجہ رونا شروع ہوجائے تو نظر جادو ٹونا، سب پر یقین آجاتا ہے خواہ آپ پکے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ۔ ۔ کبھی نظر اتاری جارہی ہے ، کبھی صدقہ دی جارہا ہے، علاج میں تعویز گنڈے بھی در آتے ہیں۔

Thursday, May 7, 2015

غریبی کے سائیڈ ایفیکٹس بلکہ آفٹر شاکس

عمرانیات کی کلاس میں استاد نے کلچر پڑھاتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا کہ کلچر آف پاورٹی، پاورٹی آف کلچر میں تبدیل ہوجا تا ہے۔ یہ جملہ اس وقت تو یاد کر لیا تھا کہ امتحانی کاپی میں لکھ کر استاد کو متاثر کرنے کے کام آئے گا کہ ہم کتنے فرمانبردار شاگرد ہیں ، استاد کا کہا کتنا یاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا تو اس جملے کا مطلب صحیح سے سمجھ آیا ہے، گویا بال جھڑنے کے بعد کنگھی مل گئی ہے۔

جب آپ نے ایک عمر غریبی میں گزاری ہو تو غریبی کا کلچر اور مائنڈ سیٹ آپکے لہو میں سرائیت کر جاتا ہے، آپ ہمیشہ ہر شے کو اسی آئینے میں دیکھتے ہیں۔ غریبی خاص کر غریب بچپن آپ میں کچھ مخصوص اور مزیدار عادتوں کا باعث بنتا ہے۔

Friday, May 1, 2015

Let’s have a Cup of Tea ..

چائے پینا ہماری روزمرہ عادات میں شامل ہے۔ جی ہاں ہم لوگ ضرورتاً نہیں عادتاً چائے پیتے ہیں۔ کوئی کام نہیں، فارغ بیٹھے ہیں، چلو ایک کپ چائے ہوجائے۔ کام زیادہ ہے، ہاں ابھی کرتے ہیں، پہلے چائے تو پی لیں۔ اف آج تو بہت کام کر لیا، اب ایک کپ چائے تو پی لیں۔

میرے لیے چائے پینا ہمیشہ سے ایک فالتو کام رہا ہے۔ یعنی چائے پینا بھی کوئی اہم کام ہے بھلا۔ لہذہ ہمیشہ چائے پیتے ہوئے دیگر کام میرے سر پر سوار رہے ہیں، کہ چائے ختم کر کے یہ کام کرنا ہے/کرنے ہیں۔ سو میں چائے ایسے پیتی ہوں کہ یہ کام جلد ی سے ختم ہو تو میں کوئی کام کا کام کروں۔

Wednesday, March 11, 2015

وے میں چوری چوری

گزشتہ دنوں ٹھٹھہ سے کچھ فاصلے پر ور/ سخی داتار کی طرف جانا ہوا ... سخی داتار مزار کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب ہمیشہ چند مزارات قسم کی قبریں نظر آتیں . لیکن کبھی اس طرف جانا نہ ہوا, بس مزار پہ فاتحہ پڑھتے, ارد گرد بیٹھے خوانچہ فروشوں سے ونڈو شاپنگ کرتے اور ایک مہربان سے چائے پی کر واپس ہو جاتے ... اس بار میں طے کر کے گئی تھی کہ میں یہ قبریں دیکھ کر ہی آؤں گی .

سو مزار کی طرف جاتے ہوئے میں نے گاڑی رکوائی اور کیمرہ لے کر اتر گئی .. باقی پارٹی کو کہا کہ آپ جاؤ مزار پہ ..

Wednesday, November 26, 2014

فیس بک ایڈکشن اور اسکا علاج / اعتراف جرم

ڈرگ ایڈکشن کی طرح سوشل میڈیا خاص کر فیس بک بھی ایک خاصہ طاقتور نشہ ہے۔ آپ ارد گرد سے بے خبر اور دور دراز اور بےگانوں سے باخبر رہتے ہیں، لوگوں کے درمیان بیٹھےہوئے ان کے بجائے کسی اور سے باتیں کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ گھر والے پہلے پہل آپ کو ٹوکتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپ پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ آپ نہ صرف فیس بک پر ہر وقت آن لائن رہتے ہیں بلکہ جب کوئی اور کام بھی کر رہے ہوں تو بھی دھیان موبائل یا ٹیبلٹ کی طرف ہی رہتا ہے کہ کہیں کوئی میسج جواب دینے سے رہ نہ جائے، کوئی نوٹیفیکشن دیکھنے سے رہ نہ جائے، کسی کمنٹ کا جواب دینے سے نہ رہ جائے۔ جیسے اگر کوئی میسج، کمنٹ یانوٹیفیکشن اٹینڈ ہونے سے رہ گیا تو کوئی قیامت شیامت آنے کے امکانات ہوں۔ہر کام کوٹالتے رہتے ہیں کہ ہاں ابھی کرتی ہوں، بس اٹھ رہی ہوں، یہ ایک میسج کا جواب دے دوں، لیکن ایک میسج چیک کرنے کے بعد "من حرامی تے حجتاں ہزار" اور اتنے میں لائٹ چلی جاتی ہے اور آپ کو مزید دوگھنٹے کی چھٹی مل جاتی ہے کوئی اور کام نہ کرنے کی ۔۔۔

Wednesday, October 22, 2014

فن فیصلہ سازی

ہم فیصلہ سازی کے فن سے نا آشنا ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ بھی والدین پر چھوڑ دیاتھا کہ ہم پیدا ہوں یا نہ ہوں اور پیدا ہوں تو کب ہوں یا کتنی عمر میں ہوں، بچپن میں ہی پیدا ہوجائیں یا کچھ عقل آنے تک انتظار کرلیں۔ واپسی کے لیے بھی انتظار ہے کہ کب "کوئی" ہمیں واپس بلانے کا فیصلہ کرتا ہے۔

بچپن سے لے کر اب تک ہمارے ہر کام کا فیصلہ فزیبلیٹی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے، اسکول جو پاس تھا اور جس میں محلے کے دوسرے بچے پڑھتے تھے اسی میں داخل کرائے گئے کہ آنا جانا انہی بچوں کےساتھ ہوجائے ۔ کالج بھی جو سب سے نزدیک تھا اسی کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا کہ اس وقت کراچی کے خراب ترین حالات میں وہاں سے جان بچا کر بھاگنا سب سے آسان تھا۔ یونیورسٹی کی باری آئی تو ابا نے کہا دیکھ لو اتنی دور کا سفر کر سکتی ہو، آ جا سکتی ہوں تو داخلہ لے لو۔ یعنی میرے بھروسے پہ نہ رہنا اپنی فزیبلٹی خود دیکھ لو۔

Tuesday, July 29, 2014

بھائی لوگ :P

"نسرین تم باقی سب کی طرح مجھے بھائی کیوں نہیں کہتیں؟"

"کیونکہ آپ سے بات کرنے کے لئے مجھے آپ کو بھائی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بطور ایک انسان بھی آپ سے بات کرسکتی ہوں۔ میں آپکو بھائی کیوں کہوں، مجھے اپنی نیت پر اعتبار نہیں یا آپکی "

یہ اس گفتگو کا نچوڑ ہے جو فیس بک پر تقریباً دوسال گپیں لگانے کے بعد ہو رہی تھی۔ ہماری دوستی کے حلقے میں شامل تقریباً تمام افراد بلا تفریق ان کے نام کے ساتھ بھائی لگا کر پکارتے ہیں لیکن میں ہمیشہ انکا نام لیتی ہوں۔ انکا کہنا بھی ایسا غلط نہیں تھا ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں صنفی تقسیم بہت گہری ہے۔ مرد و عورت کو زبردستی اور مصنوعی طور پر الگ الگ شیلفوں میں سجایا ہوا ہے۔

Friday, June 27, 2014

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا کیجئے غور

ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے چھوٹے بچوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں. گذشتہ دو روز میں جتنے لوگ بھی محمد حسن غوری کو دیکھنے اور مبارکباد دینے آئے ہیں, سب نے بلا امتیاز فاطمہ سے یہ ضرور کہا ہے کہ " تمہارے منے/ بھائی کو ہم لے جائیں"

آپ کسی بچے سے اس کا من پسند کھلونا چھیننے کی دھمکی دے کر اس سے دوستی کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں.

Tuesday, October 15, 2013

Born in A Wrong Gender ;)

میں غلط جینڈر میں پیدا ہوگئی ہوں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں لیکن اس کی سزا مجھے ہی ملتی ہے۔ میں اکثر یہ بات بھول بھی جاتی ہوں کہ میں ایک ختون ہوں، اور مجھے شرمانا لجانا، بل کھانا چاہئے۔ میری پسند نہ پسند اور حرکتیں سب مردوں والی ہیں۔ رف این ٹف کپڑے، مردانہ لک والی سینڈلز، میک اپ سے بے نیازی، جیولری سے الرجی، اور لہجہ تو اللہ کی پناہ اتنا کھردرا کہ اگلے کی دوبارہ بات کرنے کی ہمت نہ ہو۔ جب میں عید کی شاپنگ کے لیے بازار جاتی ہوں تومردانہ کرتے شلوار کی ورائیٹی پر میری ایسی رال ٹپکتی ہے کہ نہ پوچھو۔ بھلا بتاواتنا ڈیسینٹ کرتا شلوار خواتین کیوں نہیں پہن سکتیں؟

Wednesday, October 2, 2013

اعتماد اور اعتبار

"منی پھو یہ فون نہیں لینا۔"

"اچھا بیٹے نہیں لوں گی۔"

پھر کسی کام سے اپنا فون اٹھا لیا جس میں فاطمہ گانے سن رہی تھی۔ اب کتنا ہی آپ دلیلیں دے لو کہ کیوں اٹھایا تھا، اس کا اعتبار واپس نہیں آنے والا، کسی بات پر دوبارہ یقین نہیں کرنا۔ اعتماد ایسے ہی ختم ہوتا ہے، اعتبار ایسے ہی ٹوٹتاہے۔

بڑوں کا اعتماد بھی ایسے ہی ٹوٹتا ہے، وہ بھی کبھی دوبارہ اعتبار نہیں کرتے، لیکن وہ منافقت کرتے ہیں، کبھی آپ کے منہ پر نہیں کہتے کہ آپ قابل اعتبار نہیں رہے۔

Saturday, September 28, 2013

واردات

ونس اپون اے ٹائم ہمارا دل ایک بندے پر آگیا تھا۔ ہم ٹھہرے سیدھے سادھے بندے، ہم نے زیادہ پریشانی سے بچنے کے لئے سیدھے سیدھے سارا معاملہ ان صاحب سے گوش گذار کر دیا۔ وہ بے چارے حیران ہوگئے۔ انھیں ہم سے ایسی امید ہر گز نہیں تھی۔ ہمیں کب خود سے ایسی کوئی امید تھی، ہم ان سے کم حیران نہیں تھے۔ وہ صاحب پہلے حیران ہوئے پھر شوخے ہو گئے اور اپنا فرمائشی پروگرام نشر کرنا شروع کردیا۔

انکی پہلی فرمائش یہ تھی کہ ہم ان کے ساتھ باہر کھانا کھائیں۔ ہائیں ، ، ، یعنی اگر ہمارا دل اپنی جگہ پر نہیں تھا تو انکا دماغ بھی کھسک گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ محترم یہ ڈیٹ ویٹ کی توقع تو تم ہم سے رکھنا بھی مت، ہمارا دل تم پہ آگیا ہے، برے توہم بھی تم کو نہیں لگتے، چلو شادی کرلیتے ہیں، پھر جو تم کہو۔

اس پر وہ مزید پھیلنے لگے، ایسی ایسی فرمائشیں جن کی ہمیں ان سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ لیکن ہمارا دل بے ایمان ہوا تھا، ہم تو اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم تھے۔ہم نے کوئی بھی فرمائش پوری کرنے سے صاف انکار کردیا۔

لو صاحب وہ تو انتقامی کاروائیوں پر اتر آئے۔ انہوں نے ہمارا فون اٹینڈ کرنا بند کردیا۔ ہمارے میسجز کا جواب دینا بند کردیا، ہمیں اپنی فیس بک، میسنجر اور نہ جانے کہاں کہاں سے نہ صرف بے دخل کردیا بلکہ بلاک بھی کردیا۔

آہ ہمارے درد و الم و رنج و صدمے کا عالم نہ پوچھیں، ہمیں انکے ساتھ مغز ماری کرنے کا جو نشہ تھا اسکے آفٹر ایفیکٹس بہت ہی خوفناک تھے۔ یقین مانیں دنیا میں جو سب سے خطرناک نشہ ہے وہ انسان کی صحبت کا نشہ ہے۔ ان سے رابطہ کٹ جانے پر ہمیں لگتا تھا کہ ہم فوت ہی ہوجائیں گے۔ سال بھر تو ہمیں نیند ہی نہیں آتی تھی اور آجائے تو اتنے خوفناک خواب آتے تھے کہ اس سے بہتر تھا کہ بندہ سوئے ہی نا۔ لیکن "وہ ہی نظر آتا ہے جب کوئی نظر نہیں آتا" کے مصداق اللہ میاں نے ہم کو مصر بھیج دیا۔ مصر میں بھی ہم اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے سیر و تفریح کرنے پاکستان چلے آتے تھے۔

اس وقت تو بس لگتا تھا کہ ہر سانس آخری سانس ہے، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہم نا صرف زندہ ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ خوش وخرم ہیں۔ وہ بھی یقیناً خوش ہونگے اپنے خرچے پر ]اب ہم انکی جاسوسی نہیں کرتے]۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں کوئی شریف آدمی بہت خوش ہے، کیونکہ ہم نے اب تک شادی نہیں کی۔ تو یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے انکار کر کے اپنے اور ہمارے دونوں کے حق میں بھلائی کی۔ اور آپ کے بھی، ورنہ آپ کو ایک اتنی اچھی رائٹر سے محروم ہونا پڑتا۔

اب اگر کبھی ہمارا کوئی دوست ہمیں اپنی فیس بک پر بین کرتا ہے،یا ہمارے کومنٹ ڈیلیٹ کرتا ہے یا ہمیں ڈیلیٹ ہی کردیتا ہے اپنی فرینڈز لسٹ سے تو ہم "سانو ں کی" کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہم انکے بغیر زندہ ہیں تو یقین رکھیے آپ کے بغیر بھی ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

Saturday, September 21, 2013

یہ نہ تھی ہماری قسمت

اس بار عید پر شوق چڑھا کہ عید کارڈ عید کارڈ کھیلا جائے اور بچپن کی یادوں کو تازہ کیا جائے، پورا پاپوش کا بازارکھنگال ڈالا، عید کارڈ ندارد۔ گھر کے قریب ایک اردو بازار ہے، وہاں ایک دکان پر دکھی پریم نگری، ناکام عاشقوں والے عید کارڈ دستیاب تھے، سوچا لے لوں مگر پھر خیال آیا کہ پہلے جس کو بھیجا جائے اسکا بندو بست کیا جائے، یعنی پہلے ایک مستقل سرکا درد تلاش کیا جائے پھر اسکو دکھی پریم نگری والا عید کارڈ بھیجا جائے، عید کارڈ تو سستا نسخہ ہے، لیکن جو اسکا پری ریکویزیٹ وہ بڑا مہنگا پڑے گا۔

لہذہ پروگرام کینسل

Sunday, September 15, 2013

شوئیاں

پھوت مارنا یا شیخی بھگارنا ہمارا خاندانی شوق ہے۔ دادا مرحوم سے یہ شوق ورثے میں چلا آرہا ہے، مرحوم ہمیشہ ہماری جاب کا ایک گریڈ بڑھا کر بتاتے تھے، یہی حشروہ اپنے بچوں کی جاب کے ساتھ کرتے تھے۔ اگر کبھی ہم ان کے ساتھ فلم دیکھنے سنیما جانے کی غلطی کر لیتے ۔۔۔ ویسے یہ غلطی ہم بچے بلاناغہ ہر سال کر لیا کرتے تھے ۔۔۔ تو سنیما پہنچتے پہنچتے بس کے ہر مسافر کو یہ خبر ہو چکی ہوتی تھی کہ ہم فلم دیکھنے جا رہے ہیں، کس سنیما میں اور کون سی۔ 
تو یہ جراثیم ہم میں بھی درجہ بہ درجہ منتقل ہوئے ہیں، خاصے کم منتقل ہوئے ہیں، پرہم خاندانی روایتوں سے ہرگز منہ نہیں موڑ سکتے۔ اب ہم دادا ابا کی طرح اپنی کاروائیوں میں غلو تو نہیں کرتے لیکن حسب توفیق شوئیاں ضرور مارتے ہیں۔