Showing posts with label Pakistan. Show all posts
Showing posts with label Pakistan. Show all posts

Sunday, July 17, 2016

خرد کا نام جنوں

ہمارے معاشرے میں خاص کر شہری معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا الزام خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ 

خوب ۔

شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اور معاہدے دو یا زائد فریقوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں ورنہ وہ معاہدے نہیں سمجھوتے کہلاتے ہیں۔ لہذہ شادی بھی ایک ایسا ہی معاہدہ ہے جو ایک مرد اور ایک خاتون کے درمیان برابری کی بنیاد پر طے ہوتا ہے اور اسے برابری کی بنیاد پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ لیکن برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں یہ معاہدہ شاذ و نادر ہی برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں شادی دراصل شوہر کی ہوتی ہے۔

یہ ایک یک طرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں دوسرے فریق کا کام صرف پہلے فریق کا حکم بجالانا فرض کرلیا جاتا ہے۔ دوسرا فریق یعنی بیوی پہلے فریق یعنی شوہر کی مرضی کے مطابق سانس لے گی، اس کے خاندان کی خدمت بجا لائے گی۔ اسکی جنسی ضروریات اسکی مرضی اور فریکوئنسی کے مطابق پوری کرے گی، اسکی اجازت سے لوگوں سے میل ملاقات کرے گی، اسکی مرضی اور اجازت کے مطابق ملازمت کرے گی یا نہیں کرے گی۔ گویا اسکی اپنی کوئی شخصیت ، مرضی یا ضروریات نہیں ہیں۔

Monday, March 7, 2016

ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں

جس کی عزت کا کوٹہ پورا ہوجاتا ہے 
اسے ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا خیال آجاتا ہے۔

پاکستان کی حالیہ سیاست سے چند مثالیں 

عمران خان اچھا خاصا کھلاڑی تھا۔ سارے ملک کی آنکھوں کا تارہ، سب سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ شوکت خانم ہسپتال نے اسکی عزت و محبت میں چار چاند لگا دئیے۔ پھر اللہ جانے کس نے اسے اکسایا کہ یہی وقت ہے اس عزت و محبت کو سیاست میں کیش کرلو۔ سیاست میں بس آپ کی کمی ہے، نا آپ سے پہلے کوئی تھا نہ آپ کے بعد ہونا۔ بس جی آگیا سیاست میں ذلیل و خوار ہونے۔  ہوا کیا جو 16 کروڑ لوگوں کا ہیرو تھا اور جسے آج 20 کروڑ لوگوں کا ہیرو ہونا چاہیے تھا آج وہ چند فیصد لوگوں کا رہنما رہ گیا اور باقی اسکا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے اور جنہوں نے اسے اس "سیاہ ست" میں دھکا دیا تھا وہ اس کے بعد نئے شکار کی تلاش میں آگے نکل گئے۔

Thursday, November 19, 2015

تھینک یو قائد اعظم

کل میری گاڑی کے آگے والی گاڑی کی بیک اسکرین پر پاکستان کا جھنڈا بنا ہوا تھا وہی جو پوری اسکرین کو ڈھک لیتا ہے ... مجھے خیال آیا کہ میں بھی بنوالوں .. پھر خیال آیا 14 اگست تو گزر گئی, پھر سوچا کہ 25 دسمبر آنے والی ہے اس پر بنوا لوں .... 25 دسمبر سے خیال آیا کہ ہر طرف "تھینک یو راحیل شریف" ہو رہا ہے ... کہیں دل سے کہیں شرارت میں .. کہیں کسی کو طعنہ دینے میں کہیں مذاق اڑانے میں ۔ ۔ 14 اگست پہ بھی گاڑیوں پر, پوسٹرز میں ہر جگہ تھینکیو راحیل شریف ....

Thursday, November 5, 2015

استولا 3: تم اس جزیرے پہ بھی اترنا

طلوع آفتاب سے قبل استولا۔ کاپی رائیٹس: نسرین غوری

یومِ ثانی:

دوسری صبح غالباً روشنی کے باعث ہماری آنکھ جلد ہی کھل گئی، گو کہ سورج ابھی تک نمودار نہیں ہوا تھا۔ لیکن کافی روشنی تھی۔ شہزاد اور علیم نے ناشتے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا۔ ایک دو اور لوگ جاگ چکے تھے ۔ لیڈر آگ لگانے مطلب آگ جلانے میں مصروف تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے بچے بچیاں خیموں اور سلیپنگ بیگز سے باہر تھے سوائے شیراز اور معیز اور صائم کے جو نہ جانے کیا بیچ کر سوئے تھے کہ جاگتے ہی نہ تھے۔ 

اب صورت حال کچھ یو ں تھی کہ علیم اینڈعلیزے کمپنی ایک جانب پتھروں سے بنے نیم دائرہ نما کچن میں گیس سلنڈر پرآلو انڈے فرائی کرنے کی تیاریوں میں تھی۔ علیزے نے بہت ہی محنت اور محبت کے ساتھ آلووں کو اسکیل سے ناپ کر با لکل چوکور کیوبز کی شکل میں کاٹا اور بہت سارا کاٹا ۔ جس پر انکو کافی داد ملی۔ دوسری جانب خضر اور شہزاد ڈائیٹ پراٹھے پکانے میں مصروف تھے، شہزاد پراٹھے بیلتے ، اور خضر انہیں کوئلوں پر تاپتے، جبکہ مزمل شعلوں کو ہوا دینے پر مامور تھے۔ 

Thursday, October 22, 2015

مکران کوسٹل ہائی وے کے جلوے


بوزی پاس سے ذرا پہلے، مکران کوسٹل ہائی وے، سطح سمندر سے تقریباً 250 میٹر کی بلندی پر
"دادو ۔۔۔ کب آئے گا " 

یہ وہ سوال تھا جو ہمارے پیر پٹھو/سخی داتار کے سفر کے دوران فاطمہ نے بیسیوں بار ابو سے پوچھا ہوگا ۔ ہم سویرے سویرے پیرپٹھو ، ٹھٹہ کے لیے گھر سے چلے تھے ۔ لیکن راستے میں پیالہ ہوٹل پہ ناشتہ وغیرہ کرتے کچھ وقت گزرا، پھر ہم نے ایک نئے راستے سے بذریعہ سجاول بائی پاس جانے کا فیصلہ کیا جو شاید ٹھٹہ میں سے گزرنے کی نسبت زیادہ طویل لیکن رش سے مبرا تھا ۔ سو جب ہم اپنے میزبانوں کے ہاں پہنچے تو تقریباً رات ہو چکی تھی ، درمیان پر ایک جگہ لنچ کے لیے بھی رکے ۔ جہاں ہم جارہے تھے فاطمہ وہاں بچپن سے جاتی ہے۔ کئی بار جاچکی ہے، وہاں ہر سائز اور عمر کے بچے ہوتے ہیں جو اردو بالکل نہیں جانتے لیکن بچوں کا ڈاک خانہ زبان کی سرحدوں سے بلند و بالا ہوتا ہے۔ سو اس کی بچوں کے ساتھ خوب بنتی ہے۔ پھر وہاں گائے، گدھے، مرغیاں، بلی کتے اور بکریاں وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اسکا دل خوب لگتا ہے۔ اب کچھ تو راستے کی طوالت اور کچھ وہاں مزے کرنے کی جلدی نے فاطمہ کو بیزار کیا ہوتا تھا اور اس نے بار بار ابو سے " دادو کب آئے گا" پوچھ پوچھ کر باقیوں کو بے زار کر دیا تھا ۔

Sunday, September 7, 2014

Floods in Pakistan n India's Responsibility

There is a common belief in Pakistan that every year India releases huge waters to Pakistani areas that causes flood.

My opinion is that rivers have water courses set for centuries ... India have built many dams on those routs. These dams are already filled as we usually have no water or very scanty release down streams. Therefore when it rains profusely n Indian dams are full. The extra water takes it natural rout through Pakistan that causes flood as we don't have dams obstructing those routs n can't save this extra waters. It is not India's fault ... it is simple that India can not further stop/store this extra waters, So it flows down to our side.

But my friends insist that India is the monster behind every flood in Pakistan. I asked one of my friends who works as consultant engineer for NESPAK n looks after dams n barrages in the country. His response is as follows:

"Simply jese Mangla dam full hua to hum ne Jhelam ka pani downstream release kr dia ab iska mtlb Pak ne flood create kia kya?? Ni na, isi tarah India ne last week bol dia tha k dams full ho gaye hn ab jo inflow ho ga wohi dam ka out flow ho ga. Hum bewakoof hein India nhi".

Saturday, August 9, 2014

فرمائشی سفرنامہ: پارٹ تھری

رما موٹیل میں ہی جانے کتنے دنوں کے بعد ٹی وی اور خبریں دیکھنا نصیب ہوئیں اور یہ پتہ چلا کہ مذاق رات ختم ہوگئے ہیں اور اب آپریشن کلین اپ ہونے والا ہے نواز شریف قوم سے خطاب کر رہے تھے ۔ یہاں جیو تیز کی شکل بھی نظر آئی۔ آنکھوں میں ٹھنڈ پڑ گئی۔
دی کلر ماونٹین۔ قراقرم ہائی وے

قراقرم ہائی وے پر جہاں نانگا پربت کلر ماونٹین آپکے لیفٹ پر کا بورڈ لگا ہے ، اسکے بلکل سامنے سڑک کے اس پار ایک ننھا منا سا ریسٹورینٹ ہے جہاں مسافروں کی تواضع کھانے پانی کے علاوہ مفت شہتوت سے کی جاتی ہے۔ چند دکانوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ جس کے درمیان میں ایک بڑا سا شہتوت کا درخت جو اس وقت پھلوں سے لدا ہوا تھا، اس ریسٹورینٹ کی ایک اور خاصیت، کھانے کے ساتھ اچار وافر مقدار میں دیا جاتا تھا۔ یہ وہ نعمت تھی جو ہم ساتھ لے جانا بھول گئے تھے۔ اور ہائیٹ کی وجہ سے جب کسی کا کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا تھا تو اچار کی یاد آتی تھی۔ شمال کے تقریباً تمام ریسٹورینٹس اور موٹیلز میں چکن کڑاہی ایک کامن ڈش ہے۔ دال اناج دستیاب نہ ہونے کا ریزن یہ ہے کہ اونچائی کی وجہ سے دال گلتی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ جہاں دال نہیں گلتی وہاں مرغی کیسے گل جاتی ہے۔ 

Sunday, July 13, 2014

فرمائشی سفرنامہ: پارٹ ٹو

بیال کیمپ واپس پہنچ کر گروپ لیڈر نے چکن کڑاہی کھا کھا کر اک چکے لوگوں اور دانتوں کی تازہ دال چاول اور چشمے کے پانی سے تواضع کی۔ تھوڑے آرام اور کچھ خر مستیوں کے بعد واپسی کا قصد کیا۔ گائیڈ صاحب جانے ہمیں کن راہوں پر لے چلے۔ ان کے بقول اب شام ہو گئی تھی اور راہ راست یعنی اصل ٹریک پر موجود ندی نالوں کے ایمان بدعت کے باعث خراب ہو چکے تھے اور تابعین کو یقینی طور پر جہنم واصل کرنے کا باعث ہو سکتے تھے۔یہ آف ٹریک راہ نجات جنگلوں، ندی نالوں، چڑھائیوں، اور اترائیوں پر مشتمل تھی۔ تابعین کے صبر کا امتحان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی۔ راستے میں ایک دو مقامات واقعی ایمان کی مضبوطی کا باعث بنے۔ یہ اور بات کہ ان مقامات پر اندر کی سانس باہر اور باہر کی تو پہلے ہی باہر تھی۔ 
بیال کیمپ

Saturday, July 5, 2014

فرمائشی سفرنامہ

شل مکھی، نانگا پربت

سمیرا: نسرین تم فیری میڈوز جا رہی ہو، کوئی اکسائٹمنٹ نہیں،کہاں کہاں جانے کا پروگرام ہے، کون کون سے پوائنٹ کور ہونگے تمہارے ٹرپ میں، تم کچھ بھی شئیر نہیں کر رہیں۔ 

میں: یار مجھے کوئی ایکسائٹمنٹ نہیں ہو رہی تو میں کیا کروں۔ روزانہ تو پروگرام کا شیڈول بدل جاتا ہے۔ کیا بتاوں کہاں جا رہی ہوں پہلی بار اس طرف جارہی ہوں تو جہاں بھی جانا ہوگا، جو بھی دیکھوں گی پہلی بار ہوگا، اور خوبصورت ہی ہوگا۔ 

کبھی کبھی مجھ پر بیزاری کا ایسا دورہ پڑتا ہے کہ ہر چیز "بس ٹھیک ہی ہے" نظر آنے لگتی ہے، اور اتنی "عقلمندانہ" گفتگو کرنے لگتی ہوں کہ خود کہ بھی یقین نہیں آتا۔ اس وقت ایسا ہی ٹھنڈ پروگرام تھا۔ سمیرہ بجا طور پر ایکسائٹڈ تھی۔ سمیرہ پہاڑوں کی دیوانی لڑکی ہے۔ لیکن وصال یار سے اب تک محروم ، اب اسکی بیشٹ گرل فرینڈ پہاڑوں کو جارہی تھی تو اسکا جوش میں آنا بنتا تھا۔ 

Wednesday, October 23, 2013

چرنا آئی لینڈ

عید کی چھٹیوں میں انتہائی بور ہوکر خود کشی کے مختلف طریقوں پر غور فرمانے کے دوران ایک روح افزاء قسم کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ ہم ویک اینڈ پر کیماڑی سے چرنا آئی لینڈ جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، سوچا آپ سے بھی پوچھ لیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ تھوڑے غورو فکر کے بعد ہم نے ہاں کر دی۔ جب ایک شریف آدمی آپکو صبح کے پانچ بجے تقریباً گھر سے پک اینڈ ڈراپ کی آفر کر رہا ہے تو آپ کے پاس انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ مزمل اینڈ کمپنی سے ہماری ملاقات قاہرہ میں ہوئی تھی۔ یہ ایک الگ داستان ہے، جو ہم پھر کسی وقت سنائیں گے۔

Thursday, January 10, 2013

Will Pakistan follow the Tahrir Square discourse?

Pakistan is passing through a Nazuk Dour for more than 65 years. There is a chain of change in Middle East and Arab countries. Some people hope that Pakistan will follow the "Tahrir Square" discourse. I wish their hope may come true. But...

In my opinion situation is different in Pakistan. As a student of Sociology and a Pakistani, I observe that:

1. We are still not a nation. Some external threats or natural disasters unite us for the time being and when it passes, we return back to our own derh eint ki masjid.