Showing posts with label Sociograph. Show all posts
Showing posts with label Sociograph. Show all posts

Friday, September 4, 2015

یوم حجاب : اور مردوں کی فکریں

آج جماعت اسلامی کے امیر ایک سیمنار سے خطاب کر رہے تھے جو یومِ جحاب کے حوالے سے منعقد کیا گیا تھا ۔۔
اینڈ آئی واز سوچنگ کہ کیا کبھی ہم خواتین نے کسی ایسے سیمنار سے خطاب کیا ہے جس میں ہم یہ تقریر کریں کہ مردوں کی داڑھی کتنی ہونی چاہیے یا نہیں ہونی چاہیے ۔ یا انکی شلوار ٹخنوں سے کتنی اونچی ہو، اور پہلی نگاہ جو معاف ہوتی ہے اس کی لمبائی کتنے گھنٹے ہو ۔ ۔۔
شاید کبھی نہیں ۔۔ کیون کہ یہ ہمارا درد سر نہیں ۔۔ اللہ میاں جانے اور وہ جانیں ۔۔ تو پھر حجاب بھی ہمارا مسئلہ ہے ۔۔ سراج الحق صاحب اور ان جیسے تمام حضرات سے گزارش ہے کہ اللہ نے ہمیں جو احکامات دیے ہیں وہ ہم پورے کریں گے تو وہ ہمیں جزا دے گا نہین کریں گے تو وہ سزا دے گا ۔۔ آپ لوگ ہمارے معاملات پر سیمینار اور تقاریر سے پرہیز کریں ۔۔
بڑی مہر بانی ہوگی اگر مردوں کی نظروں کی لمبائی ناپنا شروع کردیں عورتوں کے حجاب کو چھوڑ کر ۔۔ اور ان کو بتائیں کہ اگر کوئی عورت برہنہ بھی جا رہی ہو راستے پر تو وہ اپنی نظروں کی حفاظت فرمائیں۔ کیونکہ جس آیت میں عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے اس سے اگلی آیت میں مرد کو اپنی نگاہ کی حفاظت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ آدھے اسلام کی تبلیغ نہ کریں 

Wednesday, August 26, 2015

جامعہ کراچی : ایان علی اسکینڈل


ایان علی کی جگہ زرداری یا کسی اور کرپٹ سیاستدان  کو جامعہ میں لیکچر کے لیے بلایا جاتا تو کسی کو پریشانی نہیں ہونی تھی۔ اصل مجرم وہ ہے ایان علی کو تو صرف استعمال کیا گیا تھا ۔۔ لیکن اس کا صرف ایک مہرہ ہونے کی بنا پر ایان علی کے حوالے سے جامعہ میں پڑھنے والے اور فارغ التحصیل طلباء و طالبات کو مسلسل شرمندہ کیا جارہا ہے کہ وہ جامعہ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔
حالانکہ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اسے جامعہ کراچی میں سرکاری طور پر کسی فنکشن میں مدعو نہیں کیا گیا تھا ۔ اوراسے جامعہ میں لانے کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن بھی لیا جارہا ہے۔ اسکے باوجود سوشل میڈیا پر مسلسل جامعہ کراچی کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
تمام نامی گرامی ماڈرن یونی ورسٹیوں میں نیو ائیر اور بسنت پر ہونے والے مجرے بھی اتنے ہی قابل مذمت ہیں جو پوری انتظامیہ کی رضامندی اور شمولیت سے ہوتے ہیں۔ لیکن ان پر نہ کسی کو اعتراض ہوتا ہے نہ ہی  شرمندگی

Monday, July 27, 2015

Sindh vs Panjab

پنجاب سے مسلسل کسی دہقان ، کسی مزدور، کسی خوانچہ فروش، کسی ہوٹل پر بیرا گیری کرنے والے، تندور پر روٹی لگانے والے بچوں کے میٹرک اور انٹر میں ٹاپ کرنے کی خبریں آتی ہیں۔
 کبھی سندھ سے بھی کوئی ایسی خبر آئے، کیا سندھ بشمول کراچی میں ذہانت صرف متمول گھرانوں کے بچوں میں ہی پائی جاتی ہے یا دولت کے ذور پر ذہانت ہار جاتی ہے۔

Wednesday, July 22, 2015

Stay out of the Herd :P

یعنی ذرا ہٹ کے, عوام سے الگ
Don't be So Common (read Cheap)

بھئی آپکا جو دل چاہے وہ عنوان سمجھ لیں ۔۔ لیکن اس کا اصل عنوان ہے :

سوشل میڈیا پر خود کو کلاس کا شو کرنے کے طریقے :P
ویسے تو اتنی دیر میں آپ کو اس بلاگ کے مندرجات کا اندازہ ہوگیا ہوگا ۔۔ لیکن پھر بھی پڑھ لیں، آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ فدوی کا ہر بلاگ ذرا ہٹ کے ہی ہوتا ہے ۔۔ یعنی خاص الخاص۔ خیر آج ہم آپکو سوشل میڈیا پر خود کو سب سے الگ نظر آنے اور اپنی اہمیت بڑھانے اور جتانے کے گر بتائیں گے جن پر ہم سے خود کبھی عمل نہیں ہوپاتا ۔۔ تھوڑے تُھڑ دُلے جو واقع ہوئے ہیں ۔ سوشل میڈیا سے ہماری مراد ویسے تو فیس بک ہے ۔۔ لیکن ہمیں یقین کی حد تک شک ہے کہ دیگر سوشل ویب سائیٹس اور ایپس پر بھی پاکستانی ایسے ہی behave کرتے ہوں گے، پاکستانی جو ہوئے ۔ 

Sunday, July 12, 2015

Tag-along

سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی ایک نابکار عمل ٹیگنگ آیا  ہے ۔۔ جس کا جی چاہتا ہے آپ کو اپنی پوسٹ میں یا کسی اور کی پوسٹ میں ٹیگ کر کے اپنے لیے مسلسل "ثواب" دارین کا بندوبست کر لیتا ہے، جب جب آپ کو ایک عدد نوٹی فیکیشن ملتا ہے آپ ٹیگ کرنے والے کی شان میں کلمات ادا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ٹیگنگ صرف سوشل میڈیا کی پوسٹوں تک محدود نہیں ہے نہ ہی ٹیگنگ سوشل میڈیا کی ایجاد ہے ۔۔ ہم من حیث القوم ٹیگنگ کے بڑے پرانے شوقین ہیں۔

Thursday, July 2, 2015

ولدالحرام

کچھ ایسے ہیں جو بس اجنبی نمبروں پر ایس ایم ایس کر کے دل پشوری کر لیتے ہیں ۔۔ آ پ لاکھ "خاموشی ہزار پسوڑیوں سے بچاتی ہے" والی پالیسیوں پر عمل کر لیں مگر ایک دن حد ہو ہی جاتی ہے۔بھلا آ پ کی والدہ بستر مرگ پر ہوں یا آپ کے جگر کے ٹکڑے ہسپتال میں داخل ہوں ۔ آپ کے لیے ہر ایس ایم ایس اور ہر کال قیمتی ہو اور ایسے میں آپ کومفت کے ایس ایم ایس سبسکرپشن جاری و ساری رہے۔ کتنی جھنجھلاہٹ ہوتی ہے ایسے ایس ایم ایس دیکھ کر ۔ اللہ کرے کوئی ان ولدالحراموں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے۔

Wednesday, June 24, 2015

سرِ آئینہ تیرا عکس ہے


آپ نے پلانیٹ آف دی ایپس دیکھی ہے اصلی والی [یاد رہے کہ کسی بھی سلسلے کی پہلی فلم اوریجنل تخلیقی شاہکارہوتی ہے، اس کے بعد اسکی کاپی پیسٹ ہوتی رہتی ہے، اور حال ہی میں بنائے جانے والی پلانیٹ آف دی ایپس بھی کاپی پیسٹ ہی ہے]، کہنے کا مطلب ہے ہمارے پسندیدہ ہیرو Charlton Heston والی ۔ نہیں دیکھی تو فوراً دیکھ لیں۔ اس فلم کا بنیادی تصور یا مرکزی خیال یہ تھا کہ اگر دنیا پر جانوروں یعنی بندروں کی حکومت ہو جائے اور انسان این ڈینجرڈ اسپیشی ہو جائے تو کیا ہوگا۔ جانور انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔ فلم بڑی مزے دار تھی لیکن تھی انسانوں کی ہی متصور conceive کی ہوئی اور بنائی ہوئی۔ 

Saturday, June 13, 2015

کتا کانفرنس

جی ہاں وہی پطرس بخاری والے کتے، آپ کو کبھی رات گئے کتا کانفرنس سننے کا اتفاق ہوا ہے، اگر آپ ایک متوسط علاقے میں یا اشرف المخلوقات میں سے مخلوقات کے علاقے میں رہتےہیں تو ضرور یہ اتفاق ہوا ہوگا ۔ کتا کانفرنس کا اصول یہ ہے کہ محلے کے سارے کتے اچانک آدھی رات کو ایک ساتھ بھونکنا شروع کر دیتے ہیں ۔ سب ایک دوسرے کو سنا رہے ہوتے ہیں ۔ اور کوئی کسی کی سن نہیں رہا ہوتا۔ عوام کے پلے کچھ نہیں پڑتا، الٹا نیند خراب ہوتی ہے۔ بھلا کوئی پوچھے کہ تم جس پر بھونک رہے ہو اسے خود بھی بھونکنا آتا ہے۔ تو تم نے اس پر بھونک کر کیا کمال کیا۔


Friday, May 29, 2015

بجٹ کی بہاریں

پہلے تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہو کیا رہا ہے ۔ آخر شہر اس قدر تیزی سے کیونکر ترقی کر رہا ہے ۔ بھلا یہ کوئی انصاف ہے کہ جن رولر کوسٹر رائیڈز کو انجوائے کرنے کے شوق اور امید میں ہم ہر صبح گھرسے دفترعازم سفر ہوتے تھے ظالموں نے انہیں اچانک خاک نشیں کر دیا تھا۔ سڑکوں پر کھدے نقش و نگار جن کے درمیان ہم زگ زیگ ڈرائیونگ کی پریکٹس کیا کرتے تھے ان پر نئی قالین کاری کر دی گئی۔ اب کوئی بتائے کہ

محبت ہو گئی جن کو وہ دیوانے کہاں جائیں
مطلب ۔۔ اپنا ناشتہ ہضم کرنے :P

Sunday, May 24, 2015

لاہور ای لاہور اے :P

آجکل زمبابوے کی کرکٹ ٹیم اسلامی جمہوریہ پنجاب کے دورے پر ہے .. ٹیم صرف لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہی سارے میں سارے میچ کھیل کر واپس اپنے ملک روانہ ہو جائے گی.
اس سے پہلے چین کے صدر اسلامی جمہوریہ پنجاب کے دورے پر تھے جس کا دارالحکومت لاہور ہے .جس کے بارے میں پہلے مشہور تھا لہور لہور ہے ... اب کہتے ہیں 

لاہور ہی لاہور ہے

بس :P

پی ایس: نواز شریف کی یہ ریکارڈ ہے کہ یہ کسی بین الاقوامی مہمان کو کراچی نہیں آنے دیتا بھلے یہاں قائد اعظم ہوں۔ انکا اتنا ہی کام تھا کہ وہ مسلم لیگ چھوڑ جائیں اور یہ اس کے انڈے بچے سہتے رہیں ۔

Thursday, May 7, 2015

غریبی کے سائیڈ ایفیکٹس بلکہ آفٹر شاکس

عمرانیات کی کلاس میں استاد نے کلچر پڑھاتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا کہ کلچر آف پاورٹی، پاورٹی آف کلچر میں تبدیل ہوجا تا ہے۔ یہ جملہ اس وقت تو یاد کر لیا تھا کہ امتحانی کاپی میں لکھ کر استاد کو متاثر کرنے کے کام آئے گا کہ ہم کتنے فرمانبردار شاگرد ہیں ، استاد کا کہا کتنا یاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا تو اس جملے کا مطلب صحیح سے سمجھ آیا ہے، گویا بال جھڑنے کے بعد کنگھی مل گئی ہے۔

جب آپ نے ایک عمر غریبی میں گزاری ہو تو غریبی کا کلچر اور مائنڈ سیٹ آپکے لہو میں سرائیت کر جاتا ہے، آپ ہمیشہ ہر شے کو اسی آئینے میں دیکھتے ہیں۔ غریبی خاص کر غریب بچپن آپ میں کچھ مخصوص اور مزیدار عادتوں کا باعث بنتا ہے۔

Wednesday, April 29, 2015

کراچی کی ٹریفک: ہوکے اور کچیچیاں

کچھ گاڑیاں سڑک پر ایسے چل رہی ہوتی ہیں جیسے ان کو ابھی ابھی "مسلمان" کیا گیا ہو یا پھر ان کو چلانے والوں کے ساتھ یہ حادثہ ابھی تازہ ہو۔ نہ خود چلیں گے نہ آپ کو راستہ دیں گے۔

موٹر بائیک کا ہارن عموماً ایکسلریٹر المعروف ریس کے ساتھ لگا ہوتا ہے، جتنی زیادہ رفتار اتنا ہی زیادہ اور مسلسل ہارن بجے گا۔ ایک موٹر بائیک پر پانچ لڑکے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے چپک کر بیٹھے ہونگے جیسے فیکٹری سے ایک ساتھ ایک پزل کے ٹکڑوں کی طرح پیک ہو کر آئے ہوں۔ کھول لیں اور پھر سے جوڑ دیں تو ہر جوڑ اپنے سانچے میں فٹ ہو جائے گا۔ مزے کی بات ایسی بائیک چلانے والوں کو ٹنکی پر بیٹھ کر بائیک چلانے کی ایسی عادت پڑتی ہے کہ اکیلے بھی بائیک چلا رہے ہونگے تب بھی ٹنکی پر چڑھ کرہی چلائیں گے۔

Tuesday, December 30, 2014

نوبل پرائز کا حقدار کون

ایک طرف صحنتمد ملالہ ہے ۔ جس کے والدین سر پر سایہ فگن ہیں، جس کے والد کا اپنا اسکول تھا۔ اور وہ والدین کے سائے میں تعلیم کے لیے کوشاں تھی /ہے۔ جس کے ساتھ ساری دنیا کی مدد شامل ہے۔ 

دوسری طرف تھرپارکر کی پولیو زدہ آسو کوہلی ہے، یتیم اور معذور۔ نہ پیسہ ہے نہ وسائل نا کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا۔ ایک وقت کھانے کو ہے تو دوسرے وقت کا نہیں پتہ۔ لیکن خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے گاوں کے دیگر بچوں کو بھی تعلیم دے رہی ہے ۔ صرف اور صرف اپنے زور بازو پر ۔

----------------------------

پی ۔ ایس: یہاں ملالہ کے صحیح یا غلط کا سوال نہیں ہے۔ وہ ایک علیحدہ بحث ہے

Sunday, October 26, 2014

جس تن لاگے وہ تن جانے

ایک" اہل زبان" سیاسی پارٹی کے لمبی زبان والے سیاستدان فرماتے ہیں کہ اگر آج ان کو الگ صوبہ دے دیا جائے تو کل کو افغان مہاجرین بھی صوبہ مانگنے لگیں گے۔ ۔۔ توہمارا اسٹیٹس اس ملک میں افغان مہاجرین کے برابر ہے. یا شاید ان سے بھی کم تر .. انہیں تو اس ملک میں پناہ دی گئی تھی ، مہمان نوازی کی گئی تھی اور ہمارے اجداد تو بنا بلائے ہی چلے آئے تھے ... یہ سوچ کر کہ کیا ہوا جو ان کا علاقہ پاکستان میں شامل نہیں ... وہ تو پاکستان بنانے میں شامل تھے نا ....

Saturday, October 25, 2014

نوحہ گرانِ ماضی

بحثیت قوم ہماری عادات کہن میں سے ایک عادت ہر قسم کے شاندار ماضی کی نوحہ گری بھی ہے ..

کوئی مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کی نوحہ گری میں مصروف ہے جب اسلامی خلافت یا سلطنت کی حدیں کہاں سے کہاں تک تھیں تو کوئی آج یورپ و افریقہ کی علمی ترقی کو مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات کا آئینہ دکھا رہا ہے کہ تم کیا بیچتے ہو یہ تو ہم تھے جس نے تمہیں سوداگری کی الف بے سکھائی.

Wednesday, October 22, 2014

حاصل ملاقات: لاہور سے یارقند @ کراچی 19 اکتوبر 2014

ہم جیسے غریب غربا ایک تو خود کو بہت کمتر اورنااہل سمجھتے ہیں .. دوسرا سلیبریٹیز سے بہت مرعوب ہوتے ہیں اور چاہے انکو کتنا بھی پسند کریں اگر وہ سامنے بھی ہوں تو ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر پاتے, بات کرنا تو اس کے بعد کی بات ہے .. اور فون کرنا اور فون پر بات کرنا تو ناممکنات میں گنتے ہیں.
قبل از یوم گزشتہ ہمارا بھی یہی حال تھا. ہم سمیرہ سے کئی بار یہ گوش گزار کر چکے تھے کہ بھئی سلیبز سے دور کی دعا سلام اچھی .. اور پہلی بار ہم لاہور چاچا جی سے ملنے کے شوق میں کم اور سمیرا سے ملنے کے شوق میں زیادہ گئے تھے.
ہم چاچا جی سے بھی دور دور کی دعا سلام کے حق میں تھے ... پہلی بار جب سمیرا نے چاچا جی سے فون پر بات کروائی تھی تو گھبراہٹ میں کچھ الفاظ حلق میں ہی قیام پذیر ہوگئے اور جو باہر آئے وہ اپنی ترتیب بھول گئے بعد والے لائن توڑ کر آگے آگئے اور آگے والے منہ دیکھتے رہ گئے ان کی باری آئی تو چراغوں میں روشنی نہ رہی. اور کچھ الفاظ تو دوبارہ بھی باری لینے لگ گئے.

Thursday, August 14, 2014

RIP Rationality

ترقی پذیر قوم ہونے کےناتے ہم جذباتیت پر یقین رکھتے ہیں اور ریشنالٹی یا ریشنلزم کا گزر ہمارے قریب سے نہیں ہوتا, اس جذباتیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اختلاف رائے کو دشمنی کا درجہ دیتےہیں اورہم خیالی دوستی اور اپنائیت قرار پاتی ہے.ہم میں سے ہر ایک کی دنیا میں یا تو فرشتے ہوتے ہیں یعنی اپنے جو ہر غلطی سے مبرا ہوتے ہیں یا پھر شیاطین جن میں کوئی خوبی ہو ہی نہیں سکتی. بس ہمارے دوستوں اور دشمنوں میں حضرت انسان کی کمی ہمیشہ رہتی ہے جو خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے۔۔

طفل مکتب

فاطمہ پورے گھر کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے, وہ چاہتی ہے کہ جیسا وہ کہے جیسا وہ چاہے سب ویسا ہی کریں. اگر نہ کریں تو ناراض ہوجاتی ہے, خوب غصہ کرتی ہے. کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ اسکی یہ کائنات(گھر) صرف اور صرف اسکے لئے تخلیق کی گئی ہے. اسکی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لئے. اسکے گرد گردش کرنے کے لئے. جب اسکی یہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ناراضگی اور تلخی کا اظہار کرتی ہے.

ہم سب میں ایک فاطمہ پوشیدہ ہے, ایک ساڑھے تین سال کا بچہ. کسی نہ کسی حد تک ہم میں سے ہر ایک اسی گمان میں رہتا ہے کہ یہ دنیا اور اسکے اسباب بس میرے ہی لئے تخلیق کئے گئے ہیں. لہذہ ہر کام میری مرضی کے مطابق ہونا چاہئے, ہر شخص کو میری توقعات پر پورا اترنا چاہئے. لیکن اکثر و بیشتر ایسا ہوتا نہیں ہے, نتیجہ ہر شخص اپنی ٹوٹی ہوئی امیدوں کا غصہ اپنے ارد گرد ہر شخص پر نکال رہا ہوتا ہے. گویا ارتقاء کی سیڑھی پر ہم ابھی تک طفل نادان  ہی ہیں

Tuesday, July 29, 2014

بھائی لوگ :P

"نسرین تم باقی سب کی طرح مجھے بھائی کیوں نہیں کہتیں؟"

"کیونکہ آپ سے بات کرنے کے لئے مجھے آپ کو بھائی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بطور ایک انسان بھی آپ سے بات کرسکتی ہوں۔ میں آپکو بھائی کیوں کہوں، مجھے اپنی نیت پر اعتبار نہیں یا آپکی "

یہ اس گفتگو کا نچوڑ ہے جو فیس بک پر تقریباً دوسال گپیں لگانے کے بعد ہو رہی تھی۔ ہماری دوستی کے حلقے میں شامل تقریباً تمام افراد بلا تفریق ان کے نام کے ساتھ بھائی لگا کر پکارتے ہیں لیکن میں ہمیشہ انکا نام لیتی ہوں۔ انکا کہنا بھی ایسا غلط نہیں تھا ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں صنفی تقسیم بہت گہری ہے۔ مرد و عورت کو زبردستی اور مصنوعی طور پر الگ الگ شیلفوں میں سجایا ہوا ہے۔

Monday, July 21, 2014

مقاصد اور ذرایع

زندگی میں کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور کچھ اشیاء ان کے حصول کا وسیلہ یا ذریعہ۔ خرابی جب پیدا ہوتی ہے جب ہم ان وسائل یا ذرائع کو ہی اپنا مطلوب و مقصد بنا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس۔ لباس ایک ذریعہ ہے جسم کی موسمی شدت اور تبدیلیوں سے حفاظت اور آرام دینے کے لیے۔ مقصد نہیں۔ لیکن ہم نے لباس کو اپنا مقصد بنا لیا ہے، لباس کیسا ہو، کس ڈیزائنر کا ہو، کتنا مہنگا ہو، ہم نے جسم کی حفاظت اور آرام کے بجائے لباس کو مطلوب و مقصود مومن بنا ڈالا۔