Thursday, January 10, 2013

Will Pakistan follow the Tahrir Square discourse?

Pakistan is passing through a Nazuk Dour for more than 65 years. There is a chain of change in Middle East and Arab countries. Some people hope that Pakistan will follow the "Tahrir Square" discourse. I wish their hope may come true. But...

In my opinion situation is different in Pakistan. As a student of Sociology and a Pakistani, I observe that:

1. We are still not a nation. Some external threats or natural disasters unite us for the time being and when it passes, we return back to our own derh eint ki masjid.

Wednesday, January 9, 2013

قاہرہ اور کراچی

آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، اس شہر یا ملک کا اپنے شہر اور ملک سے تقابل ایک لازمی امر ہے، دانستہ یا نا دانستہ آپ ہر اچھائی یا برائی کا اپنے ملک اور معاشرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔اگر نہ بھی کریں تو ایک سوال آپ کو اس تجزیہ پر مجبور کر دے گا، " دو یو لائیک ایجپت؟" جو آپ سے ہر مصری ضرور کرے گا ۔ حتیٰ کہ ٹیکسی ڈرائیور بھی۔ قاہرہ کراچی کی طرح ہے، سڑکیں ، بازار، محلے، پوش علاقے، غریب کچی بستیاں، مہنگے شاپنگ مالز، لوکل مارکیٹیں، جمعہ بازار سب کچھ وہی ہے جو کراچی میں ہے، بلدیہ عظمیٰ کی حالت بھی بلدیہ کراچی والی ہے، جو سڑک کھود دی ہو مہینوں تک دوبارہ نہیں بنے گی۔ ملک کے ہر کونے سے لوگ قاہرہ آتے ہیں اور پھر واپس نہیں جاتے۔ ایک چیزہے جس پر قاہرہ والے فخر کر سکتے ہیں، وہ ہے زیر زمین میٹرو ٹرین، جو سطح زمین کی ٹریفک کے بوجھ کاایک بڑاحصہ قاہرہ کے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب میں اٹھائے اٹھائے پھرتی ہے۔ صبح اور شام کے اوقات میں اسقدر رش ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ، ہر دو منٹ بعد ایک ٹرین آتی ہے ایک جاتی ہے۔ کاش کوئی کراچی میں بھی میٹرو نہیں تو لوکل ریلوے ہی چلا دے۔

مصر کا معاشرہ تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے، کئی دہائیوں سے ٹورسٹوں کے سیلاب کے زیر اثر مصری نہ پورے عرب / مسلمان رہے نا ہی پورے یورپی بن پائے ہیں۔ لیکن ایک کام انھوں نے کیا ہے وہ اپنی معاشرت کو مذہب سے الگ کر لیا ہے، مذہب، خصوصاً الازھر عام مصریوں کی زندگی میں اسطرح دخل نہیں دیتا جس طرح جماعت اسلامی کے کارکن پاکستان میں ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑاتے ہیں اور دوسروں کا جینا حرام کرتے ہیں۔خصوصاً قاہرہ میں اگر آپ مذہب پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو بھی آزاد ہیں اور اگر گرل فرینڈ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرنیل کے کنارے واک کرنا چاہتے ہیں تو بھی آزاد ہیں۔ واک کے دوران وقت نماز آگیا تو دونوں مسجد میں جا کر با جماعت نماز ادا کریں گے اور پھر اپنی واک جاری کرلیں گے۔ محمد مرسی کی حکومت میں حالات تھوڑے تبدیل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ہم سے بہتر ہی ہیں۔

قاہرہ میں خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں اور اس میں تعلیم یافتہ یا ناخواندہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے، ہر گلی/ سڑک کے کونے پر ایک کھوکھا موجود ہوتا ہے جسے عموماً خواتین چلاتی ہیں ۔ جس طرح کراچی میں ہر کونے پر پان کی دکان ہوتی ہے، لیکن اس کھوکھے پر مشروبات، سگریٹ، چپس، بسکٹس وغیرہ دستیاب ہوتے ہیں، قاہرہ کے باشندے چپسی اور پیپسی کے نشئی ہیں [چپسی چپس کا مشہور برانڈ ہے لہذہ چپس کا نام ہی چپسی پڑ گیا ہے] ۔ جیولری شاپ ، منی ایکسچینج وغیرہ پر بھی خواتین ہی سیلزپرسن ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ڈپلیکیٹ چابی بنوانے کی ضرورت پیش آئی تو دکان میں ایک ۲۲/ ۲۳ سال کی دوشیزہ بیٹھی تھیں ۔ ہم سمجھے کہ یہ بھی چابی بنوانے آئی ہونگی، پتہ لگا کہ وہ ہی دکاندار ہیں، ۳۰ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں چابی بنائی اور ہمارے ہاتھ میں تھما دی، ہم کراچی والے ہکا بکا دوشیزہ کو دیکھتے رہ گئے، اگر صنف مخالف ہوتے تو قسم سے روز ایک چابی گم کر دیتے۔

قاہرہ کی حد تک شادی خواتین کے تعلیمی کیریئر میں دخل انداز نہیں ہوتی، شادی کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم جاری رکھنا عام معمول ہے۔ ایک خاتون نے راقم الحروف کے سامنے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ کا دفاع کیا اور دو دن بعد اپنی دوسری بیٹی کو جنم دیا۔

بسوں میں مردوخواتین کی سیٹوں کی تخصیص نہیں ہوتی، ہم ٹھہرے کراچی کی جینڈر ڈسکریمنیٹڈ مخلوق، شروع میں تو بہت سنمبھل سنمبھل کر بسوں میں بیٹھتے رہے، اکثر تو کھڑے رہنے کو ہی ترجیح دیتے ، لیکن " چلو تو سہی اعتبار بھی آ ہی جائے گا" کے مصداق عادت ہو ہی گئی۔ آخر کب تک کمر اکڑا کر بیٹھتے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ مصریوں کے برابر تو ہم دھڑلے سے بیٹھ جاتے تھے، لیکن اپنے پاکستانی کولیگ جو کہ ایک خان صاحب تھے، ان کے برابر بیٹھتے ہوئے اختلاج کا شکار ہو جاتے تھے ، ہم سے زیادہ خان صاحب ۔ لیکن تجربے نے یہ سمجھایا کہ جب تک آپ بسوں میں آپ جینڈر ڈسکریمنیشن کرتے ہیں حضرات کو کافی بے چینی رہتی ہے، لیکن "محمودہ" و ایاز کو ایک ہی صف میں بٹھا دیں تو رفتہ رفتہ بے چینی و دلچسپی ، بے حسی و بے رخی میں بدل جاتی ہے، کم ازکم مصریوں کی ۔

قاہرہ کے باسی سبزے/ باغیچوں کے شوقین ہوتے ہیں، شائد اسکی وجہ یہ ہو کہ مصر کا ۹۰ فیصد سے زیادہ رقبہ صحرا پر مشتمل ہے، تقریباً ہر گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا باغیچہ ضرور ہوتا ہے،جس کی بہت زیادہ خاطر داری کی جاتی ہے۔

ایک اور خوبی یہ ہے کہ خواہ غریب ہو یا امیر، تعلیم یافتہ ہو یا نا خواندہ، ہر خاندان شام میں اپنی بساط کے مطابق سیر و تفریح کو ضرور نکلتا ہے، خواہ وہ مکان کے سامنے والے باغیچے میں جا کر بیٹھنا اور پڑوسیوں سے گپ شپ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ دریائے نیل کے کنارے یا نیل میں کشتی کی سیر زیادہ تر باشندوں کی پسندیدہ تفریح ہے، اسکے علاوہ پورے قاہرہ میں ان گنت پارک، باغیچے اور ہوٹل ہیں جہاں سب اپنی اپنی بساط کے مطابق شام کا وقت گزارتے ہیں۔ ہم کراچی والے اس ضمن میں بہت بے حس اور مشینی ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس اپنے لیے اور اپنی فیملی کے لئے وقت ہی نہیں ہے، اور اگر وقت ہے تو امن و امان کی صورت حال اجازت نہیں دیتی۔ خیال رہے کہ اس میں قاہرہ کے اوسط درجے سے کم حیثیت باشندے بھی شامل ہیں ، کیا آپ کراچی میں ایک چوکیدار یا گارڈ سے یا اس کی فیملی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ روزانہ شام کو باقاعدہ سیرو تفریح کے لئے نکلیں گے، چاہے وہ نزدیکی شاہراہ پر ایک واک ہی ہو۔

قاہرہ کا آرکیٹکچر بہت ہی خوبصورت ہے، قدیم اسلامی اور قبطی عمارات کی خوبصورتی اپنی جگہ پر ہے لیکن نئی بنائی جانے والی عمارات میں بھی حس لطافت نظر آتی ہے، نہ صرف سرکاری عمارات اور مساجد بلکہ عام عمارات جیسے کہ نئے تعمیر ہونے والے فلیٹس میں بھی خوبصورتی کا پہلو نظر آتا ہے، جو کم از کراچی میں مفقود ہے۔

مصر میں باالعموم اور قاہرہ میں باالخصوص مساجد میں خواتین کا با جماعت نماز میں شامل ہونا عام بات ہے، ہر مسجد میں ایک جانب ٹھیک ٹھاک وسیع و عریض قطعہ خواتین کے لیے مخصوص ہوتا ہے، خاص کر جمعہ کی نماز میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد شامل ہوتی ہے، جمعہ کا دن بڑی مساجد میں ایک طرح سے فیملی پکنک ڈے ہوتا ہے، لوگ نماز پڑھ کر وہیں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں بچے وہیں مسجد کے باغیچے میں کھیلتے رہتے ہیں وہیں لنچ ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی مسجدوں کو اتنا مقدس بنادیاہے کہ اکثر اس تقدس سے ڈر کر ہم مسجد جاتے ہی نہیں اور رفتہ رفتہ مسجد کے ساتھ ساتھ اسلام سے بھی دور ہوتے جاتے ہیں۔

کچھ مخصوص مساجد میں نکاح رجسٹرار کے دفاتر بنا دیے گئے ہیں، جس کے ساتھ ایک سے زائد بڑے ہال بنے ہوتے ہیں ان مساجد میں بیک وقت ۵/۶ نکاح کی تقریبات ہوتی ہیں جن میں دلہا دلہن کے دوست اور رشتہ دار شریک ہوتے ہیں ، نکاح کے بعد نیا جوڑا سب کے ساتھ پورے شہر کا ایک چکر لگاتا ہے۔ اس دوران گاڑیوں کے ہارن سے ہاتھ ہٹانا منع ہوتا ہے ،اس کاروانِ شادی کا اختتام نیل کے کنارے یا مقطم کورنیش پر ہوتا ہے، مقطم کورنیش شہر سے نسبتاً اونچی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے آپ رات میں پورے قاہرہ کو جگمگ کرتا دیکھ سکتے ہیں اور دن میں براہ راست اہرامات ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ قاہرہ میں شادی کرتے ہیں اور آدھی رات کے بعد مقطم کورنیش کا ایک چکر جلوس سمیت پوں پوں پاں پاں کرتے ہوئے نہیں لگاتے اور پردیسوں کی نیند نہیں برباد کرتے تو آپ کی شادی جائز نہیں ہوتی۔

ایسا نہیں ہے کہ قاہرہ میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے، امیر غریب کی تفاوت بہت واضح ہے، سٹریٹ کرائمز انقلاب کے بعد سے بہت بڑھ گئے ہیں بلکہ ہم غیر ملکیوں کو تو سٹریٹ کرائمز نظر ہی انقلاب کے بعد آئے ہیں، حسنی مبارک کے دور میں سٹریٹ کرائمز سننے میں نہیں آئے تھے۔ انقلاب کے بعد پولیس شتر بے مہار ہو گئی ہے، بلکہ سڑکو ں سے غائب ہی ہو گئی ہے۔ 

ٹورسٹ ملک ہونے کی وجہ سے ہر دوسرا شخص "تورست گائید" ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، خواہ دکاندار ہو یا ٹیکسی ڈرائیور۔ لیکن ایک بات باعث حیرانی تھی کہ برسوں سے ٹورسٹ ملک ہونے کے باوجود عوام کو اب تک ٹورسٹوں کا عادی ہو جانا چاہیے تھا، لیکن مقامی لوگ ٹورسٹوں پر خصوصاً گوریوں اور گوروں پر نہ صرف آوازیں کستے ہیں بلکہ ہراساں بھی کرتے ہیں، وہ بھی قاہرہ میں جو کہ دارالخلافہ ہے، تو دوسرے شہروں کا کیا حال ہوگا۔

قاہرہ کی آبادی انکے مطابق بیس ملین سے زائد ہے، دوران انقلاب اور اب صدر محمد مرسی کے قوانین کے خلاف تحریر اسکوائر اور شہر کے دوسرے مقامات پر مظاہرے ہوئے لیکن کراچی کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو مظاہرین نے شہر کو نہ ہونے کے برابر نقصان پہنچایا ہوگا، اگر یہی مظاہرے کراچی میں ہوتے تو اب تک پورا کراچی راکھ کا ڈھیر بن چکا ہوتا۔

کیونکہ مصر میں بارش بہت کم ہوتی ہے ، اس لیے قاہرہ کی حد تک پبلک ڈرینیج کا نظام نظرنہیں آتا، ہر بلڈنگ کا 'بوّاب' یا چوکیدار ہر جمعرات کو پوری بلڈنگ کی دھلائی کرکے پانی سڑک پر بہنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے، اور اگر بارش ہو جائے تو بس نہ پوچھیں کیا حال ہوتا ہے۔ پورے فلیٹ میں واش روم کے علاوہ کہیں اور سے پانی کی نکاسی کا کوئی انتطام نہیں تھا، بارش کے بعد بالکنی دو یا تین دن تک پانی سے بھری ہے تو بھری ہے، ہوا سے ہی خشک ہوگا تو ہوگا۔

مصر کے حسن کے بہت چرچے سنے تھے ، پر چرچے ہی تھے حسن کہیں نہیں دیکھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہمارے ہاں کی عام لڑکی بھی عام مصری لڑکی کے سامنے خوبصورت ہے، اگر کہیں حسن تھا بھی تو کئی کلو گرام چربی میں پوشیدہ تھا ۔ میرا خیال تھا کہ شائد مجھے تو خالص خواتینی حسد کے باعث حسن نظر نہیں آتا[ہم اپنی نظر میں خود جو ملکہ حسن ہیں]، بے شرم ہو کر ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ کو مصری خواتین میں مردانہ نظریے سے حسن نظر آتا ہے، جواب ادھر سے بھی نفی میں ہی تھا۔ البتہ مصری خواتین جو میک اپ کرتی ہیں وہ نرم ترین الفاظ میں گولا گنڈہ کہا جا سکتا ہے ، اگر آپ نے گولا گنڈہ نیلے اور پرپل کلرز میں بھی دیکھا ہو تو،ویسے آپ اس میک اپ کو بلا مبالغہ پاکستانی بچوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

مصر کے کھانے بغیر نمک اور مرچ کے ہوتے ہیں جن کو مرچ کھانی ہو وہ ساتھ میں خشک چھوٹی لال مرچ رکھتے ہیں اور ہر نوالے کے ساتھ کھاتے جاتے ہیں۔ سب سے مشہور ڈش فول/فلافل اور تامیّہ/ طامیّہ ہے، ایک لوبیہ سے ملتے جلتے بیج سے مختلف طرح سے بنائی جاتی ہے، ثابت یا پیسٹ کو فول /فلافل کہا جاتا ہے، پیسٹ میں کچھ مسالے ملا کر کباب کی طرح تل کر تامیّہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری خاص ڈش کشری یا کوشری ہے جو دراصل کچھڑی کا عربی تلفظ ہے۔ موٹے چاول، کالے مسور، سفید چنے، دو تین طرح کی سپیگیٹی کو الگ الگ ابال کر مکس کر لیا جاتا ہے ساتھ میں براون کی ہوئی پیاز ، ٹماٹر پیسٹ، سرخ مرچ اور تیل پر مشتمل شربت نما ساس اور لہسن اور نمک کا لمبا پانی [ساس] ڈال کر کھایا جاتا ہے، یہ دراصل غریبوں کا کھانا تھا یعنی جو دال دلیا مل گیا ابال کر مکس کر کے کھا لیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں کی کھچڑی، برانڈڈ کوشری میں تبدیل ہو گئی ۔ اب کوشری التحریر ایک نامور ریسٹورنٹ چین ہے جو پورے مصر میں سب سے مزیدار کوشری سرو اور سپلائی کرتی ہے۔

قاہرہ کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم میکرو بس [بڑی بس]، مائیکرو بس [ہائی ایس ویگن] اور زیر زمین میٹروٹرین پر مشتمل ہے، کالی ٹیکسی اور میٹر ٹیکسی اس کے علاوہ ہے۔ قاہرہ کی بسیں کراچی کی بسوں کے مقابلے میں بیوہ ہوتی ہیں، کسی قسم کی کوئی سجاوٹ یا آرائشی اشیاء کا کوئی گزر نہیں بس میں۔ بسوں کی رفتار کے بارے میں راقم الحروف کا خیال تھا کہ کراچی کی ڈبلیو گیارہ کے پائلٹوں کا کوئی مقابل نہیں ، لیکن قاہرہ کی مائیکرو بسوں کے ڈرائیوروں نے ہماری یہ غلط فہمی دور کر دی۔ اگر کبھی خوف خدا سے واسطہ نہیں پڑا تو ایک بار قاہرہ کی مائیکرو بس ضرور آزمائیں، افاقہ ہوگا۔ البتہ ایک بات ماننے والی ہے، تیز رفتاری بھی کرتے ہیں، صبح شام ٹریفک جام بھی معمول ہیں لیکن رانگ سائیڈ ڈرائیونگ نہ ہونے کے برابر ہے، تمام غل غپاڑے کے درمیان ۹۹ فیصد ڈرائیور ایک دوسرے کو راستہ دے دیتے ہیں۔ 

قاہرہ میں سب سے اچھا روزگار ٹیکسی چلانا ہو سکتا ہے، 20 – 25 مصری پاونڈ میں پٹرول کی ٹنکی فل ہو جاتی ہے، اورآپ پورا قاہرہ کا چکر لگا سکتے ہیں۔ پرپانچ کلو میٹر بھی جانا ہو تو کرایہ بیس پاونڈ سے شروع ہوگا۔ میٹر ٹیکسی والا آپ کو اتنے لمبے راستے سے لے جائے گا کہ بیس پاونڈ سے زیادہ ہی کرایہ بن جائے۔ منافع بخش روزگار ہونے کے سبب زیادہ تر میٹر ٹیکسی ڈرائیور پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔

مقامی مارکیٹوں میں خصوصاً خان الخلیلی بازار جوکہ قاہرہ کی مشہور سوونئیر مارکیٹ ہے، میں خریداری کے تجربے سے اندازہ ہوا کہ اگر آپ کو کراچی میں گلیوں میں افغان/پٹھان سیلز مینوں سے خریداری کا تجربہ ہے تو آپ خان الخلیلی میں اطمینان سے شاپنگ کر سکتے ہیں ۔ دکان دار جس شے کی قیمت 100 پاونڈ بتائے آپ بلا کھٹکے 5 پاونڈ سے دام لگائیں 15 میں سودا پٹ جائے گا، اگر آپ بہت ماہر خریدار ہیں تو 15 سے کم میں بھی ممکن ہے۔

Saturday, December 8, 2012

ہم اور ہمارا اسلام

خواہ دنیا پاکستانیوں کو بنیاد پرست کہے، یا ساری مذہبی تنظیمیں ہمیں بے دین سمجھتے ہوئے، بنیاد پرست بنانے کی کوشش کرتی رہیں، لیکن تین سال سعودی، مصری اور دیگر عرب مسلمانوں کے ساتھ رہ کر اندازہ ہوا کہ ہم عام پاکستانی ان نام نہاد مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہیں، ہم لوگ اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب تھے تو عرب دین اسلام میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ ہم پرائمری اسکول میں، اسی غلط فہمی میں ہم عموماً "رہنمائی" کے لیے سعودی عرب کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری عام زندگی بہت حد تک اسلامی شعائر کے دائرے میں ہے، ہم دین میں ان سے آگے اورمنافقت میں ان سے پیچھے ہیں۔

یقینا ہم میں شرابی کبابی بھی موجود ہیں لیکن ایک عام اوسط پاکستانی رزق کی عزت کرتا ہے، کھانا کھانے سے متعلق چھوٹی چھوٹی سنتوں کا خیال کرتا ہے، ایک عام پاکستانی خاتون اپنے محرموں کے سامنے بھی ستر کا خیال رکھتی ہے، جامے سے باہر نہیں ہوتی، 'لیڈیز اونلی' محفل میں بھی ان کا لباس اخلاقی حدود میں رہتا ہے،عربی خواتین خصوصا" سعودی خواتین کا لباس، اللہ کی پناہ۔ سعودی حکومت کی سخت شرعی پالیسی نے سعودیوں کوضرور کنٹرول کیا ہے، ان کے اخلاق و خصائل کونہیں، سعودی عرب میں جو کچھ نہ کرسکیں وہ کہیں اور کر لیا، یہ اسلام تو نہ ہوا، سراسر منافقت ہوئی۔

عام پاکستانی مرد بھی لڑکیوں کو تاڑنے تک ہی محدود رہتا ہے، اگر کہیں ریڈ لائیٹ ایریا ہے بھی تو سارے کے سارے وہیں نہیں پائے جاتے، جو جاتے ہیں نظر بچا کر ہی جاتے ہیں، سعودی مرد حضرات مصر آتے ہی 'تفریح طبع' کے لئے ہیں، زیادہ تر پرانے قاہرہ کے خاص محلوں میں چکراتے پائے جاتے ہیں، جو ذرا شریف ہوتے ہیں وہ کسی مصری خاتون سے ہفتے پندرہ دن کے لیے نکاح کر لیتے ہیں، پندرہ دن بعد طلاق دی اور یہ جا اور وہ جا۔ مزے کے مزے، ضمیر بھی مطمعین رہتا ہے، آخر نکاح کرتے ہیں، گناہ نہیں کرتے۔ مصر کی غربت نےغریب والدین کو بیٹیوں کا دلال بنا دیا ہے، مخصوص علاقےجہاں غربت زیادہ ہے اس قسم کی کاغذی شادیوں کے لیے مشہور ہیں، امیر عرب بوڑھے کمسن لڑکیوں سے چند روزہ شادی کی ٹھیک ٹھاک قیمت دے دیتے ہیں، والدین کی قسمت سنور جاتی ہے اور لڑکی . . . لڑکیوں کو قسمت کا کیا کرنا ہے۔ جب 'صراط مستقیم' پر چلنے والوں کا یہ حال ہے تو باقی عرب ممالک کے شہریوں کا آپ خود اندازہ کرلیں۔ 

یہ تو ہوئی معاشرت، عبادت کی بھی سن لیں، نماز عربوں کی عادت میں شامل ہے، اسکا پرچار نہیں کرتے، کسی بھی جگہ دو بندے بھی ہونگے تو جماعت کرلیں گے، اچھی بات ہے، لیکن وضو پورا نہیں کرتے،میرے ساتھ ایک صاحبہ بازار میں تھیں، اذان ہوئی تو ہم قریب میں مسجد میں چلے گئے، میں نے عادت کے مطابق وضو کیا، انھوں نے صرف ہاتھ اور چہرہ، چہرہ بھی ایسے کہ سکارف تک نم نہ ہوا، موزوں پر مسح کر لیا، نہ گردن، نہ کان، نہ بال، پھر حیرت سے فرمایا، تم نے گردن، بال اور کان کا بھی مسح کیا ہے، میں نے پوچھا تم نے کیوں نہیں کیا، بولیں، کوئی کرتا ہے، کوئی نہیں کرتا۔ ساری نمازیں پڑھتے ہیں، پر پوری نماز نہیں پڑھتے، صرف فرض، نفل چھوڑیں سنتیں بھی نہیں۔

شب معراج، شب برات کا کچھ پتہ نہیں چلتا ، نہ عبادت نہ روزہ۔ ۔البتہ رمضان بہت ہی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ شب قدر کے آخری عشرے میں روز انہ شبینہ عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے، اس خصوصی نماز کو تہجد کہا جاتا ہے۔ معمولی سی رونق عید میلادالنبی پر ہوتی ہے، محرم پر وہ بھی نہیں نظر آتی.

پردہ نشینوں کا کچھ حال تو اوپر بیان ہے، باقی عرب خواتین کا حال کچھ اس طرح ہے، سوریا شام کی خواتین یورپین ہوتی ہیں، سودانی خواتین پاکستانی ہوتی ہیں، مصری خواتین مصری ہوتی ہیں یعنی اپنی طرح کی ۔ اسی سے نوے فیصد مصری خواتین سکارف لیتی ہیں، انکا اسلامی لباس سکارف اور اسکن ٹا ئیٹ جینز اور ٹاپ پر مشتمل ہوتا ہے، انکے خیال میں پردہ جلد ڈھکنے کا نام ہے جسم ڈھکنے کا نہیں، لہذہ حضرات بآسانی تمام نشیب و فراز معائنہ فرماتے رہتے ہیں

Tuesday, November 27, 2012

Like it or Not




There is a magic option on Facebook. Previously it used to be a button with a Thumbs-Up symbol, later it was replaced with an option. Traditionally I used to like things that really impress me. Since I started using Fakebook … oh sorry I mean Facebook I discovered new meanings of the word. Usually when I see something that is really interesting or makes me laugh I ‘Liked’ it. Soon I was surprised to see when one of the friends updated his status ‘Caught Fever’ and 25 people ‘Liked’ it.

زندگی کے ایٹم


جس طرح ایٹم کا ایک نیوکلئیس ہوتا ہے اور تمام الیکٹران اس مرکز کے گرداپنے اپنے دائروں میں چکراتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح انسانی زندگی بھی ایک مرکز اور دائروں پر مشتمل ہے۔ ہم انسان بھی مرکز میں رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد دائرے بنا رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہی اس رونق دنیا کا مرکز ہے باقی ساری دنیا اس کے گرد گھوم رہی ہے

ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے



عرب گوشت کے شوقین ہوتے ہیں، کسی کھانے میں اگر گوشت شامل نہ ہو تو اسکو کھانے میں گنتے ہی نہیں، کھانا تو دور کی بات، دوسری نظر بھی نہیں ڈالتے۔ خاص کر سعودی عرب کے لوگ کھانے کی سب سے زیادہ بے حرمتی کرتے ہیں، ان کے ہاں بچا ہوا کھانا سنبھال کر رکھنے کا رواج نہیں ہے، ایک پلاسٹک شیٹ بچھا کر اس پر کھانا کھاتے ہیں کھاتے ہوئے اپنے علاوہ سب کے سامنے سے کھاتے ہیں، دسترخوان پر کھانا جی بھر کر گراتے ہیں، آخر میں جو کھانا بچ جائے اسی پلاسٹک کے دسترخوان پر الٹ کر سیدھا کچرے کے ڈبے میں۔

Sunday, November 25, 2012

تبصرہ: فلم ہیر رانجھا



گو کہ فلم ستر کی دہائی میں ریلیز ہوئی تھی، لیکن ہم نے تو اب دیکھی ہے، ہم تو ابھی تبصرہ کریں گے۔

کیونکہ ہیرو 'ویلا' تھا یعنی اسے بانسری بجانے اور مفت کی روٹیاں توڑنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ کرنا ککھہ نہیں اور ناک دو فٹ 'اچی'، لہٰذہ بھرجائی کا طعنہ دل پہ ٹھااا کر کے لگ گیا۔ ہیرو کے اپنے شہر ہزارہ میں 'خبصورت' لڑکیوں کی شدید کمی تھی۔ اور عشق فرمانے کے لئے 'ختون' کا خبصورت ہونا ایک بنیادی شرط تھی، کم از کم ڈائریکٹر کی۔