Thursday, April 10, 2014

مڈل کلاس شریف لڑکیاں

مڈل کلاس شریف لڑکیوں کا المیہ یہ ہے کہ لڑکوں کی بہ نسبت یہ پڑھ لکھ جاتی ہیں۔کچھ تعداد ان میں سے جاب بھی کرلیتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں یہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے تھوڑا بلندہو جاتی ہیں۔ جس کے اپنے الگ سے نقصانات ہیں۔

ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ لڑکیوں کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہ بہت تیز ہوتی ہیں۔ لڑکے پٹا لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے, یہ اپنی مرضی کرتی ہیں, یہ گھر نہیں بسا سکتیں۔ یہ مفروضے کم پڑھی لکھی اور گھریلو خواتین کے جانبدارانہ خیالات پر مشتمل ہوتے ہیں, جو ہمارے معاشرے میں اکثریت میں ہیں, سو جمہوریت یہی ہے کہ اکثریت ہی صحیح کہتی ہے۔

Wednesday, October 23, 2013

چرنا آئی لینڈ

عید کی چھٹیوں میں انتہائی بور ہوکر خود کشی کے مختلف طریقوں پر غور فرمانے کے دوران ایک روح افزاء قسم کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ ہم ویک اینڈ پر کیماڑی سے چرنا آئی لینڈ جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، سوچا آپ سے بھی پوچھ لیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ تھوڑے غورو فکر کے بعد ہم نے ہاں کر دی۔ جب ایک شریف آدمی آپکو صبح کے پانچ بجے تقریباً گھر سے پک اینڈ ڈراپ کی آفر کر رہا ہے تو آپ کے پاس انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ مزمل اینڈ کمپنی سے ہماری ملاقات قاہرہ میں ہوئی تھی۔ یہ ایک الگ داستان ہے، جو ہم پھر کسی وقت سنائیں گے۔

Tuesday, October 15, 2013

Born in A Wrong Gender ;)

میں غلط جینڈر میں پیدا ہوگئی ہوں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں لیکن اس کی سزا مجھے ہی ملتی ہے۔ میں اکثر یہ بات بھول بھی جاتی ہوں کہ میں ایک ختون ہوں، اور مجھے شرمانا لجانا، بل کھانا چاہئے۔ میری پسند نہ پسند اور حرکتیں سب مردوں والی ہیں۔ رف این ٹف کپڑے، مردانہ لک والی سینڈلز، میک اپ سے بے نیازی، جیولری سے الرجی، اور لہجہ تو اللہ کی پناہ اتنا کھردرا کہ اگلے کی دوبارہ بات کرنے کی ہمت نہ ہو۔ جب میں عید کی شاپنگ کے لیے بازار جاتی ہوں تومردانہ کرتے شلوار کی ورائیٹی پر میری ایسی رال ٹپکتی ہے کہ نہ پوچھو۔ بھلا بتاواتنا ڈیسینٹ کرتا شلوار خواتین کیوں نہیں پہن سکتیں؟

Wednesday, October 2, 2013

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔ تصویر کا دوسرا رخ

میں کبھی کبھار شام کے اوقات میں اپنی بھتیجی کو ایک پارک میں لے جاتی ہوں۔ وہاں 14، 15، 16 سال کی بچیاں ٹیوشن سینٹرز یا کوچنگ سے واپسی پر کتابیں بغل میں دبائے چور نظروں سے ادھر ادھر تکتی ہوئی کسی کونے والی بنچ کا انتخاب کرتی ہیں جہاں پہلے ہی کوئی بانکا چھبیلا انکا انتظار کر رہا ہوتا ہے یا وہ موبائل پر اطلاع ملتے ہی آجاتا ہے۔ موبائل فون نے ان بچیوں کو چور راستے تو دکھا دیے ہیں لیکن دنیا میں کس کس قسم کے دھوکے ہیں اس سے ناواقف یہ قطعی غیر معصوم بچیاں کچھ شرماتی لجاتی اپنے بوائے فرینڈ سے چپک کر بیٹھی نئے نئے افئیر کے نشے میں جھوم رہی ہوتی ہیں۔

پھر جب کسی 14/15 سال کی بچی کی روندی ہوئی لاش کسی گلی کوچے یا ساحلِ سمندر سے برآمد ہوتی ہے، تو انکا وہی گھاگ بوائے فرینڈ گرفتاری کے بعد کہتا ہے کہ ہماری تو کئی سال سے دوستی تھی اور ہم پہلے بھی تنہائی میں ملتے رہے ہیں۔ والدین لاکھ دہائی دیں انکی بچی "معصوم تھی" پارکوں کا شام کا منظر گواہی دیتا ہے، کہ "بچی" ہرگز معصوم نہیں تھی۔ وہ تو شاید "بچی" بھی نہیں تھی۔ 

کیا برا ہے اگر بیٹیوں کے پیدا ہونے پر بین ڈالے جاتے ہیں؟ کیا برا تھا کہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ کہ ایک دن ان کی وجہ سے والدین کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے ، پہلا رخ 

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔

میری ایک پھول سی بھتیجی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اسے یہ کیسے سمجھاوں کہ بیٹا آپ نے اپنے کسی چچا یا ماموں یا انکل یا آنٹی کے ساتھ کہیں اکیلے نہیں جانا۔ اس کے سوال اتنے ہوتے ہیں، ختم ہی نہیں ہوتے، میں اسے ریپ کیا ہوتا ہے، جنسی زیادتی کیا ہوتی ہے، قتل کیا ہوتا ہے، نہیں سمجھا سکتی۔ ایک تو اسکی عمر میں اسے یہ سارے تصورات سمجھ نہیں آسکتے۔ اور جس دن سمجھ آگئے، اس دن کے بعد سے کیا وہ اس دنیا میں کسی پر بھی اعتبار کر سکے گی، نہیں نا۔ تو پھر اسکی شخصیت میں ہمیشہ کمی رہے گی، وہ ہمیشہ ایک خوف میں مبتلا رہے گی، کبھی کھل کر ہنس بول نہ سکے گی، کبھی آزادانہ نقل و حرکت نہ کرسکے گی، ایک عمر قید میں زندگی بسر کرے گی۔کبھی ایک صحتمند زندگی بسر نہیں کر سکے گی۔ 

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس کی زندگی تباہ ہونے سے پہلے، اسکا پھول سا جسم نوچے بغیر ہم اسے عزت و احترام سے زندہ دفن کردیں۔
-----------------------

اعتماد اور اعتبار

"منی پھو یہ فون نہیں لینا۔"

"اچھا بیٹے نہیں لوں گی۔"

پھر کسی کام سے اپنا فون اٹھا لیا جس میں فاطمہ گانے سن رہی تھی۔ اب کتنا ہی آپ دلیلیں دے لو کہ کیوں اٹھایا تھا، اس کا اعتبار واپس نہیں آنے والا، کسی بات پر دوبارہ یقین نہیں کرنا۔ اعتماد ایسے ہی ختم ہوتا ہے، اعتبار ایسے ہی ٹوٹتاہے۔

بڑوں کا اعتماد بھی ایسے ہی ٹوٹتا ہے، وہ بھی کبھی دوبارہ اعتبار نہیں کرتے، لیکن وہ منافقت کرتے ہیں، کبھی آپ کے منہ پر نہیں کہتے کہ آپ قابل اعتبار نہیں رہے۔