Thursday, July 2, 2015

ولدالحرام

کچھ ایسے ہیں جو بس اجنبی نمبروں پر ایس ایم ایس کر کے دل پشوری کر لیتے ہیں ۔۔ آ پ لاکھ "خاموشی ہزار پسوڑیوں سے بچاتی ہے" والی پالیسیوں پر عمل کر لیں مگر ایک دن حد ہو ہی جاتی ہے۔بھلا آ پ کی والدہ بستر مرگ پر ہوں یا آپ کے جگر کے ٹکڑے ہسپتال میں داخل ہوں ۔ آپ کے لیے ہر ایس ایم ایس اور ہر کال قیمتی ہو اور ایسے میں آپ کومفت کے ایس ایم ایس سبسکرپشن جاری و ساری رہے۔ کتنی جھنجھلاہٹ ہوتی ہے ایسے ایس ایم ایس دیکھ کر ۔ اللہ کرے کوئی ان ولدالحراموں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے۔

Wednesday, June 24, 2015

سرِ آئینہ تیرا عکس ہے


آپ نے پلانیٹ آف دی ایپس دیکھی ہے اصلی والی [یاد رہے کہ کسی بھی سلسلے کی پہلی فلم اوریجنل تخلیقی شاہکارہوتی ہے، اس کے بعد اسکی کاپی پیسٹ ہوتی رہتی ہے، اور حال ہی میں بنائے جانے والی پلانیٹ آف دی ایپس بھی کاپی پیسٹ ہی ہے]، کہنے کا مطلب ہے ہمارے پسندیدہ ہیرو Charlton Heston والی ۔ نہیں دیکھی تو فوراً دیکھ لیں۔ اس فلم کا بنیادی تصور یا مرکزی خیال یہ تھا کہ اگر دنیا پر جانوروں یعنی بندروں کی حکومت ہو جائے اور انسان این ڈینجرڈ اسپیشی ہو جائے تو کیا ہوگا۔ جانور انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔ فلم بڑی مزے دار تھی لیکن تھی انسانوں کی ہی متصور conceive کی ہوئی اور بنائی ہوئی۔ 

Tuesday, June 23, 2015

ہم نے ڈرائیونگ سیکھی



ہوا یوں کہ ہم صرف ٹرائی کرنے گئےتھے پر افسری ہمیں واقعی میں مل گئی ۔ کچھ دن تو پبلک ٹرانسپورٹ پر دفتر آنا جانا کیا پھر افسری میں فرق پڑنے لگا ، ابا کی ، کیوں کہ ہم تو پبلک ٹرانسپورٹ ایکسپرٹ ہوچکے تھے اب تک یونیورسٹی کے دھکے کھا کھا کر ، ہمارا گھر شہر کے ایک کونے میں اور یونیورسٹی شہر کے دوسرے کونے میں، پھردفتر تیسرے کونے میں ۔ ہم اتنے ایکسپرٹ ہو چکے تھے کہ دروازے تک فل بس میں اتنے آرام سے سما جاتے تھے جیسے بھرے پیٹ میں پانی اپنا راستہ بنا ہی لیتا ہے۔ ہم تو مزے سے بس سے آتے جاتے تھے ، پر ابا کا خیال تھا کہ افسر افسر ہوتا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ سے دفتر جانے سے افسر کا "رباب" کم ہوتا ہے۔ سو گاڑی ہونی چاہیے، پر کیا کرتےکہ گھر میں کسی کو بائیک کے علاوہ کچھ بھی چلانا نہیں آتا تھا۔ سو فیصلہ کیا گیا کہ ہم کسی ڈرائیونگ اسکول سے پہلے ڈرائیونگ سیکھیں پھر گاڑی کا توڑ جوڑ کیا جائے گا۔ گاڑی ہمارے لیےہوگی تو سیکھنا بھی ہمی کو ہوگا۔

Saturday, June 13, 2015

کتا کانفرنس

جی ہاں وہی پطرس بخاری والے کتے، آپ کو کبھی رات گئے کتا کانفرنس سننے کا اتفاق ہوا ہے، اگر آپ ایک متوسط علاقے میں یا اشرف المخلوقات میں سے مخلوقات کے علاقے میں رہتےہیں تو ضرور یہ اتفاق ہوا ہوگا ۔ کتا کانفرنس کا اصول یہ ہے کہ محلے کے سارے کتے اچانک آدھی رات کو ایک ساتھ بھونکنا شروع کر دیتے ہیں ۔ سب ایک دوسرے کو سنا رہے ہوتے ہیں ۔ اور کوئی کسی کی سن نہیں رہا ہوتا۔ عوام کے پلے کچھ نہیں پڑتا، الٹا نیند خراب ہوتی ہے۔ بھلا کوئی پوچھے کہ تم جس پر بھونک رہے ہو اسے خود بھی بھونکنا آتا ہے۔ تو تم نے اس پر بھونک کر کیا کمال کیا۔


Friday, June 12, 2015

ایڈ جسٹ منٹ

اماں تو چلی گئیں پر سب سے مشکل کام تھا کہ فاطمہ کو کیسے بتایا جائے اور سمجھایا جائے۔ ایک دن ابو نے پہلے بڑے دادو کو دادی پھپھو کے گھر سے آسمان پر پہنچایااور ستارہ بنا دیا ۔ اسطرح بڑے دادو کوچ کرنےکے تقریباً دو سال بعد ستارہ بن گئے ۔ بڑا والا ستارہ، جو ہماری چھت پر مغرب کی سمت نظر آتا ہے۔ 

پھر ابو نے اماں کو ستارہ بنانے کی کوشش کی تو آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے، 

" کیا ہماری اماں اب کبھی واپس نہیں آئیں گی ؟" ابو اماں کو ستارہ بناتے بناتے رک گئے۔

Thursday, June 4, 2015

پہلوٹھی کی گاڑی

پہلوٹھی کی گاڑی ، مکران کوسٹل ہائی وے پر
آپ کی پہلی گاڑی بالکل پہلوٹھی کےبچے کی طرح ہی عزیز ہوتی ہے۔ پہلوٹھی کا بچہ سب کی آنکھ کا تارہ ہوتا ہے، اسکی ایک ایک ادا پر پورا گھر نثار ہوتا ہے، وہ ہنسے تو سب ہنس دیں اور وہ منہ بسورے تو سارا گھر پریشان ۔ اس کے ہر طرح کے لاڈ اٹھائے جاتے ہیں ۔نئے نئے کپڑے، جوتے، کھلونے لائے جاتے ہیں ۔اگر ماں اس کو ڈانٹ دے تو دادا دادی اور نانا نانی کے ہاتھوں اس کی شامت۔ بیمار ہوجائے یا بلاوجہ رونا شروع ہوجائے تو نظر جادو ٹونا، سب پر یقین آجاتا ہے خواہ آپ پکے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ۔ ۔ کبھی نظر اتاری جارہی ہے ، کبھی صدقہ دی جارہا ہے، علاج میں تعویز گنڈے بھی در آتے ہیں۔

Tuesday, June 2, 2015

کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے

اپنی زبا ن جو ہم بحق پیدائش استعمال کرنے کے عادی ہیں ، الفاظ کیسے بنے ، اصطلاحات کہاں سے آئیں اور جملے کی تعمیر میں کون سی خوبیاں اور خامیاں مضمر ہیں ان پر تو ہم کبھی غور ہی نہیں کرتے ۔ یہ تو ہمیں اپنی اماں سے ورثے میں ملی ہے مطلب باپ کا مال ہے جیسے چاہے خرچ کرو۔ لیکن جب کہیں اسے ٹرانسلیٹنے کا موقع آئے تو عام سے الفاظ خاص بن جاتے ہیں ۔ اور خاص الفاظ بہت آم ۔

عام سے جملوں کی تعمیر کی خوبیاں اور خرابیاں آپ سے کوئی پوچھ لے تو آپ منڈی جھکا کر دل کے آئینے میں تصویر یار دیکھنے میں مگن ہو جاتے ہیں کہ کبھی اردو گرامر پر تو دھیان دیا ہی نہیں تھا ۔ آپ کے اپنے افعال ماضی، حال میں افعال موذی بن کر آپ کو ڈرانے لگتے ہیں ۔