![]() |
| Photo Credit: Internet |
ونس اپون ان کورونا ٹائمز ایک بھائی صاب تھے ان کو بھائی صاب کہنا مناسب تو نہیں لیکن سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو خیر ہے۔ کتابوں سے متعلق ایک گروپ میں انہوں نے کسی کتاب کے بارے میں لکھا ، موضوع ہماری دلچسپی کا تھا ہم نے پوچھ لیا کہ کہاں سے ملے گی۔ اگلے دن ان کا جواب آنے تک ہم وہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں سرچ اور ڈاونلوڈ کرچکے تھے، یہ اور بات پڑھنے کی باری ابھی تک نہیں آئی ۔ ان کے جواب کے جواب میں یہی فرما دیا ۔
فوراً ہی ان باکس آیا کہ آپ کو کیسے ملی۔ بھیا وہیں پوچھ لیتے ایسی بھی کیا راز داری
جواب دیا "ڈھونڈنے سے
پھر کچھ دن بعد ہماری ایک پوسٹ پر ہمیں الگ سے فیس بک ان باکس میں دادوصول ہوئی ۔ مطلب پھر وہی راز داری ، حالانکہ پوسٹ ایسی کوئی خفیہ قسم کی نہیں تھی۔ پھر ہر ہفتے ہماری خیریت پوچھی جانے لگی، عید کی مبارک باد بھی ہم نے ان باکس میں وصول پائی۔ مزے کی بات ہم ادھر جواب دیتے ادھر کھٹ سے سین ہوجاتا۔ اسٹاک ایکسچینج میں دھماکہ ہوا فوراً ہماری خیریت پوچھی گئی۔ کرانچی میں چھینٹا پڑا فوراً دریافت کیا گیا کہ ہم سیلاب میں تو نہیں بہہ گئے۔ ہم حیران کہ انہیں کیا ہوا۔ اور تو اور ایک دن اپنی کھڑکی سے بارش کی ویڈیو بھی بنا کر بھیجی ہمیں ۔موصوف دارلحکومت میں رہائش پذیر تھے اور ہیں۔ ایک دن ہم شہر سے باہر تھے، پیچھے میسج آیا پڑا تھا آپ کہاں ہیں۔ ہم حیران اللہ خیر۔ ہم کونسا ان کے چڈی بڈی تھے یا روز صبح شام چیٹ کرتے تھے۔
پھر ایک وی"ک اینڈ پر صبح سویرے میسج آیا کہ آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔ اچھا جی کریں۔ نہیں اپنا فون نمبر دے دیں ، فون پر بات کرنی ہے۔ ہم نے تھوڑا آئیں بائیں کرنے کی کوشش کی کیوں کہ ہم نئے لوگوں کو اپنا نمبر دینے سے کتراتے ہیں اور فون پر بات کرنے کے چور ہیں۔ لیکن ان کی باتوں سے لگا جیسے ہم انہیں نمبر دیتے ڈر رہے ہیں ، ہم کون سا ٹین ایج میں ہیں جو ہمیں کسی سے ڈر ہو کہ پیچھے لگ جائے گا، ہم نے دے دیا۔ فوراً ہی فون آیا ، سلام دعا، حال چال ، کراچی میں کورونا کی صورت حال وغیرہ پر تبادلہ خیال ہو کر فون ختم ہوگیا۔ پتا نہیں کیا ضروری بات تھی۔😵
اگلے دن پھر سویرے میسج آیا ہوا کہ ضروری بات کرنی ہے ۔ پتا لگا وہ ہم سے شادی کے خواہشمند ہیں۔ ہم نے کہا صبر کرو بھائی۔ ہم ذرا ناشتہ تو کرلیں پھر تسلی سے بات کرتے ہیں۔ نہ انہوں نے ہماری شکل دیکھی تھی، نہ عمر پتا تھی، نہ ہمارا مزاج شریف۔ بس یہ پتا تھا کہ ہم کتابیں پڑھتے ہیں اور ایک کتاب ہماری اور انکی مشترکہ دلچسپی کی نکل آئی اتفاق سے ۔ ہم نے انہیں تمیز سے بتا دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
لیکن وہ بھائی صاب تو عین کورونا کے دور شباب میں کراچی آنے کو تیار تھے ہم سے ملنے ۔" میں آپ سے ملنے آجاتا ہوں" ہم نے کہا خبردار کراچی میں سندھ کے اسی فیصد کورونا پازیٹو کیسز ہیں ۔ لیکن بھئی کسی طور ہمارا انکار ماننے کو تیار نہیں تھے۔ بلکہ صبح شام گلاب کے پھول کے ساتھ گڈ مارننگ و گڈ نائیٹ کے ان باکس آنے لگے۔ ساتھ ہی فرمائشی پروگرام کہ اپنی تصویر بھیجیں آپ کو دیکھنا ہے۔ دیکھ کر ڈیلیٹ کردوں گا۔ گویا ہم شکار پور سے آئے تھے۔ لیکن ہم کوئی بھی بات کرتے یا کسی بات کا جواب دیتے وہ گھما پھرا کر بات وہیں اپنے پروپوزل پر پہنچا دیتے۔
پھر ہم نے سوچا ان کی تسلی کردیں۔ ایک دن تفصیل سے چیٹنگ کی ان کے ساتھ۔ کیا کرتے ہیں۔ کیا پڑھا ہے، کیا پسند ہے، کیا ناپسند ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کب سے نوکری کر رہے ہیں ، اب ظاہر ہے گفتگو دو طرفہ ہوتی ہے۔ ہم نے تو کبھی کسی سے کچھ چھپایا نہیں۔ ہماری جاب کی عمر 17 سال سن کر ان کی آنکھ پھڑکی اور ہمیں یقین ہے کہ ان کے کان بھی کھڑے ہوگئے ہونگے ۔ فوراً ہماری عمر پوچھی جو ہم نے سچ سچ بتا دی۔ ہائے ان کے ارمانوں پر ایسی اوس پڑی ایک دم سے ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں بھی افسوس ہوا ان کی ہوا نکال کر۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ان کے روئیے پر ہوا۔
عمر بتانے سے پہلے ہم انتہائی انٹیلیجنٹ، لائق فائق، سمجھدار، صاحب مطالعہ اور پتا نہیں کیا کیا تھے۔ اور اپنی اصل عمر بتانے کے ساتھ ہی ہم ان میں سے کسی بھی خاصیت کے حامل نہ رہے ۔ پھر جب کراچی میں واقعی ہم سیلاب میں بہتے بہتے رہ گئے تو کسی نے بھی ہماری خیریت دریافت نہیں کی ۔
کوئی تین مہینے بعد پھر ان کا میسج آیا کہ ہاو آر یو ،
ہم نے کہا still 48 years old
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور انہوں نے ہمیں بلاک کردیا ۔
لو بھلا بتاو ہمارا کیا قصور







