سارا سامان کشتی سے اتار کر ساحل پر ڈھیر کر دیا گیا ، ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر کیمپ سائیٹ تک جانا تھا اور تقریباً تیر کر جانا تھا کیوں کہ پانی چڑھاو پر تھا۔ ہم نے اپنا سارا سامان اکھٹا کیا اور ایک بڑے پتھر پر ڈھیر کردیا۔ دیکھا تو ہمارے سامان میں ہماری ہوائی چپل اور سلیپنگ بیگ غائب تھا ۔ چپل تو مل ہی گئی لیکن سلیپنگ بیگ نہ مل کے دیا۔ کافی دیر ہم سلیپنگ بیگ کے لیے پریشان اور خوار ہوئے لیکن مل کے نہ دیا۔ سامان میں دو ہی سلیپنگ بیگ تھے جو بقیہ سلیپنگ بیگز سے جدا ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے تھے ایک بیگ تو ایک اور خاتون کا تھا، دوسرا نہ جانے کس کا تھا۔ جب ہم اپنے سلیپنگ بیگ کی تلاش سے بہت ہی بےزار ہوئے تو دوسرے لاوارث سلیپنگ بیگ پر قبضہ کر لیا کہ جس کا بھی ہوگا ڈھونڈتا ہوا آئے گا ہمارا دے جائے اپنا لے جائے ۔ ورنہ بس یہی ہمارا سلیپنگ بیگ تھا۔
اور وہ تھا بھی ہمارا ہی۔ قصہ یہ تھا کہ ہم نے پہلی با ر سلیپنگ بیگ جسی نعمت اتنے قریب سے دیکھی تھی، ابا اپنی چیزوں کو بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں ۔ ہمارا اس سے پہلے واسطہ ہی نہیں پڑا تھا ۔نہ ہم نے کبھی اپنے سلیپنگ بیگ کو غور سے دیکھا تھا۔ نہ ہی کوئی نشانی پتہ تھی۔ ہم نے اپنی طرف سے سلیپنگ بیگ کو خیمے کے ساتھ باندھ دیا تھا کہ دونوں اکھٹا رہیں گے۔ خیمہ تو ہم پہچان ہی لیتے ہیں۔ لیکن دوران سفر جانے کس طرح دونوں الگ ہوگئے، خیمہ کہیں اور سلیپنگ بیگ کہیں۔ اب ہم پہچانتے تو کس بنا پر ۔
جزیرہ دیکھ کر ابتدا میں خاصی مایوسی ہوئی۔ جزیرہ کی تصاویر دیکھ دیکھ کر، وکی پیڈیا اور بلاگز وغیرہ پڑھ کے لگتا تھا کہ ایک جانب سے سیدھی دیوار کی جیسی اونچائی ہوگی ، اس دیوار کو عمود مان کر اور سمندر کو بیس بنا کر جزیرہ دوسرے سرے پر 30 کا زاویہ بناتے ہوئے عمود پر 60 کے زاویے سے مل جائے گا اس طرح ایک مکمل ٹرائی اینگل بن کر باقی کا جزیرہ سی ویو کی طرح نہ سہی سینڈز پٹ کی طرح ساحلی پٹی پرمشتمل ہوگا اور 30 کے زاویے والے سرے سے ہم جزیرے پر چڑھیں گے اور پیچھے سارا جزیرہ کدکڑے لگانے کے لئے خالی ہوگا۔ لیکن پتہ چلا کہ بس جو ذرا سا نیم دائرہ نما حصہ نظر آرہا ہے ۔ اسی طرف ایسا چھوٹا سا بے نما ساحل ہے کہ جہاں کیمپنگ ہو سکتی ہے۔باقی ہر طرف پورا جزیرہ راکی ، رف اور ایک اونچے پہاڑی پلیٹ فارم پر مشتمل ہےجس تک رسائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔
سامان کیمپ سائیٹ پر منتقل کرتے ہی ہم نے ایک اچھا ہموار اور ہوا دار پلاٹ منتخب کیا اور اس پر اپنا خیمہ تان کر قابض ہوگئے، قبضہ جمانے میں مزمل نے ہماری مدد کی ، لیکن ساتھ ہی وہ ہمیں اپنے مقبوضہ پلاٹ کے ساتھ پلاٹ لینے پر اکساتے رہے۔ جو ذرا فاصلے پر ایک جھاڑی نما درخت کے نیچے تھا۔ لیکن پھر ہمارے محلے میں آباد کاری دیکھتے ہوئے اور شہزاد کے مشورے پر انہوں نے اپنا پلاٹ چھوڑ کر ہمارے پلاٹ سے کچھ فاصلے پر سائیڈ میں پلاٹ لے لیا۔ شہزاد کا کہنا تھا کہ رات کو درختوں کے آس پاس کیڑے مکوڑے نکلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی بات کسی حد تک درست بھی تھی۔ ہماری پچھلی گلی میں کامران خان کا خیمہ تھا۔ جبکہ یاسر نے ہمارے اور مزمل کے پلاٹ کے درمیان ہمارا ہاف ٹینٹ لگا کر رات گزارنے کا آسرا کر لیا۔
مہاجرین کی خیمہ بستی، کاپی رائیٹ: نسرین غوری |
مہاجرین کی خیمہ بستی آباد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے چھت اور بے سروساماں بستی ، کچن اور خیمہ بستی کے درمیان بس رہی تھی، ایک بڑی پلاسٹک کی دری پر بیک پیکس اور سلیپنگ بیگز کا انبار اور اتنی ہی تعداد میں مسافران پڑے تھے۔ بے سروساماں بستی کے پار اوپن ائیر کچن آباد ہوچکا تھا۔
جس جگہ ہم نے مہاجرین کی خیمہ بستی قائم.کی تھی ۔ اس کے دائیں جانب خواجہ خضر کی خانقاہ ہے جو دور سے دیکھے پر مسجد نظر آتی ہے ۔ خانقاہ تو چھوٹی سی ہے لیکن اس کا احاطہ جو غالباً کشتیوں کی فالتو رسیوں کو بانسوں پر تان کر بنایا گیا ہے، کافی وسیع ہے اور بہتر پلاٹوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اس احاطے میں بستی بسانی اور سونا منع ہے۔ بقول کشتی والوں کے ، اگر آپ میں ہمت ہے تو سو کر دکھائیں۔ اس قسم کی باتوں پر ہمیں یقین نہیں اور ہم میں ہمت بھی بہت ہے، لیکن سب کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ۔ اور ہم پہلے ہی آج کے اکاونٹ میں بہت زیادہ ہمت خرچ کر چکے تھے، سو بقیہ ہمت اگلے روز کے لیے بچا لی۔
خواجہ خضر کی خانقاہ |
خواجہ خضر کی کی خانقاہیں سندھ میں جگہ جگہ جزیروں اور ساحلوں پر موجود ہیں اور بھٹکے ہوئے مسافروں کو راہ دکھاتے ہیں اسی لیے انہیں زندہ پیر بھی کہا جاتا ہے۔ خواجہ خضر کے بارے میں ایک قصہ بھی مشہور ہے جس کے ڈانڈے شاہ حسین کی سیف الملوک اور بدیع الجمال سے جاملتے ہیں۔ روہڑی میں انکا مزار بھی موجود ہے۔ مزید جاننے کے لیے وکی پیڈیا سے رجوع کرلیں، ہم نے کوئی گوگل ڈاٹ کام کھولی ہوئی ہے۔
خیمہ بستی کے بائیں جانب پہاڑی پر ایک سبیل ٹائپ مندر ہے یعنی چار بانسوں پر دو چار رنگ برنگی جھنڈیوں والی رسیاں بندھی ہوئی تھیں اور جس تک پہنچنے کا بظاہر کوئی راستہ نہیں تھا۔ ماہی گیر اسے کالی ماتا کا مندر کہتے ہیں۔
خیمہ بستی قائم ہونے اور چینج کرنے کے بعدسب کو کھانے کی فکر پڑ گئی ۔ جتنی دیر میں مہاجرین نے خیمہ بستی آباد کی اور چینج کر کے میک اپ شیک اپ کیا، اتنی دیر میں جی ایم اور اسکے ہیلپرز نے کچن آباد کر کے چولہا چکی تیار کر لی تھی، اور دوسری جانب لیڈر نے بون فائیر یا کیمپ فائر کے لیے الاو بھڑکا لیا تھا ۔
اب منظر یہ تھا کہ ایک جانب خواجہ خضر کے مزار سے کچھ ادھر خضر بیٹھے عوام کی تکا بوٹی کررہے تھے، مطلب عوام کے لیے تکے تیار کررہے تھے۔ جی ایم یا جیم اور اسمعٰیل انہیں اسِسٹ کر رہے تھے۔ ان سے کچھ فاصلے پر کامران صاحب ڈنر کے دوسرے کورس کے لیے بہاری کباب پر مسالہ لگا رہے تھے ۔ تیسری طرف ہم اور شہزاد مل کر چائے تیار کرنے کی کوشش کر رہے تھے، کہ ہم سمیت بہت سوں کا نشہ ٹوٹ رہا تھا ۔ دری پر مزمل، حنینہ، صائم، یاسر، معیز وغیرہ نے تاش کی چوکڑی جمائی ہوئی تھی ۔ قریب ہی شیراز اور طہٰ میوزک اور سگریٹ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک دو لوگ فطرت کے ہاتھوں مجبور فطرت سے رجوع کرنے گئے ہوئے تھے۔
گویا ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرہا تھا .. اورہر کوئی خوش تھا .. ہر کوئی تو استولئین نہیں ہوتا ناں … یس .. وی میڈ اٹ ٹو استولا. وی ڈِڈ اٹ. اور اسکا گواہ صرف ایک چاند تھا یا پھر وہ مہمان.پرندے جو دور دیس سے آئے تھے اور ہم اجنبیوں کو دیکھ کر حیران پریشان تھے۔
جنگل میں منگل ، کاپی رائیٹ: نسرین غوری |
چائے سے فارغ ہوکر اپنا کپ پکڑے ہم مصنوعی روشنیوں سے دور پڑے کسی اور کے بیک پیک سے کمر ٹکا کہ اپنی دنیا میں گم شد ہوگئے۔ ہماری غائب شدہ ہمسفر کی بھی ہدایت بلکہ ایک قسم کی محبت بھری زبردستی تھی کہ تم نے سب سے پہلے تصویریں مجھے دکھانی ہیں اور سفر نامہ بھی مجھے پڑھانا ہے۔ سو اپنا ٹیبلٹ کھولا اور بلاگ کے لیے یادداشتیں مرتب کرنے لگے۔ تبھی ہماری ایک سچ مچ کے 007 سے ملاقات ہوئی۔
ان سےہمیں ایک زبر دست قسم کے جاسوسی ناول کا پلاٹ اور واقعات تو مل گئے ہیں ۔ اب ہم تھوڑا سا اور لائق فائق ہوجائیں تو ایک ایسا شاندار قسم کا جاسوسی ناول لکھ ماریں گے کہ نمرہ احمد اپنے جنت کے پتوں سمیت شرمندہ ہوجائیں ۔ لیکن ناول ہم سے پڑھے تو جاتے نہیں ، لکھنے کے لیے دل ،گردہ، پھیپڑے وغیرہ کہاں سے لائیں۔
جاسوسی فلم سوری ناول کے درمیان میں مزمل بھی شامل ہوگئے ، اور فلم مزید سنسنی خیز اور ہماری برداشت سے باہر ہونے لگی تو ہم نے اپنےکانوں میں ہینڈز فری کی ٹونٹیاں فٹ کیں اور طلعت محمود کے" یہ ہوا، یہ رات ، یہ چاندنی، تری اک ادا پہ نثار ہے" میں مست ہوگئے۔ طلعت محمود نے یہ گانا جس محبت و فرصت سے گایا ہے، اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس سے بہتر موقع اور طریقہ کوئی نہیں کہ بندہ فرصت میں سمندر کنارے چاندنی میں بیٹھا ہو، اور آس پاس سے بے خبر ہو، نہ کوئی غم نہ فکر ، بس جو کچھ ہے یہی لمحہءِ موجود ہے، نہ کچھ اس سے پہلے تھا، نہ اس لمحے کہ بعد ہوگا۔ جنت اور کسے کہتے ہیں بھلا۔ اور ہم اس لمحے جنت میں تھے۔
استولا کے ساحل کے ریتیلے حصوں پر مادہ کچھووں کے انڈے دینے کی غرض سے بنائے گئے گڑھوں کے نشانات ظاہر کرتے تھے کہ یہ ساحل بیک وقت انکا لیبر روم اور نرسری ہے جس میں ہم غیر افراد گھس آئے تھے۔شیراز کی طرف سے ہم سب کو ہدایت تھی کہ رات کو چلنے پھرنے میں تھوڑی احتیاط کریں اور کسی بےبی کچھوے کو نہ کچل ڈالیں۔جب سب چائے اور کھانا پکانے میں مصروف تھے، شیراز اینڈ کمپنی جو کچھوں کی تلاش میں گئی ہوئی تھی، نے ساحل کی طرف سے آواز لگائی کہ ایک دو مادہ کچھوے جنہیں کچھویاں کہنا زیادہ مناسب ہوگا، پانی سے باہر دکھائی دیے ہیں۔ سب نے اس طرف دوڑ لگا دی، چاروں اطراف سے کسی نے ٹارچ اور کسی نے فلیش ڈال ڈال کر ان کچھویوں کو حسب توفیق بےزار کیا ، اتنا کہ ایک خاتون تو برا مان کر واپس پانی میں جانے پر آمادہ ہوگئیں۔ تو سب انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر واپس آگئے۔
مسز ٹرٹل ڈلیوری روم کی تلاش میں |
اسی اثنا میں محسن کہیں سے ایک بے بی کچھوا پکڑ لایا۔ جو اس افتاد پر بوکھلایا ہوا تھا، تیز تیز ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ اور چھٹ کر بھاگ جانے کی پوری اور ناکام کوشش کر رہا تھا ۔ لیکن اسے تب تک جانے کی اجازت نہ ملی جب تک سب نے اسکی تصاویر نہ اتار لیں ۔۔ ہم اپنی ازلی سستی کے باعث اپنی جگہ سے نہ ہلے اور دور سے اسکی بے بسی کا تماشہ دیکھتے رہے۔ اور اب بیٹھے پچھتا رہے ہیں کہ ایک تصویر ہی لے لی ہوتی۔
اسی دوران کوئی ہمیں ڈنر سرو کر گیا ۔ جو ایک عدد تکہ اور ایک پیپسی کین پر مشتمل تھا ، لیکن ہمارے لیے کافی تھا، ہم سفر میں بہت زیادہ کھانے پینے سے پرہیزہی کرتے ہیں ۔ سفر میں بندہ کھانے کمی سے نہیں مرتا لیکن زیادہ کھانے سے مرنے کے چانسز ضرور بن سکتے ہیں ۔ سو بہتر ہے بندہ سفر کے دوران ہر کھانے کو اپنا آخری کھانا سمجھ کے نہ کھائے۔ خاص کر جب باتھ روم کی سہولت بھی نہ ہو۔
بیٹھے بیٹھے ہمیں ٹھنڈ سی محسوس ہوئی تو ہم اپنا سلیپنگ بیگ وہیں نکال لائے اور اس میں وہیں اوپن ائیر میں غافل ہوگئے، اپنا ٹینٹ ہم نےدیگر دو خواتین کو اللہ واسطے کرائے پر دے دیا ہوا تھا۔ رات غالباً تین چار بجے ہماری آنکھ کھلی ہوگی، اف کیا منظر تھا۔ چاند کی چاندنی اپنی جگہ پر"چنّنے نال چاننی، تارے نال لو ماہیا" اربوں ، کھربوں کی تعداد میں تارے 20/22 بے وقوفوں کا معائنہ کرنے میں مشغول تھے کہ ان کے گھر میں کچن ،ڈائینگ ٹیبل یا دسترخوان نہیں ہے، یہ بے گھر بے در لوگ ان کو سونے کے لیے اور کوئی جگہ نہیں ملی۔ اب انہیں کون بتاتا کہ ہر جگہ کا اپنا سواد ہے بادشاہو ۔ ایک دائرے میں لگی بندھی زندگی گزارنے والوں کو آوارگی کے ذائقوں کا کیا پتا۔
خوابوں کا اک جزیرہ ہو
جگنووں کا جہاں بسیرہ ہو