Monday, May 9, 2016

مولہ چٹوک: بلوچستان کی ایک جنت نشاں وادی

مولہ آبشار کے اندر کا منظر: فوٹو کریڈٹ: جام اقبال

مولہ چٹوک بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک جنت نشاں وادی مولہ میں ایک آبشار کا نام ہے جو دراصل دریائے مولہ ہے اور چٹوک مقامی زبان میں آبشار کو کہتے ہیں، جس مقام پر یہ دریا آبشار کی صورت پہاڑوں سے باہر آتا ہے اسے مولہ چٹوک یا مولہ واٹر فالز کہتے ہیں ۔


مولہ چٹوک آبشار، فوٹو کریڈٹ: جام اقبال صاحب
مولہ چٹوک خضدار شہر سے تقریباً 85 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ مولہ چٹوک پہنچنے کا ایک راستہ قدیم جھل مگسی روڈ ہے جوآر سی ڈی ہائی وے پر خضدار شہر کے بعد تقریباً 20 کلومیٹر بعد دائیں جانب نکلتاہے، یہ روٹ دوسرے روٹ سے نسبتاً آسان لگتا ہے کیوں کہ آدھے سے زیادہ روڈ پکا ہے لیکن اس روٹ پر سفر کرنے والوں کے بیان کے مطابق باقی روڈ زیادہ مشکل ، دشوار گزار اور M-8 والے راستے سے 35/40 کلومیٹر لمبا ہے ۔ مولہ چٹوک پہنچنے کا دوسرا راستہ خضدار سکھر موٹر وے M-8 پر تقریباً دس کلومیٹر کے بعد بائیں جانب ایک پتھریلا راستہ ہے اس راستے کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہے جس پر مولہ آبشارلکھا ہے۔ عموماً مولہ چٹوک پہنچنے کے لیے یہی روٹ اختیار کیا جاتاہے۔ یہ راستہ دراصل دریائے مولہ کے خشک بیڈ سے گزرتا ہے، جو نصف تحصیل خضدار میں اور نصف تحصیل مولہ میں تقسیم ہے۔ یہ پورا راستہ پتھریلا ہے اور جگہ جگہ سے دریائے مولہ کے دھارے اسے کاٹتے ہیں۔ علاقے میں صرف فور بائی فور ٹرانسپورٹ چل سکتی ہے یا پھر گدھے۔

آبشار کے اندر سے باہر کی جانب کا منظر، پکچر کریڈٹ: جام اقبال صاحب
یہ 85 کلومیٹر آف روڈ سفر ایک مسلسل رولر کوسٹر رائیڈ ہے ، جس پر آپ کی جیپ کبھی تھوتھنی اٹھا کر آسمان کی جانب تکنا شروع کردیتی ہے اور کبھی کسی بھوکے کتے کی طرح ناک زمین سے لگا کر سونگھنا شروع کردیتی ہے۔ اور نتیجے میں آپ کے آنتیں منہ کو آنے لگتی ہیں۔ اگر آپ ناشتے میں دہی کھا کے نکلے ہوں توچند کلو میٹر بعد پیٹ میں اسکی لسی تیار ہوگی۔ 

بلوچستان کی منفرد جغرافیائی ساخت، پکچر کریڈٹ: نسرین غوری
مولہ چٹوک کا راستہ بہت دشوار گزار سہی لیکن بہت ہی خوبصورت ہے، اور کراچی کی شہری آبادی کے لیے بہت منفرد بھی۔ وسیع لینڈ اسکیپ ، منفرد رنگ ، روپ اور جیومٹریکل اشکال والے پہاڑ، پہاڑوں پر جو فائن ورک قدرت نے کیا ہے اس کا کوئی جواب نہیں بے ساختہ آپ کے منہ سے نکلتا ہے کہ میرا رب بہترین تخلیق کار ہے۔ ہر پہاڑ جیسے خود اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ سے تراشہ ہو۔ پہاڑوں کے کہیں اندر نا معلوم مقامات سے آتے ہوئے جھرنے، سادہ لیکن صاف ستھرے مٹی سے بنے مکانات جن کے مکینوں کے دل بھی مکانوں کے آنگن کی طرح وسیع ہیں۔ آپ کسی گاوں کے نزدیک رک جائیں، کسی دکان پر یا چائے کے ہوٹل پر رک جائیں، شہری ہونے کے باعث ہر ایک کی کوشش ہوگی کہ آپ کو وی آئی پی سروس دے، اور اگر آپ کے ساتھ خواتین بھی ہوں تو کھلے دل کے ساتھ اپنے گھروں کے دروازے بھی آپ پر کھول دیں گے، یہ سوچے بغیر کہ آپ اجنبی یا غیر ہیں۔ 

ایک سادہ مگر خوبصورت روایتی بلوچی مکان، پکچرکریڈٹ: نسرین غوری
مولہ چٹوک آبشار پہنچنے کے لیے اس ٹریک پر چل پڑیں اگر کہیں سے ٹریک ایک سے دو ہورہا ہو تو دائیں یا بائیں جانب کوئی نہ کوئی گاوں ضرور ہوگا جس کی نمائندگی ہریالی خاص کر کھجور کے درخت کر رہے ہوں گے، اگر کوئی گاوں آس پاس نہیں تو دونوں ٹریکس میں سے آپ جس ٹریک پر بھی چلیں گےآگے جا کر وہ ٹریک دوبارہ اکلوتے ٹریک سے مل جائے گا۔ ٹریک بالآخر ایک ریسٹ ہاوس تک پہنچتا ہے، جس سے آگے گاڑی بھی جانا مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہی ہے۔

ریسٹ ہاوس کوئی بھی کرائے پر لے سکتا ہے اسکے لیے خضدار کے ڈی سی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ریسٹ ہاوس میں ٹھیک ٹھاک کمرے معہ ضروری فرنیچر موجود ہیں اور بڑا سا کمپاونڈ ہے جو کیمپ سائیٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ریسٹ ہاوس کے دائیں بائیں دونوں جانب نیچے تھوڑا نیچے اتر کر دریائے مولا کے ٹھنڈے میٹھے پانی کےدھارے بہہ رہے ہیں جن میں حسب توفیق و ہمت غسل کیا جاسکتا ہے۔ 

مولہ آبشار کی طرف سے آتے ہوئے پانی، پیدل ٹریک کا آغاز، پکچر کریڈٹ: نسرین غوری
ریسٹ ہاوس کے بائیں جانب سے راستہ نیچے اتر کر مولہ چٹوک آبشار کی طرف جاتاہے ، جس پر چند گز تک جیپ یا فور وہیل جاسکتی ہے ، لیکن بہتر ہے کہ گاڑیوں کو زحمت نہ دی جائے، کیونکہ ٹریک مشکل سے آدھے گھنٹے کا ہے اور زیادہ چڑھائی بھی نہیں، پورا ٹریک جھرنوں اور دھاروں پر مشتمل ہے۔ آپ کی مرضی چٹانوں پر کودتے پھاندتے آگے بڑھتے جائیں، آپ کی مرضی پانی میں چھپ چھپ چھپاکے اڑاتے چلیں ۔ 

بائی بائی جیپس، پکچر: نسرین غوری
یہی ٹریک آگے جا کر مولہ چٹوک آبشاروں سے مل جاتاہے، مولہ چٹوک آبشار دراصل 2 نسبتاً بڑی اور 3 چھوٹی آبشاروں کا مجموعہ ہے۔ پانی مسلسل اونچائی سے آبشاروں کی صورت نیچے آتا رہتاہے جس کے باعث ہر آبشار کے سامنے ایک چھوٹا سا تالاب بن گیا ہے جس میں تیراکی اور فشنگ کی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلا تالاب انسانی اونچائی کے برابر گہرا ہے، جب کہ آگے کے تالاب زیادہ گہرے نہیں ہیں۔ یعنی جو پہلا پل صراط پار کرگیا اسکے سامنے مزید جنت نشاں ہونگے۔ شاید کبھی کوئی ہمت والا پہاڑوں کے پار ان آبشاروں کے منبع کو بھی دریافت کر لے گا۔ کیونکہ پہاڑوں کے درمیان سے ہی نہیں بلکہ دوسری جانب پہاڑ کے اوپر سے بھی پانی نیچے گر رہا ہوتا ہے۔ 

چٹانوں سے مسلسل پانی گزرنے کے باعث ان چٹانوں میں اردن کے پیٹرا کے غاروں کی طرح کے نقش و نگار اور راستے بن گئے ہیں، جو بہت خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہیں کہ اگر آپ پانی کے زور سے آگے بہہ نکلیں تو چکنی اور چمکدار چٹانوں میں پیر جمانا یا ہاتھ سے کوئی سہارہ لینا ممکن نہیں ۔ لہذہ آبشاروں کے اندر جانے کی ہمت وہی کریں جنہیں تیرنا آتا ہے، ورنہ لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ 

کراچی سے مولہ چٹوک کا پروگرام کم سے کم تین دن پر مشتمل ہونا چاہیے، دو دن آنے اور جانے کے اور ایک پورا دن کیمپنگ، موج مستی اور باربی کیو کے لیے۔ خضدار سے آگے جانے سے پہلے گاڑی کا فیول، پانی، پنکچر وغیرہ کی چیکنگ کر لیں، ایکسٹرا ٹائر ضرور ساتھ رکھیں۔ اور پنکچر کے لیےتیار رہیں، مولہ ٹوور کے لیے بیسٹ موسم بارشوں سے کافی پہلے یا کافی بعد کا ہے، کیونکہ سارا آف روڈ راستہ دریا کا بیڈ ہے جو بارش کے قریبی دنوں میں زیادہ پانی ہونے کی وجہ سے پار کرنا مشکل ہے۔
ہمارا اپنا Grand Canyon, خضدار، بلوچستان، پاکستان


دوریوں کے صحرا میں ہجر کی تمازت ہے
وصل کی تمنا ہے قربتوں کی چاہت ہے
دور تک کوئی راہ رو نہ منزل ہے
کس سفر پہ نکلا ہوں واپسی قیامت ہے

--

سفرنامہءِ مولہ چٹوک

----------------------------------------------------------------------------


یہ بلاگ مورخہ 14 مئی 2016 کو ہم سب ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔

خصوصی شکریہ: جناب ابو ذر نقوی، جناب اقبال جام صاحب

پاکستان میں سیاحت کے حالات کا ایک جائزہ پڑھئیے۔

سیاحت کے شعبے میں سرکاری اور نجی سیکٹر کا احوال جانئیے۔

بلوچستان کے بارے میں مزید جانئیے ۔ ۔ ۔

کنڈملیر، استولا ائی لینڈ، شہرِ غاراں