Sunday, October 16, 2016

تاک بندر، اورمارہ ایڈونچر

تاک بندر کیمپ سائیٹ

سالانہ فیملی ٹرپ کئی ماہ سے لڑھکتا آگے کھسکتا جارہا تھا، عید پر بننے والا پروگرام ٹلتے ٹلتے بقر عید پر پہنچا۔ بقر عید پر گورکھ ہلز یا تھر پارکر جانے کا سوچا لیکن موسم چیک کرنے پر پتا چلا کہ درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر رہے گا، بچوں کے ساتھ اتنی گرمی میں سفر نامناسب ہے ۔ پھر کنڈ ملیر ہی دھیان میں آتا ہے ۔ لیکن کنڈ ملیر اتنی بار جاچکے ہیں کہ اب دل کرتا ہے کہ کوئی نئی جگہ ایکسپلور کی جائے۔



عرصہ پہلے ایک بہت ہی پیاری سی ڈاکٹر صاحبہ سے اچانک ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ وہ تو ہمارے فینز میں سے ہیں۔ انہوں نے ہمارے استولہ والے بلاگ کی بہت بہت تعریفیں کیں اور آفر دی کہ ان کی پوسٹنگ اورمارہ میں ہے تو ہم جب چاہیں اورمارہ میں ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوں۔ وہ آفر ہم نے سیف ڈپازٹ میں رکھی ہوئی تھی اب جب کچھ نیا دیکھنے کو دل چاہا تو اورمارہ کی آفر سیف ڈپازٹ سے نکال کر کیش کرانے کا ارادہ کیا۔ پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی پوسٹنگ کہیں اور ہوگئی ہے۔ ہم نے کہا میز بانی نہ سہی معلومات ہی حاصل کر لیں۔ ان سے ضروری معلومات لیں۔

ایک اور صاحب جو ہمیشہ ہمارے ہر ٹرپ کے بعد ہم سے دوستانہ سا گلہ کرتے تھے کہ ہم کہیں جاتے ہوئے انہیں بھی پوچھ لیتے، ان سے پوچھا کہ ہاں بھئی ہمارے ساتھ اورمارہ چلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں چلنا ہے۔ لیکن خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ ان کے آفس میں چھٹیوں کا کچھ حساب کتاب گڑ بڑ ہوگیا، اور حسن بھائی کو بقر عید کی چاند رات کو ڈائریا ہوگیا، سو ہمارا پروگرام وہیں کا وہیں رہ گیا۔ اور ہم محرم کی چھٹیوں کے خواب بننے لگے۔

محرم کا چاند نظر آتے ہی پھر ہمارے دل میں امنگیں سر اٹھانے لگیں، اس بار ہم نے ایک نہ شد تین تین شد کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی ، لیکن ایک کے بعد ایک سب بوجوہ انکار کرتے گئے۔ ہم نے کہا نہیں تے نہ سہی، ہم کلے ہی چلے جاویں گے۔ کوئی پہلی بار تھوڑی کلے جارہے ہیں۔ 8 محرم کو جب ساری تیاری ہوچکی تھی، خیمے، برتن بھانڈے، کھانے پکانے کے اوزار اور سامان سارا آنگن میں ڈھیر تھا، گاڑی کی ٹنکی فل ہوچکی تھی، حسن بھائی جو "پہاڑ پانی جانے" کی خوشی میں ادھر سے ادھر اڑتے پھر رہے تھے، کسی چیز سے اٹک کر دھڑام سے گرے، دروازے کی چوکھٹ سے سر ٹکرا یا اور ایک انچ لمبا کٹ ماتھے پر لگا لیا۔ سارا چہرہ خون ہی خون۔ ابو اور بھائی انہیں ہسپتال لے کر بھاگے۔

ویسے ہم بہت پکے ایمان والے لبرل ہیں نحوست وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے لیکن اپنے بچے بیمار ہوں یا ان کو چوٹ لگ جائے تو کہاں کا لبرل ازم کہاں کا ایمان۔ سارے نظر، نحوست والے عوامل پر خود بخود یقین آجاتا ہے اور ایمان پتلی گلی سے نکل لیتا ہے۔ ہمیں جو پہلا خیال آیا وہ یہی تھا کہ اورمارہ کے پروگرام میں کوئی نحوست ہے، جب بھی پروگرام بنتا ہے حسن کی جان پر کوئی مصیبت آجاتی ہے، ہمیں اورمارہ نہیں جانا چاہیے۔ لیکن حسن صاحب "قسمت" پر دو ٹانکے لگوا کر ہنستے کھیلتے واپس اور پھر وہی اچھل کود شروع ۔ ابا سے پروگرام کے مستقبل پر رائے طلب کی ، ابا نے کہا "جائیں گے"، تو پھر جائیں گے۔

رات بچوں کو تیار کر کے سلا دیا گیا کہ سویرے سویرے انہیں ڈسٹرب کیے بغیر ہی سوتے میں اٹھا لیا جائے۔ سامان گاڑی کے اوپر و اندر ٹھونس ٹھونس کر باندھ دیا گیا۔ تاکہ صبح صرف خود گاڑی میں ٹھسنا باقی رہ جائے۔ ہم نے تو ہر ٹرپ سے پہلے تجویز دی ہے کہ ہم بھی تیار ہوکر گاڑی میں ہی بیٹھ کر سوجاتے ہیں ، پر کوئی سنتا ہی نہیں ہماری ۔

صبح ساڑھے تین بجے ہم جگا دیے گئے، اور چار بجے کے لگ بھگ ہم گھر سے باہر تھے۔ مطلب گاڑی میں۔ وندر پر ناشتہ کیا، شکر کہ ناشتہ مل گیا ، پچھلی محرم پر تو کسی کو چائے ملی کسی کو نہ ملی، ویسے ہم اپنے ناشتے کا متبادل انتظام ساتھ لیے پھر رہے تھے۔ زیرو پوائنٹ پر گاڑیوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں، ہر سائز اور اقسام کی گاڑیاں، موٹر سائکلیں۔ شہر کا شہر نکل بھاگ رہاتھا۔ کنڈ ملیر سے گزرے، کنڈ ملیر لالو کھیت بنا ہوا تھا، محرم کے ہاوس اریسٹ سے بھاگے ہووں کا روایتی رش۔ تقریباً ہر گاڑی حسن ہوٹل کے اکلوتے درخت کے نیچے سر گھسائے کھڑی تھی۔نانی مندر کے ناکے والے رش میں کمائیاں کر رہے تھے۔ اس بار تو میانی پر بھی گاڑیوں کی لائنیں تھیں اور بھری دوپہر میں لوگ ساحل پر دریاں بچھائے پکنک منا رہے تھے۔ مکران کوسٹل ہائی وے کے کسی بھی موڑ پر تصویر لینے کے لیے سڑک خالی ہوجانے کا انتظار کرنا پڑ رہا تھا۔ کافی لوگ کوسٹل ہائی وے پر بوزی پاس کے آس پاس اونچی چٹانوں کے سائے میں لب سڑک کھانے پکانے میں مصروف تھے۔
کنڈ ملیر ساحل

پھور چیک پوسٹ سے پہلے ایک حادثہ ہوچکا تھا۔ ایک موٹر سائکل کار میں اس بری طرح سے گھسی تھی کہ کار سڑک سے اڑ کر نیچے کچے میں الٹی پڑی تھی اور پسنجر سائیڈ کا دروازہ کچومر ہوچکا تھا۔ جبکہ موٹر سائیکل پوری ہی کچومر ہو کر دو فٹ بائی دو فٹ سائز کی ہوگئی تھی۔ کار کے زخمیوں کولے کر ایمبولینس ہسپتال روانہ ہوچکی تھی جبکہ بائک والے کی لاش کپڑے سے ڈھکی ہوئی وہیں سائے میں رکھی ہوئی تھی ایمبولینس کے انتظار میں۔ عینی گواہوں کے مطابق بائک والے کا ہی قصور تھا جس کی سزا اسے مل چکی تھی۔

ہم سارا رش پیچھے چھوڑ کر بوزی پاس چڑھنے لگے۔ زیادہ تر لوگ پرنسز آف ہوپ تک ہی آتے ہیں، بہت کم لوگ بوزی پاس تک جاتے ہیں۔ بوزی ٹاپ پر چوکی پھر سے آباد ہوچکی تھی۔ مکران کوسٹل ہائی وے سے ہمارا تعارف اس سے پہلے بوزی ٹاپ تک تھا اب ہمارے اصل سفر کا آغاز ہوا۔ اب سڑک پر رش بھی پہلے سے کم رہ گیا تھا۔ سورج عین سر پر آگیا تھا۔ اب آگے صرف چٹیل پہاڑ تھے جو سڑک کے کافی قریب آگئے تھے۔اتناکہ سامنے والے پہاڑوں کے علاوہ پیچھے کا منظر نظر ہی نہیں آتا۔ صرف سڑک نظر آتی ہے، کہیں سیدھی، کہیں ایس ٹرن بناتی ہوئی، کہیں پورا ہی گول دائرہ بناتی ہوئی، کبھی نسبتاً اوپر اٹھتی ہوئی کبھی ڈھلان سے بہتی ہوئی۔ لیکن یہ ڈھلان ، چڑھائیاں اور کٹ بوزی پاس کی طرح خطرناک نہیں ہیں۔ ارد گر د کے پہاڑ ،پہاڑیوں میں بدلتے گئے، پہاڑیوں کا سائز کم ہوتا گیا، اور با لآخر پہاڑیاں غائب ہوگئیں اور ہم ایک کھلے ہوئے لیکن بیاباں منظر کا حصہ بن گئے جس کے بیچوں بیچ ایک سڑک تھی اور اس پر ایک ہائی روف ڈگ مگ ڈگ مگ چلی جارہی تھی، کبھی کبھار کوئی اکا دکا کار یا ویگو میزائل کی رفتار سے ہمیں کراس کر جاتی۔
منہ ول اورمارہ شریف

کنڈ ملیر جاتے ہوئے حسن ہوٹل کے بعد ایک خوبصورت  زگ زیگ چڑھائی ہے جس کی تصویر ہر ٹور آپریٹر کے فیس بک پیج پر لازمی پڑی ہوتی ہے۔  اسی طرح ایک چڑھائی ہے شاید ہی کوئی ڈیسلآری ہو جس نے اس کے ٹاپ سے  نیچے کی تصویر نہ لی ہو جس میں مکران کوسٹل ہائی وے لہراتی بل کھاتی اتراتی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی بوزی پاس سے آگے جائے تو اسے پتا چلے کہ اورمارہ زیرو پوائنٹ تک ایسے کم از کم آٹھ دس زگ زیگ ٹرنزہیں اور پانچ سے زیادہ ایسے مقامات ہیں جہاں مکران کوسٹل ہائی وے اپنی خوبصورتی پر اتراتی ہے، جہاں پر دل و نظر اٹک جاتے ہیں اور کیمرہ تصویر لینے کو بے تاب ہوا جاتا ہے۔ انہی خوبصورت راستوں سے گزرتے ہم تقریباً تین بجے سہ پہراورمارہ زیرو پوائنٹ پہنچے۔ ڈرائیورہ نے چیک پوسٹ پر گاڑی روکی، پہرے دار کو سلام کیا

میں: "اسلام علیکم"
چوکی دار:"وعلیکم سلام، کہاں سے آئے ہیں"
میں: "کراچی سے"

وہ گھوم کر ابا کی سائیڈ چل دیا، کیونکہ خاتون ڈرائیور سے اس سے زیادہ بات کرتے اس کی شان میں کمی آرہی تھی۔

چوکی دار: "کہاں جانا ہے"
ابا: "اورمارہ دیکھنے آئے ہیں"

اس نے ابا اور بھائی کا شناختی کارڈ چیک کیا اور جانے کا اذن دیا۔ اس سے کسی ہوٹل کا پتا دریافت کیا جہاں کھانا کھایا جاسکے۔ اس نے اورمارہ بازار کا بتایا کہ وہاں ہوٹل ہیں۔ ہم بازار پہنچے ایک دو ہوٹل چیک کیے لیکن ان میں اتنا "ظرف" نہیں تھا کہ ہم سارے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے، سو وہاں سے واپس زیرو پوائینٹ چل پڑے، اور مارہ میں بھی کاروں اور ویگوز کی کافی چہل پہل تھی۔ فی الحال تو لنچ کرنا تھا سو واپس زیرو پوائنٹ پر پہنچ کر اسی گارڈ سے دوبارہ دریافت کیا تو اس نے ہائی وے کی گوادر سائیڈ کی طرف اشارہ کیا کہ ادھر کچھ فاصلے پر ٹرک ہوٹلز ہیں ان کو دیکھ لیں۔
اور مارہ زیرو پوائنٹ

آگے نیو کوئٹہ ہوٹل پر پہلے سے میلہ لگا تھا، کراچی کے نوجوان بائکرز کا ایک 12 پندرہ رکنی دستہ پورے ہوٹل میں بکھرا پڑا تھا۔ فلی لوڈڈ بائکس اور بائکرز۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ہم سے متاثرتھے کہ یہ بچوں کو لے کر نائٹ کیمپنگ کرنے چلے آرہے ہیں چارسو کلومیٹر دور، اور ہم ان سے "متاثر کم سڑے" جارہے تھے کہ واہ کیا مزے ہیں موٹر سائکل پہ، ایسے نکلا جائے کسی ٹوور پہ۔  یہ دستہ اس کے بعد ہر جگہ ہمارے ساتھ ساتھ یا ہمارے آگے پیچھے رہا یا ہم ان کے آگے پیچھے رہے، یہاں تک کہ ہم ان کا فون نمبر لے کر ٹلے کہ وہ لوگ اگلے سال موٹر سائکل ٹوور پہ شمال جانے والے ہیں اور ہمارے ابا کو  بائک پر جانے والا کوئی ہم سفر نہیں ملتا، اللہ کرے یہ بیل منڈھے چڑھ جائے۔  ہم نے بھی ایک دری پر قبضہ جمایا، اپنا تام جھام کھولا، اور لنچ کے انتظامات کئے۔

ہمارا ارادہ  اورمارہ ساحل پر کسی مقام پر کیمپنگ کرنے کا تھا۔ لیکن ہوا اس قدر تیز تھی کہ ریت  کی باریک لہریں مسلسل ساحل سے شہر کی جانب اورمارہ ہائی وے کے آر پار رواں دواں تھیں۔ نیول بیس کے نزدیک جانے سے ہم نے خود ہی پرہیز کیا کہ رات میں کوسٹ گارڈز ہمارا مزا کرکرا کرنے کی کوشش کریں گے ، کچھ بعید نہیں کہ ہمارے کیمپس ہی اکھاڑ جائیں۔  لنچ کے بعد ہوٹل کے عملے سے نائٹ کیمپنگ کےلیے مناسب جگہ دریافت کی اس نے بتایا کہ آگے جاکر بائیں جانب ایک پکی سڑک اندر جاتی ہے، تاک بندر یا تاق بندر تک ،مچھلی کے شکار کی جگہ ہے ، لوگ وہاں کیمپنگ بھی کرتے ہیں۔ پھر بائک سواروں سےدریافت کیا ، انہوں نے بھی تاک بندر کا ہی کہا کہ وہ رات کو ادھر کمیپ کریں گے۔ پھر صبح بوزی مکولا وائلڈ لائف سنکچوری کی طرف نکلیں گے۔  سو ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ ہم بھی تاک بندر پر ہی نائیٹ اسٹے کریں گے۔

ہم تاک بندر شاہرہ پر چل پڑے ، ہوٹل سے آگے چلیں تو دائیں ہاتھ ایک پٹرول پمپ آتا ہے جس سے تھوڑا ہی آگے ایک پکی سڑک بائیں جانب تاک بندر کی جانب جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں ہاتھ اونچے پہاڑ اور بائین جانب سمندر ہے، گویا یہ مکران کوسٹل ہائی وےسے ایک منی کوسٹل ہائی وے نکلتی ہے۔ اب ہم جو اس پر چلے ہیں تو چلتے ہی جارہے ہیں اور سڑک کا کوئی انت ہونے میں ہی نہیں آرہا ، آگے جاکر کچھ مچھیروں کی بستیاں نظر آتی ہیں غالباً چکن فیڈ یا اسی قسم کی کوئی ایکٹیوٹی بھی ہوتی ہے کیوں کہ آگے مچھیروں کی بستیوں کی مخصوص بو پھیلی ہوئی تھی۔ ہم وہاں سے واپس مڑ گئے کیونکہ راستے میں اس سے بہتر جگہیں تھیں جہاں کیمپنگ کی جاسکتی تھی۔ ہم واپس ہوئے تو دیکھا کہ پیچھے سے موٹر سائکل سواروں کا دستہ چلا آرہا ہے، ہمیں دیکھ کر رک گئے، ایک دوسرے کےارادے پوچھے،  وہ لوگ مزید آگے جاکر کیمپ کر رہے تھے ، ہم نے کہا ہم شروع میں موڑ پر کیمپ کریں گے، وہ آگے بڑھ گئے ہم واپس  پیچھے آگئے اور جیٹی کے پاس مناسب جگہ کیمپ کے لیے منتخب کی اور لنگر ڈال دیا۔
ہوٹل سے ہماری کیمپ سائٹ کامقام

کیمپس سیٹ کیے، سامان سیٹ کیا اور دری ڈال کر لمبے ہوگئے صبح چار بجے کے چلے ہوئے تھے اور اب شام کے ساڑھے پانچ ہورہے تھے۔ اور پیٹ بھی تازہ تازہ بھرا تھا خمار گندم عروج پہ تھا۔ لیکن بچے گاڑی میں اپنی نیند پوری کرچکے تھے۔ ہم فاطمہ کو لے کر سڑک کےپار ایک اونچے ٹیلے پر چاند ماری کرنے چل پڑے۔ ٹاپ پہ پہنچ کے  اس ایس ایم ایس کا جواب موبائل میں اتر آیا جو راستے میں ایک نہ ہوسکنے والے ہم سفر کومنہ چڑانے کے لیے کیا گیا تھا۔ گویا وہ ٹیلا موبائل سگنل پوائنٹ تھا۔  تھوڑی بہت فوٹوگرافی کے بعد ہی اندھیرا اترنا شروع ہوگیا، تو ہم واپس اتر آئے۔ جب تک روشنی رہی مقامی افراد گزرتے ہوئے حیرت سے ہماری خیمہ بستی کو دیکھتے رہے۔ ساحل پر مادہ کچھووں کی ٹریلز بنی تھیں، کچھ مقامات پر نرسری کا بھی گمان ہوا لیکن رات میں کوئی ممی ٹرٹل نظر نہیں آئیں، جبکہ صبح ایک دو نئی ٹریلز بھی نظر آئیں۔
تاک بندر، اورمارہ

رات ہم نے کیمپ فائر کیا، آگ کے اندر شکر قند اور اوپر بھُٹے بھونے اور کھائے۔ بچے  ریت سے کھیلتے رہے، دن بھر کے سفر کے بعد ہمارا سونے کا موڈ اور بچوں کا کھیلنے کا موڈ۔ فاطمہ تو پھر بھی سونے چلی گئی لیکن حسن بھائی کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ آخر کار بیٹری سے ایل ای ڈی لائٹ کا کنکشن منقطع کر کے لائٹ جانے کا اعلان کر کے زبردستی حسن کو سلایا گیا۔ صبح ناشتے کے بعد واپسی کا قصد کیا گیا۔ زیرو پوائنٹ پر موٹر سائیکل اسکواڈ پھر مل گیا۔ انکا گوادر کا ارادہ غالباً تبدیل ہوچکا تھا اب وہ بھی واپس گھر جارہے تھے۔ کل والی عوام ساری کل ہی واپس جاچکی تھی اب اورمارہ سے بوزی پاس تک سڑک پر وہ تھے یا ہم تھے، ہم کہیں رکتے تو ان میں سے کوئی  نہ کوئی خیریت پوچھنے کو رک جاتا ، انکی کوئی ٹولی کہیں سڑک کنارے رکی ہوتی تو ہم رک کر خیریت دریافت کرلیتے، اسی طرح آگےپیچھے ہوتے وہ بھی اور ہم بھی حسن ہوٹل ہنگول برج پہنچ گئے۔ جہاں ابھی تک میلہ لگا تھا ، ایک گاڑی روانہ ہوتی تو دو مزید آجاتیں۔

حسن ہوٹل پر کچھ دیر آرام کیا ، لنچ کیا اور پھر مڈ والکینو چل پڑے۔ مڈ والکینوز تک اب باقاعدہ پکی سڑک بن چکی ہے مکران کوسٹل ہائی وے سے کراچی کی طرف منہ کرکے سیدھے ہاتھ پر آٹھ کلومیٹردور تین مڈ والکینوز ہیں جو نانی ہنگلاج مندر کے بعد اس علاقے میں ہندووں کا دوسرا مقدس مقام ہیں۔ ہر سال نانی ہنگلاج مہا پوجا میلے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں ہندو زائرین ان والکینوز کی یاترا کرتے ہیں، ان کی کیچڑ سے چھوٹے چھوٹے مندر نما بنا کر ان میں دئے جلاتے ہیں،چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔  کیچڑ میں اشنان کر کے اپنے جسمانی اور روحانی عوارض دور کرتے ہیں اور اس کیچڑ کو بطور تبرک اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہندووں کے پوجا میں رکھے گئے ناریل اور کھانے پینے کی اشیاء ان کے جانے کے بعد مقامی بچے اٹھا لاتے ہیں اور دعوت شیراز اڑاتے ہیں۔ ایک مقامی نے ہمیں بھی چارناریل پیش کئے جن پر کیچڑ لگا تھا۔ ان والکینوز سے اندازاً پانچ کلومیٹر آگے ایک تقریباً "کنوارہ" ساحل ہے کیونکہ وہاں تک بہت کم لوگ ہی جاتے ہیں، اکثریت کنڈ ملیر کا ہی ستیا ناس کرنے میں مصروف ہے۔
چندر گپ I

چندر گپ نمبر ون یعنی سب سے اونچے مڈ والکینو پر چڑھنے کے لیے تو ہمت کےعلاوہ ٹریکنگ شوز اور چھڑی درکار تھی لیکن دوسرے بڑے والکینو پر تو گاڑی بھی آرام سے کافی اوپر تک چڑھ جاتی ہے، سو ہم نے گاڑی چڑھا دی، جہاں تک چڑھ سکی ۔ باقی پیدل چڑھ گئے، چڑھتے ہوئے کسی جھرنے کے بہنے کا ترنم سنائی دے رہا تھا لیکن جھرنا نظرنہ آتا تھا۔ غور کیا تو اوپر والکینو کے دہانے سےتازہ کیچڑ کی لکیربہہ کر نیچے آرہی تھی اور درمیان میں کہیں غائب ہوکر پھر کافی نیچے جاکر دوبارہ نظر آتی تھی، جہاں سے کیچڑ کی لکیر غائب ہورہی تھی ، وہاں وہ دوبارہ سے "زیر زمین"  راستہ بناتی ہوئی بہہ رہی تھی اور جھرنے کی آواز اسی کیچڑ کے زیر زمین بہنے سے آرہی تھی۔ زمین نرم تھی، بھائی نے ہمیں ٹریک تبدیل کرکے دائیں بائیں ہوجانے کا کہا کہ کہیں یہ جگہ بیٹھ کر سارے ہی کیچڑ میں نہ جابیٹھیں۔
چندر گپ 2

سامنے کا حصہ ہموار ہے جس پرکچھ تازہ اور کچھ کم تازہ کیچڑ کی لہریں والکینو کے شب روز کا فسانہ سنا رہی تھیں اسی کے نیچے کیچڑ کے جھرنے رواں دواں تھے۔ جبکہ سائیڈ ٹریک پر زمین ہموار نہیں تھی بلکہ اونچی نیچی تھی جیسے آواز کی لہریں کاغذ پرنشیب و فراز سے ظاہر کی جاتی ہیں، کہیں کہیں مختلف سائز کے سوراخ بھی تھے جن سے شاید والکینک ایکٹوٹی ہائی ہونے کے دوران گیسوں کا اخراج ہوتا ہوگا۔ ہم نے ان سوراخوں اوپر یا قریب پاوں دھرنے سے گریز کیا کہ ایسا نہ ہو سیدھا والکینو کے اندر لینڈ کر جائیں۔ اوپر سامنے کی جانب ایک ضمنی کریٹر ہے جس میں وقفے وقفے سے ایک بلبلہ سا ابھرتا اور ایک دائرہ بنا کر غائب ہوجاتا۔ ارد گرد اگر بتیاں اور ایک دو کپڑے کی چادریں پڑی تھیں۔ جو غالباً ہندو زائرین وہاں منت پوری ہونے کی نشانیوں کے طورپر ڈال گئے ہونگے۔
ضمنی کریٹر، چندر گپ 2

 اس ضمنی کریٹر سے اگر دائیں یا بائیں ہوکر زرا اوپر جائیں ، جس کے دوران نشیب و فراز سے پھسلنے کے کئی آپشنز ہیں،  تو والکینو کا بڑا والا دہانہ سامنے آتا ہے، جسے دیکھ کر دل میں ایک عجیب سی سرشاری کا احساس ہوتا ہے،  یا شاید پہلی بار کسی والکینو کا دہانہ دیکھنے پر ہوتا ہے ، یہ کنفرم کرنے کے لیے ایک بار مزید جا کر تجربہ کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی آواران میں مزید تین والکینوز دریافت ہوگئے ہیں انہیں بھی سر کرنا ہے۔ بڑے دہانے کا قطر یا Cirmcumference کا ہم کچھ اندازہ نہیں لگا سکے شاید اس تصویر سے کچھ اندازہ ہو جو کریٹر کے ایک جانب کھڑے ہوکر دوسری جانب کھڑے افراد کو فوکس کرکے لی گئی ہے۔ پس منظر میں چندر گپ 1 ہے۔
چندر گپ 2 مین کیمپس 

 اس کریٹر میں کیچڑ کناروں سے کافی نیچے تھا، اور وقتاً وفوقتاً تین مختلف جگہوں پر بلبلے ظاہر ہوتے تھے۔ لیکن کیچڑ باہر بہنے کا کوئی بظاہر میکنزم نظر نہیں آیا، البتہ پچھلی جانب اور اطراف میں کافی پرانی کیچڑ بہنے کے آثار تھے، غالباً یہ کسی خاص موسم میں سیزن پر آتا ہوگا، اور آج کل یہ اس کے آرام کے دن تھے۔ پیچھے کی جانب ڈھلان کی ساخت سے اندازہ ہوا کہ ہنگول نیشنل پارک میں پائے جانےوالے  پہاڑوں کی اکثریت کسی زمانے میں مڈ والکینوز ہی رہی ہوگی جو وقت کے ساتھ ساتھ سوتے گئے یا فوت ہوتے گئے۔ ہم کوئی جیولوجسٹ تو نہیں ہیں لیکن ہمیں اکثر پہاڑوں کی بناوٹ سے گمان ہوتا تھا کہ ان کی ساخت ایسی ہے کہ جیسے مٹی اندر سے ابل کر باہر کی طرف آئی ہو۔ خاص کر وہ پہاڑ جو نانی ہنگلاج مندر جاتے ہوئے سڑک کے عین سامنے ایک دیوار کی طرح سامنے آجاتے ہیں۔ اس کی تصدیق یا تردید کوئی جیولوجسٹ ہی کرسکتا ہے۔

نانی مندر کے راستے میں منفرد ساخت والے پہاڑ

 دونوں مڈ والکینوز کی اترائیوں میں زائرین نے بہہ کر آنے والی کیچڑ سے اینٹیں بنا کر یا کیچڑ کے سوکھے ٹکڑے چن کر امیدوں کے محل تعمیر کئے تھے جن میں وہ دعاوں کے چراغ جلاتے ہونگے۔ ایسے ہی کچھ آس کے دیئے والکینو کے بڑے کریٹر کے اندر بھی کیچڑ سے بنائے گئے تھے۔ ایک امید کا محل ہم نے بھی شرارتاً تعمیر کر دیا۔
دعائیں جلد اوپر پہنچانے کے انتظامات،
والکینو کے مہر بان ہونے کی صورت میں زائر بھی اوپر پہنچ سکتا ہے

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچپن کو جس طرح ہم نے انجوائے کیا ہے اپنے بچوں کو بھی وہ سارے مزے کروائیں۔ ہم ہمیشہ فاطمہ کو مٹی کے برتن اور کھلونے بنانے کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی شوق رکھتی ہے، لیکن کراچی اب کنکریٹ سے پتھرایا ہوا شہر ہےجہاں مٹی خاص کر چکنی مٹی تو دیکھنے کو بھی نہیں ملتی، صرف حکیم یا پنساریوں کی دکانوں پر گراموں کے حساب سے ملتی ہے۔  اتنی ساری چکنی مٹی دیکھ کرہمارے تو منہ میں پانی بھر آیا جھٹ ایک خشک کیچڑ کا بڑا سا ٹکڑا گاڑی میں اسمگل کیا اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔