Wednesday, October 28, 2015

چلو چلو ، استولا چلو

استولئینز، فوٹو کریڈٹ: خضر ایم راشد

پھر اک جزیرہ خواب میں مجھے بلانے لگا

چرنا آئی لینڈ ایڈونچر کے دوران مزمل نے ذکر کیا تھا کہ اسکا ارادہ استولا آئی لینڈ جانے کا بھی ہے۔ اور میں نے اسے کہا تھا کہ جب بھی پروگرام بنے مجھے ضرور اطلاع دے۔ ایک ہفتے پہلے کنڈ ملیر نائیٹ کیمپنگ کے دوران مزمل نے دوبارہ استولا کا ذکر کیا اور کہا کہ کوئی بندہ پرائیویٹ لی استولا جانے کا پروگرام کر رہا ہے شئیرنگ کی بنیاد پر۔ میں نے اسے تفصیل بتانے کا کہا، تفصیل اس وقت اسے بھی یاد نہیں تھی۔ سو اس نے وعدہ کیا کہ واپس جا کر مجھے لنک بھیجے گا۔ 

کنڈ ملیر سے واپس آنے کے دوسرے ہی دن میں نے اسے ای میل کی کہ مجھے استولا والے پروگرام کی تفصیل بھیجو۔ اس نے ایک آن لائن دعوت نامہ قسم کا لنک بھیج دیا ۔ گھر آتے ہی فوراً چیک کیا تو مالک مقام دعوت نے ہمیں پکڑ لیا۔ دھڑ سے اسی لنک پر ایک چیٹ باکس کھل گیا ۔ "اسلام وعلیکم نسرین۔آئی ایم سو این سو، آپ کو اس پروگرام کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ لیں۔" یہ تھے جناب خواجہ خضر ۔ ہم نے کیا پوچھنا تھا۔ سب کچھ تو اس شیٹ پر لکھا تھا۔ الٹا ہمارا انٹرویو شروع ہوگیا۔ "پہلے کبھی کہیں گئی ہیں، کسی ٹووور آپریٹر کے ساتھ ٹور کیا ہے،آپ کس کے ریفرنس سے ہیں۔ کیوں ہیں، یہ کیا ہے وہ کیا ہے" ، ساتھ میں اپنے ٹو آئی سی محسن کو بھی ملا لیا اور دونوں نے مل کر ہمیں اتنا بدحوا س کیا کہ ہمیں ان کی ٹرین روکنے کے لیے اپنی ممکنہ ہمسفر کے کےٹو بیس کیمپ ٹریک کی تڑی لگانی پڑی۔

اس شیٹ پر ممکنہ مسافروں کے نام بمعہ فون نمبرز اور کنفرمیشن اسٹے ٹس درج تھے، جیسے ہی ہم نے اپنا نام اور فون نمبر ڈالا، ہمارا فون بجنا شروع ہوگیا۔دوسری جانب خواجہ خضر تھے۔ "نسرین آپ آج میٹنگ میں آرہی ہیں؟"

ہم حیران پریشان "کون سی میٹنگ، کب اور کہاں؟"

"آج شام چھ بجے، میرے گھر پہ، مزمل نے آپ کو میٹنگ کا نہیں بتایا؟"

اور انکا گھر ڈیفنس میں ، ہم اورنگی میں ۔ وہ کراچی کے آغاز پر تو ہم کراچی کے اختتامی سرے پر۔ اور یاد رہے کہ پچھلی شام ہی ہم کنڈ ملیر سے واپس آئے تھے، ابھی تک ان پیکنگ بھی نہیں کی تھی ،آفس سے واپس آکر سوچا تھا، پہلے سوئیں گے، پھر دھوبی گھاٹ لگائیں گے۔ پر نہ جی، انہوں نے تو ہماری سننی ہی نہیں تھی، سو ہماری کوئی بھی دہائی کسی کام نہ آئی۔جواب آیا " جو میٹنگ میں آئے گا ،وہی استولا جائے گا"۔ آہ ،،، کتنی کوفت ہوتی ہے جب توقعات پوری نہیں ہوتیں۔ ہائے ابھی تو کنڈ ملیر کی تھکن بھی نہیں اتری تھی کہ انہوں نے ڈیفنس کی دوڑیں لگوا دیں۔ ہم نے فورا بخاری سے رابطہ کیا کہ ایسا ایسا پروگرام ہے، تم نے جانا ہے تو چلو تمہارے پڑوس میں آج میٹنگ ہے۔ بھاگم بھاگ پہلے بخاری کو پک کیا ، اور میٹنگ میں پہنچے۔

بخاری نے فوراً ولید کو شامل کرنا چاہا .. جس سے ہمارا کانٹے کا بیر ہے کہ اس نے جنوری والے کنڈ ملیر پروگرام کی تصویریں ابھی تک نہیں دیں بلکہ پہچاننے سے بھی انکار کر دیا تھا .. بخاری کی طرف سے کنفرمیشن پینڈنگ تھی .. لیکن ہم اکیلے کے چکر میں کتنے پروگرام چھوڑیں ، ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کوئی دوست یا جاننے والا ہمارے ساتھ ہو یا نہ ہو، اب ہم بس خود پر ہی انحصار کریں گے اور اکیلے ہی جائیں گے جہاں جانا ہوگا۔ .. سو ہم نے مزمل سے بھی نہیں پوچھا اور پروگرام ڈن کردیا۔اور اگلے دن پیمنٹ کر کے اپنے ارادوں کو مزید پکا کیا کہ بھاگنے کا کوئی امکان نہ رہے۔

آغازِ سفر:

اورطے شدہ تاریخ پر رات ٹھیک  نو بجے ہم سارے ساز و سامان کے ساتھ ٹرپ ہیڈ کوارٹر پہ تھے۔ اور خضر صاحب غائب۔البتہ ان کے چھوٹے بھائی نے ہمارا استقبال کیا۔ سامان اتار کر ہم بخاری کی طرف دوڑ گئے ..ابھی تک دل خوش فہم کو جو امیدیں تھیں ان آخری شمعوں کو بجھانے۔ بخاری نے انتہائی خراب موڈ کے باوجود ہاٹ این اسپائسی رول اور سمندر کی ہوا کے ساتھ ہماری میزبانی کی۔ رات تقریباً بارہ بجے واپس ٹرپ ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ ساری پبلک آچکی تھی اور ہر قسم کے بے تحاشہ سامان کو کوسٹر میں فکس کرنے کے چکر میں تھی۔ بے شمار آئس باکس, بیک پیک,سفری خیمے، پانی کی بوتلیں, کھانے کے سامان کے کارٹنزاور نہ جانے کیا الا بلا ہیڈ کوارٹر میں بکھرے پڑے تھے۔ اور کچھ انجان اور کچھ نئے نئے جان پہچان والے چہرے اندر باہر بکھرے کھڑے اور پڑے تھے۔ بہر حال جی ایم اور انکے ہیلپرز نے کسی نہ کسی طرح سارا سامان اور سارے بندے ایک ہی کوسٹر میں پیک کر ڈالے ،، ، یہی کمال انہوں نے اور مارہ میں اسی سامان اور انہی بندوں کو ایک چھوٹی سی کشتی میں پیک کرکے کیا تھا ، لیکن یہ بعد کی بات ہے ،،،

اوررات تقریباً ایک بجے ہم چل پڑے اور مارا کی جانب۔ابھی کوسٹر چلی ہی تھی کہ کچھ لوگوں کو بھوک سی لگ پڑی اور بھوک کا دی اینڈ ہواپھر سے ہاٹ این اسپائسی پر، ہم سے پوچھا گیا، ہم کیا کہتے ،سو ہم ہنس دیے ، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ مرا .. ہاٹ این اسپائسی سےمائی کولاچی اور فاطمہ جناح برج کے راستے ڈائرکٹ شوٹ لگائی اور وندرسے ذرا پہلے ہوٹل پہ چائے کے لیے رکے .. ایسا لگتا تھا کہ کراچی پر کوئی آفت آنے والی ہے .. ہر کوئی کراچی سے باہر بھاگ رہا تھا .. موٹر سائیکلیں , کوچز, کوسٹرز, ویگو .. ایک ویگو پر میں نے اس قدر بندے پہلی بار دیکھے زندگی میں .. جس کے ہاتھ جو لگا لے کر کراچی سے بھاگ رہا تھا۔ نہ بھاگیں تو کریں کیا، محرم کے تین دنوں میں اکثریت جس طرح اقلیت کے ہاتھوں یرغمال بنتی ہے۔ اسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ سڑکیں بند، ٹی وی پر کوئی دلچسپی کا پروگرام نہیں، موبائل بند، ڈبل سواری بند، اور اس بار تو کراچی میں انٹرنیٹ بھی بند ہونے کی نوید تھی۔ تین دن تک بندہ کیسے نظر بند ہو کے بیٹھ سکتا ہے۔

ہوٹل پر موٹر سائیکلز ایسے لگ رہے تھے جیسےشہد کےچھتے کے گرد مکھیاں، اتنے رش میں کسی کو چائے ملی، کسی کو نہیں، ہمیں باتھ روم کا مقام کا پتا تھا، سو ڈائریکٹ ادھر راونڈ مارا، واپس آکر چائے کا پوچھا تو پتہ چلا ہماری چائے آرہی ہے، لیکن نہ آئی، ادھر چائے والا چائے کے پیسے مانگ رہا، ادھر باقی لوگ چائے مانگ رہے، لیکن شنید ہے کہ ہر دو میں سے کسی کو کچھ بھی نہ ملا۔ ہماری کوچ سمیت تین کوچز، ایک ویگو، چند ایک ٹرک اور ان گنت موٹر سائیکلیں۔ اور ایک منا سا ہوٹل۔ 

آہ ویگو ۔۔ ویگو ٹائپ گاڑیاں دیکھ کر ہمارے منہ میں پانی بھر آتا ہے، اپنی لینے کی تو ہماری اوقات نہیں، سو ہم نے باآوازِ بلند اللہ میاں سے دعا کی کہ اللہ میاں بس ایک ایسی گاڑی کا انتظام کردے، پلیز ۔۔ اللہ میاں تو انتظام کردے گا، لیکن ہمیں ڈر ہے کہ اس انتظام کی بائی پراڈکٹ ایسی نہ ہو کہ ہمیں کالے شیشوں میں ہی نظر بند رکھے اور گاڑی سے پیر ہی نیچے نہ دھرنے دے۔ ایسے انتظام سے تو ہماری ہائی روف ہی بہتر ہے جس میں سانس لینے کی آزادی جی بھر کے ہے۔

وندر سے آگے چلے تو گاڑی گرم ہوگئی سو زیرو پوائنٹ پر رک کر گاڑی ریفریش کی گئی، گاڑی کے ساتھ اسکی گھڑی بھی ری فریش ہوگئی، اور دوبارہ سے ایک بجانے لگی۔ زیرو پوائنٹ سےآگے چلے تو ایک اونٹ نے گاڑی سے معانقہ کرنا چاہا جسے ہمارے ڈرائیور نے بروقت ناکام بنا دیا۔ مزید آگے بڑھے تو  گاڑی کا ایک ٹائر دغا دے گیا، حسن ہوٹل، ہنگول برج پر ٹائر بدلنے کے لیے رکے، ٹائر بدلنے میں اتنی دیر لگی کہ روشنی ہوگئی ، سو اورمارہ کے بجائے وہیں ناشتے کا فیصلہ کیا گیا۔وہی ساری کوچز اور گاڑیاں جو وندر والے ہوٹل پر پارک تھیں، اب حسن ہوٹل ، ہنگول پر موجود تھیں، اور رش کا عالم یہ تھا کہ ناشتے کے لیے انڈے ختم ہوگئے، کافی لوگ جو پچھلی رات جلدی پہنچے ہونگے ہوٹل پر سوئے ہوئے تھے۔ ایک کوچ میں خان صاحبان بھر کر آئے تھے اور ناشتہ کرنے کے بعد یا شاید ناشتے کے انتظار میں ڈھول بجا کر اور رقص کر کے وقت گذار رہے تھے۔

حسن ہوٹل ہنگول ریور برج، کاپی رائیٹس: نسرین غوری 

میرا یہ ایک ہفتے کے اندر اندر ہنگول اور کنڈ ملیر کا دوسرا راونڈ تھا .. لیکن فاطمہ اور حسن کی ناراضگی کی قیمت پر۔ فاطمہ نے جس دن سے یہ سنا تھا کہ میں کہیں جزیرے پر جا رہی ہوں اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ منی پھو آپ کیوں جارہی ہو، آپ نہ جاو۔ اس کو بہلانے کہ لیے کہنا پڑا کہ میں اس لیے جارہی ہوں کہ دیکھ کر آوں کہ بچے وہاں جاسکتے ہیں یا نہیں ۔ 

"آپ کو یاد ہے نا، منی پھو پہلے کنڈ ملیر گئیں تھیں، یہ دیکھنے کہ آپ کنڈ ملیر جاسکتی ہیں یا نہیں، پھر آپ کو لے کر گئیں تھیں"،

" تو پھر آپ مجھے بھی لے کر جاو گی، جزیرے پر، بعد میں؟" 

اوراسی ترکیبِ استعمال سے اب تک ہمارے فاطمہ کے ساتھ کئی ٹوورز جمع ہوگئے ہیں اور ہوتے جارہے ہیں۔ ایک ٹوور ہم دونوں کو پہاڑوں کا یعنی فیری میڈوز کا کرنا ہے، ایک مصر کا، ایک مکہ مدینہ کا اور اب ایک اس میں استولا آئی لینڈ بھی شامل ہوگیا ہے۔

ہماری ہاں پر اس نے زیادہ اعتراض نہیں کیا۔ لیکن گھر واپس آنے کے بعد اس کا پہلا سوال تھا کہ

" منی پھوووو ، کیا بچے وہاں جاسکتے ہیں ؟"۔

اور حسن صاحب نے جب ہمیں جانے کے لیے تیار ہوتے دیکھا تو ان کی خوشی کا عالم دیکھنے کے لائق تھا۔ اپنی امی کے گود سے اترے، اور بجائے ہمیں ٹا ٹا کرنے کے، اپنی امی کو ٹاٹا کیا، فلائنگ کس دی اور ہماری گود میں چڑھ گئے۔ زبردستی روکنے پر وہ دہائیاں دی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ہمارےواپس آنے پر اس کی جو مسکراہٹ تھی۔ اسکا کوئی بدل نہیں ۔۔ 

ہمارا تو یہ ہنگول میں غالباً چوتھا یا پانچواں چکر تھا ، سو ہم نے مکران کوسٹل ہائی وے کے نظاروں کو آنکھوں میں بسانے کو ترجیح دی۔ جب ہیر رانجھا رانجھا کرتی آپ ہی رانجھا ہوجائے تو پھر رانجھا کی تصویر کا کیا کرے گی، لیکن جو پہلی بار جا رہے تھے، وہ مکران کوسٹل ہائی وے کےلٹکے جھٹکے دیکھ کر دیوانے ہوگئے، اور اسے اپنے کیمرے میں قید کرنے لگے۔ پر ایک جگہ ہمارا دل ضرور دھڑکا تھا، جہاں پچھلے ہفتے ہم اپنا ایک جھمکا گرا آئے تھے۔جھمکا بھی ایسا نایاب کہ جو ہم نے قاہرہ سے خریدا تھا۔ کاش کہ گاڑی رکوا کر ہم جھمکا تلاش کر سکتے۔ لیکن صاحب، ہزاروں خواہشیں ایسی، کہ ہر خواہش پہ "دُم" نکلے۔ سو آگے چل نکلے۔

بوزی پاس تک ہماری مکران کوسٹل ہائی وے سے شناسائی ہے۔ ایک بار بوزی پاس پر کوسٹ گارڈ کی چوکی پر لنچ بھی کرچکے ہیں۔کھانا ہمارا اپنا تھا لیکن گرم جوشی و مہمانداری کوسٹ گارڈز کی تھی۔ اس پروگرام میں دادا اور امی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ لیکن اس بار دیکھا کہ چوکی خالی ہوچکی تھی۔ غالباً کوسٹل ہائی وے پر اب خاصا امن و امان ہے۔ اسی لیے اب تک کے سفر میں بس ایک جگہ زیرو پوائینٹ کے پاس صرف ڈرائیور سے منزل مراد دریافت کر کے، بغیر کسی کا شناختی کارڈ چیک کیےہی ہمیں پروانہءِ راہداری دے دیا گیا تھا۔ بس میں جھانکنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ سامان کی چیکنگ کی تو بات ہی نہ کریں ۔ اگر ہم سامان میں ہیروئن یا اسلحہ بھی ادِھر سے ادُھر کر رہے ہوتے تو کم سے کم ٹرپ کا خرچہ تو نکال ہی لیتے۔ 

مکران کوسٹل ہائیوے کی خوبصورتی اور خطرناکی بوزی پاس تک زیادہ ہے ۔ بوزی پاس کے بعد راستہ خاصا معتدل ہے، سڑک موڈ تبدیل کر کے بریک ڈانس کے بجائے ، کلاسیقی رقص پر آجاتی ہے۔ارد گرد کا منظر استور روڈ جیسا ہے بلکہ اسکی مائیکرو کاپی ہے۔ دونوں طرف پہاڑ ہیں ۔۔ لیکن سنگلاخ اور چھوٹے سائز کے۔ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ ساتھ میں استور نالہ نہیں بہتا، یا شاید ایک مِنی نالہ بہتا ہے جو صرف بارش کے دوران بہتا ہے، باقی وقت خشک رہتا ہے۔ ارد گرد کی پہاڑیاں دل میں ایک خواہش پیدا کرتی ہیں کہ گاڑی روک کر پہاڑوں کے درمیان زگ زیگ نما راستے جو دراصل پانی کے بہاو کے باعث وجود میں آئے ہیں، ان میں ٹریکنگ کی جائے اور وہاں جایا جائے جہاں سے یہ راستے آتے ہیں ۔

بوزی پاس، کاپی رائیٹس: نسرین غوری

بوزی پاس کے بعد کافی دیر پہاڑوں میں چلنے کے بعد سڑک پہاڑوں سے نکل کر میدانی علاقے میں آجاتی ہے . اور ا س وقت تک چلتی رہتی ہے جب تک اورمارہ بیس کی پہاڑی نظر نہیں آجاتی۔ راستے میں صحرا ہے جو چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں سے پر تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک بہت بڑی چادر پر کسی نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بُوٹیاں کاڑھ رکھی ہوں، پر بُوٹیوں کے رنگ کافی بوسیدہ پڑ چکے تھے۔۔ پہاڑی نظر آنے کے بعد اگر آپ سجے پاسے مڑ جائیں تو گوادر کو راستہ جاتا ہے، اور کھبے پاسے مڑیں تو اورمارہ پہنچ جاتے ہیں ۔ آخر کار ایک طویل سفر کے بعد اور مارہ کے ساحل پر مہمان پرندوں نے ہمارا استقبال کیا۔اس وقت تقریباً دن کے بارہ بجے تھے اور ہم اپنے متوقع وقت سے دو گھنٹے لیٹ تھے۔

اورمارہ:

جتنا اورمارہ ٹرانزٹ کے دوران ہمیں نظر آیا ایک چھوٹا سا شہر جسے قصبہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ جو بس ساحل کے آس پاس چند سو مکانات، شاید صرف ایک مرکزی سڑک اور ایک نیول بیس پر مشتمل ہے۔ ساحل کے آس پاس ہی چند ایک چٹانیں ہیں جو تقریباً جزیرہ ہی ہیں لیکن ان کی قدر اس لیے نہیں ہے کہ وہ رسائی میں ہیں ۔۔ زمین سے قریب ہیں۔ اور ان پر کیمپ کرنا یا زمین پر کیمپ کرنا ایک سی بات ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ یہ ایک سی بات نہیں ہوگی ۔

اورمارہ کا آخری سرا ، کاپی رائیٹس : نسرین غوری

ساحل پر مچھلیوں کی مخصوص بو کے ساتھ ڈیزل اور کائی کی بوز نے جپھی پائی ہوئی تھی۔ اور ایک دم مست ماحول بنا رکھا تھا۔ کشتی کو دیکھ کر ہمیں خاصہ صدمہ قسم کا احساس ہوا کہ ہیں ،،، یہ کشتی ہے۔ اس سے بڑی کشتی میں تو ہم چرنا گئے تھے۔ خیر اگلا مرحلہ سامان اور بندوں کو کشتی میں منتقل کرنا تھا جو تقریباً سمندر کے درمیان میں کھڑی تھی۔سامان کشتی تک پہنچانے کی ذمہ داری جس گدھا گاڑی والے کی تھی اس کا کچھ پتہ نہ تھا۔ لہذہ ذمہ داران میں سے کسی نے تجویز دی کہ اسکا انتظار کرنے میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ساحل سے کشتی تک انسانی زنجیر بنا لی جائے اور فٹا فٹ سامان کشتی پر پہنچایا جائے۔ فوری طور پر سارے لڑکا لوگ ایک لائن میں کھڑے ہوگئے اور سامان کشتی میں منتقل ہونے لگا۔ لڑکی لوگ کو کہا گیا کہ آپ اپنا پرسنل سامان ہی پہنچالیں تو خیر ہے۔

کشتی

سامان کی توواقعی خیرہی تھی لیکن اتنے پانی میں جاکر کشتی میں بیٹھناہمارے لیے ایک ناگوار مرحلہ تھا . پرسنلی آ ئی ہیٹ پانی میں جانا۔ گٹے گوڈوں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس سے زیادہ پانی میں ہم کبھی نہیں گئے اور اس میں زیادہ قصور ہم سے زیادہ کراچی کے سمندر اور کراچی کی خواتین کا ہے۔ کراچی کا سمندر اتنا غلیظ ہے کہ ہم تو اس میں پاوں بھی بھِگانے کے روادار نہیں۔ اور کراچی کی خواتین جس طرح اس سمندر میں شرابور ہو کر واہیات نظر آتی ہیں ۔ ہمیں اسطرح نظر آنا ہرگز پسند نہیں۔

پانی ہماری کمر تک تھا، اور اتنے پانی میں توازن برقرار رکھنا خاصا مشکل کام ہے. ہر ٹائیڈ جیسے ٹائفائیڈ بخار کی طرح ہمیں الٹ دینے کو تیار تھی۔ ہم کبھی ایک کا ہاتھ پکڑتے، کبھی دوسرے یا دوسری کا کندھا پکڑ کر ڈوبنے سے بچنے کی کوشش کرتے۔ مزید یہ کہ جس طرح حضرات ڈولم ڈالی کر کے کشتی پر پہنچ رہے تھے ہمیں اس طرح کشتی پر جانے سے اوپر جانا زیادہ قابل ترجیح لگ رہا تھا۔ لیکن اللہ میاں نے ہماری لاج رکھی اور کہیں سے گدھاگاڑی نمودار ہوئی جو سارا سامان چڑھائے جانے کے بعد نظر آئی تھی اور اب اسکا کام صرف ڈیزل کے پیپے کشتی پر پہنچانا تھا۔ ہم خواتین فوری طور پر گدھا گاڑی میں سوار ہوگئیں ۔ اسطرح ایک گدھے کی مدد سے ہم کشتی میں.چڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ ثابت ہوا کہ اورمارہ میں گدھوں سے کھانے کے علاوہ بھی مفید کام لیے جاتے ہیں ۔لاہوریوں غور کرو اس پر 

کشتی کا سائز دیکھ کر کچھ لوگوں کو گمان ہوا کہ یہ شٹل سروس ہے، اس سے دوسری کشتی میں منتقل ہوجائیں گے جو کہیں مزید گہرے پانیوں میں کھڑی ہوگی، لیکن پتہ یہ چلا کہ یہی کشتی ہے۔ سامان کشتی میں بھرنے کے بعد کشتی میں بندوں کی جگہ نظر نہیں آتی تھی ۔ لیکن جی ایم نے،جسے GEM کہنا زیادہ مناسب ہوگا ، اپنے ساتھیوں شہزاد اور علیم کے ساتھ مل کر سارا سامان کشتی کے پیٹ میں ایسے فکس کیا کہ ایک دو بندے بھی مزید وہیں فکس کیے جاسکتے تھے۔

:مدر لینڈ اور آئی لینڈ کے درمیاں

بندے اور سامان کشتی میں پیک کرنے کے بعدڈرائیور مطلب ناکُوا نے کشتی کو کک مار دی۔ حفظ ماتقدم کے طور پر سارےمسافروں کو موٹلیم کی ایک یا دو گولیاں ہضم کروائی گئیں ۔ اورآغاز سفر کا جشن پیپسی ، مرنڈا اور سیون اپ کے ٹِن  سُڑک کرمنایا گیا۔ بعد میں یہ ٹن کافی مہنگے پڑے، لیکن پیتے ہوئے انجام کون سوچتا ہے۔

 کشتی نے جزیرہ نما کے گرد ایک بڑا راونڈ کاٹا اور کھلے سمندر میں نکل آئی ۔پھر کشتی چلی اور چلتی ہی گئی یہاں تک کہ بس ایک بحر بے کنار تھا اور ہم تھے اللہ کے آسرے پر۔ درمیان میں کشتی کا انجن بند ہوگیا،پتہ لگا کہ ریڈیئٹر کا پائپ لیک کر گیا ہے۔ جس کی غالباً مرمت کر لی گئی یا متبادل انتظام کر لیا گیا۔ اور کشتی پھر سے چل پڑی ، لیکن یہ چند منٹ بہت بھاری تھے۔ سمندر بہت رف تو نہیں پر ہمارے لیے رف تھا۔ ہمیں نہ تو چکر آتے ہیں نہ ہی الٹیاں، لیکن سمندر کے بیچ میں جب چاروں اور پانی ہو اور کشتی رک جائے تو سیکنڈز میں اللہ جانے کیا کیا خیال آجاتے ہیں ۔ ٹھیک ہے ہم بہت بہادر ہیں اپنی طرف سے۔ لیکن پانی کا جانور تو نہیں ہیں ۔ اور ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے،اور ہم نے اس دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے۔

راستہ تھا کہ ختم ہی ہونے میں نہ آتا تھا .. نہ کوئی اورلینڈ مارک یا سی مارک نظر آتا تھا .. سوائے سورج کے، ہماری کشتی سورج کے ساتھ ساتھ دوڑی جارہی تھی جیسے اسے سورج سے پہلے افق کے پار جانا ہو ، ،،، چلو دلدار چلو، چاند کے پار چلو، ،،، پر چاند ہمارے پیچھے پیچھے آرہا تھا کہ ابھی چاند کی اوائل کی جانب سے  درمیانی راتیں تھیں ۔ ویسے اورمارا سے استولا جانے کا راستہ بس یہی ہے کہ سورج طلوع ہونے کے بعد سورج کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں چلتے جائیں،، مطلب اپنی کشتی چلاتے جائیں جب سورج اور کشتی کے سامنے ایک قلعہ نما دیوار آجائے تو جاں لیں کہ یہی استولا ہے۔

لیکن استولا آنے میں ابھی بہت دیر تھی اور زمین کا باسی دماغ افق پر طرح طرح کے سراب دکھاتا تھا کہ یہی استولا ہے۔ لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا صرف ہماری زمین کی حفاظتوں میں پہنچنے کی خواہشات تھیں۔ زمین جو جائے اماں ہے خوف کے سمندر میں، خواہ وہ پانی کے درمیان ایک جزیرے کی زمین ہی کیوں نہ ہو۔ تھوڑا بور اور زیادہ خوفزدہ ہوکر ہم لیٹ گئے اور آنکھوں پر چشمہ اور ٹوپ چڑھا کر رات کر لی اور سمجھ لیا کہ ہم جھولے میں ہیں۔ لیکن یہ جھولا بہت جھٹکے دار تھا۔

شروع سفر میں تو موسم اور سمندر بڑی شرافت میں رہے، لیکن بہر حال ہم سمندر میں سفر کر رہے تھے اور ہوا کے مخالف سفر کر رہے تھے، اور اکتوبر میں موسم بڑا ہی بے ایمان ہوتا ہے، کب موڈ بدل لے کچھ پتا نہیں چلتا۔ اور اس نے اپنا موڈ بدل لیا۔ ہم نے بھری دوپہر میں سفر شروع کیا تھا خاصی گرمی تھی، کشتی پر ترپال ڈا ل کر عارضی چھت کا انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی گرمی تھی، کشتی نے جب رخ تبدیل کیا تو خواتین دھوپ میں اور حضرات سائے میں ہوگئے، اس پر تاو کھا کر خواتین نے حضرات کی طرف پیٹھ موڑ لی اور سر سائے میں کر لیا  اور پیر دھوپ میں کشتی کی کگر پر دھر لیےتھے۔ جب شروع شروع میں پانی کے چھینٹے آئے تو بڑے خوشگوار لگے ۔ لیکن یہ بڑھتے بڑھتے اتنے بڑھے کہ ہم سارے باقاعدہ شرابور ہوگئے۔

ایک تو ہم سارے گیلے، اوپر سے سفر کی ابتداء میں پی گئی کولڈ ڈرنک نے بھی مطالبات شروع کر دیے۔ حالت یہ تھی کہ " لے سانس بھی آہستہ کے نازک ہے بہت کام"۔ مزید کام بگڑنے سے پہلے ہم نے تو حفاظتی اقدامات کر لیے۔ ویسے بھی جس نے کی شرم اسکے پھوٹے کرم ۔اس قسم کے سفروں میں شرم و حیا کے معیار خاصے بدل جاتے ہیں ، ضرورت شرم پر غالب آجاتی ہے اور دوسرے بھی آپ کو شرمندہ نہیں کرتے، کیونکہ "ضرورتوں سے کس کو رستگاری ہے ، ابھی ہم، تھوڑی دیر بعد ان کی باری ہے "۔ یاد رہے کہ کشتی میں واش روم نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ ہمیں دوسروں پر حیرت تھی کہ اتنی قوت برداشت۔ اور اتنی دیر تک ۔۔ تھوڑا تھوڑا شک بھی ہےکہ ،،،

استولا :

بہت دیر سفر کے بعد سمندر میں ایک مٹی کی دیوار سی نظر آئی۔ شکر ادا کیا کہ کہیں تو کچھ نظر آیا ۔ یہی استولا تھا ، لیکن دلی ہنوز دور است۔ ہمارا خیال تھا کہ شکر سورج ڈوبنے سے پہلے ہم پہنچ گئے ورنہ بھیگے کپڑوں میں سورج ڈوبنے کے بعد فریز ہونے کے امکانات تھے، لیکن ہمارے اس خیال میں سے خضر یا محسن میں سے کسی ایک نے ہوا نکال دی کہ ابھی ایک گھنٹا مزید سفر باقی ہے۔ یہ گھنٹہ ڈوبتے سورج اور استولا کے سامنے سیلفیاں بناتے گزرا۔

استولا پہنچے تو اندھیرا ہونے کو تھا۔ پانی اتنا شفاف تھا کہ نیم اندھیرے میں بھی کشتی میں سے نیچے جھانکنے پر تہہ نظر آتی تھی ۔ پہنچ کر پھر وہی کہ پانی میں لینڈکرنا پڑا اور پھر بگلا بھگت کی طرح شڑاپ شڑاپ کرکے ساحل پر پہنچنا پڑاکہ وہاں اصلی والے گدھے کی سہولت فی الحال میسر نہیں ہے۔ایک تو سمندر کی مہربانی سے ہر ایک پہلے ہی باقاعدہ شرابور اور ٹپ ٹپ کر رہا تھا.اور سارا سامان ہی گیلا یا کم از کم نم ہوچکا تھا . جو کثر رہ گئی تھی وہ پانی میں کھڑی کشتی میں سامان چڑھانے ، اتارنے اور اترنے میں پوری ہوگئی۔



----------------------

جنوبی پاکستان کے سیاحتی مقامات کے بارے میں جانئے ۔ ۔ ۔