Saturday, September 28, 2013

واردات

ونس اپون اے ٹائم ہمارا دل ایک بندے پر آگیا تھا۔ ہم ٹھہرے سیدھے سادھے بندے، ہم نے زیادہ پریشانی سے بچنے کے لئے سیدھے سیدھے سارا معاملہ ان صاحب سے گوش گذار کر دیا۔ وہ بے چارے حیران ہوگئے۔ انھیں ہم سے ایسی امید ہر گز نہیں تھی۔ ہمیں کب خود سے ایسی کوئی امید تھی، ہم ان سے کم حیران نہیں تھے۔ وہ صاحب پہلے حیران ہوئے پھر شوخے ہو گئے اور اپنا فرمائشی پروگرام نشر کرنا شروع کردیا۔

انکی پہلی فرمائش یہ تھی کہ ہم ان کے ساتھ باہر کھانا کھائیں۔ ہائیں ، ، ، یعنی اگر ہمارا دل اپنی جگہ پر نہیں تھا تو انکا دماغ بھی کھسک گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ محترم یہ ڈیٹ ویٹ کی توقع تو تم ہم سے رکھنا بھی مت، ہمارا دل تم پہ آگیا ہے، برے توہم بھی تم کو نہیں لگتے، چلو شادی کرلیتے ہیں، پھر جو تم کہو۔

اس پر وہ مزید پھیلنے لگے، ایسی ایسی فرمائشیں جن کی ہمیں ان سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ لیکن ہمارا دل بے ایمان ہوا تھا، ہم تو اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم تھے۔ہم نے کوئی بھی فرمائش پوری کرنے سے صاف انکار کردیا۔

لو صاحب وہ تو انتقامی کاروائیوں پر اتر آئے۔ انہوں نے ہمارا فون اٹینڈ کرنا بند کردیا۔ ہمارے میسجز کا جواب دینا بند کردیا، ہمیں اپنی فیس بک، میسنجر اور نہ جانے کہاں کہاں سے نہ صرف بے دخل کردیا بلکہ بلاک بھی کردیا۔

آہ ہمارے درد و الم و رنج و صدمے کا عالم نہ پوچھیں، ہمیں انکے ساتھ مغز ماری کرنے کا جو نشہ تھا اسکے آفٹر ایفیکٹس بہت ہی خوفناک تھے۔ یقین مانیں دنیا میں جو سب سے خطرناک نشہ ہے وہ انسان کی صحبت کا نشہ ہے۔ ان سے رابطہ کٹ جانے پر ہمیں لگتا تھا کہ ہم فوت ہی ہوجائیں گے۔ سال بھر تو ہمیں نیند ہی نہیں آتی تھی اور آجائے تو اتنے خوفناک خواب آتے تھے کہ اس سے بہتر تھا کہ بندہ سوئے ہی نا۔ لیکن "وہ ہی نظر آتا ہے جب کوئی نظر نہیں آتا" کے مصداق اللہ میاں نے ہم کو مصر بھیج دیا۔ مصر میں بھی ہم اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے سیر و تفریح کرنے پاکستان چلے آتے تھے۔

اس وقت تو بس لگتا تھا کہ ہر سانس آخری سانس ہے، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہم نا صرف زندہ ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ خوش وخرم ہیں۔ وہ بھی یقیناً خوش ہونگے اپنے خرچے پر ]اب ہم انکی جاسوسی نہیں کرتے]۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں کوئی شریف آدمی بہت خوش ہے، کیونکہ ہم نے اب تک شادی نہیں کی۔ تو یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے انکار کر کے اپنے اور ہمارے دونوں کے حق میں بھلائی کی۔ اور آپ کے بھی، ورنہ آپ کو ایک اتنی اچھی رائٹر سے محروم ہونا پڑتا۔

اب اگر کبھی ہمارا کوئی دوست ہمیں اپنی فیس بک پر بین کرتا ہے،یا ہمارے کومنٹ ڈیلیٹ کرتا ہے یا ہمیں ڈیلیٹ ہی کردیتا ہے اپنی فرینڈز لسٹ سے تو ہم "سانو ں کی" کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہم انکے بغیر زندہ ہیں تو یقین رکھیے آپ کے بغیر بھی ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

Saturday, September 21, 2013

Qura'an: What is inside

آجکل میں مولانا مودودی کا اردو ترجمہ٫ قران بطور ایک کتاب پڑھ رہی ہوں۔ زیر نظر تبصرہ محض ایک ایسا ہی تبصرہ ہے جیسے ایک کتاب کو پڑھ کر اسکے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔

قران مجید کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی اس تمام جہان کا خالق ہے، وہی مقتدر ہےوہی تمام عبادتوں کا حقدار ہے۔ لہذہ صرف اور صرف اسکی بات سنی، مانی اور عمل کی جائے۔ اسکے بتائے ہوئے رستے پر چلا جائے، جو اسکے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا، کامیاب ہوگا، جو بغاوت کرے گا سزا کا مستحق ہوگا۔ ہر گناہ قابل معافی ہے، سوائے شرک کے۔

ترقی پسندی

ترقی پسندی بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہی ہے اگر اس میں دوسروں کی رائے کا احترام نہ ہو، ایک طرف لوگ مّلا کی شامت لے آتے ہیں کہ وہ اسلام کی غلط تشریح کرتا ہے، اسکی سوچ محدود ہے، دوسری جانب ملا کہتا ہے، خبر دار میں اسلام کا ٹھیکدار ہوں مجھے تم سے زیادہ اسلام پتہ ہے، خبردار مجھ سے پوچھے بغیر ایک لفظ کا مطلب بھی خود سے سمجھنے کی کوشش کی، تیسری جانب اگر کوئی خود سے بڑھ کر نیک نیتی سے یہ جاننا چاہے کہ آخر مذہب ہے کیا، کتاب میں کیا لکھا ہے، تو ترقی پسند انتہا پسند اتنی شدت سے اسکا مضحکہ اڑاتے ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ جائے،۔

سوال یہ ہے کہ یہ ترقی پسند انتہا پسندی جان بوجھ کر ملا کی پوزیشن مضبوط کر رہی ہے، یا نا سمجھی میں؟

یہ نہ تھی ہماری قسمت

اس بار عید پر شوق چڑھا کہ عید کارڈ عید کارڈ کھیلا جائے اور بچپن کی یادوں کو تازہ کیا جائے، پورا پاپوش کا بازارکھنگال ڈالا، عید کارڈ ندارد۔ گھر کے قریب ایک اردو بازار ہے، وہاں ایک دکان پر دکھی پریم نگری، ناکام عاشقوں والے عید کارڈ دستیاب تھے، سوچا لے لوں مگر پھر خیال آیا کہ پہلے جس کو بھیجا جائے اسکا بندو بست کیا جائے، یعنی پہلے ایک مستقل سرکا درد تلاش کیا جائے پھر اسکو دکھی پریم نگری والا عید کارڈ بھیجا جائے، عید کارڈ تو سستا نسخہ ہے، لیکن جو اسکا پری ریکویزیٹ وہ بڑا مہنگا پڑے گا۔

لہذہ پروگرام کینسل

چیونٹے

آپ نے کبھی کسی مکوڑے/ چیونٹے پر ترس کھایا ہے، یعنی وہ آپ کے نزدیک یا آپ پر چڑھ آئے اور آپ اسے مارنے کے بجائے اس پر ترس کھا کر اسکی جان بخشی کر کے اسے پرے کر دیں، وہ چند سیکنڈز بعد بلکل اسی مقام پر ملے گا جہاں آپ نے اس پر ترس کھایا تھا، آپ دس بار رحم کریں وہ دس بار اسی مقام پر ملے گا۔ یقین مانیں میں نے مکوڑے سے زیادہ ضدی، اڑیل، اور دھن کا پکا کسی اور نوع کو نہیں پایا،

Tuesday, September 17, 2013

فیس بک فرینڈز

کسی عقلمند نے کہا تھا کہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاو"۔ گھبرائیے مت، ہم کچھ ایسا کہنے نہیں جارہے، ہم تو صرف آپ کو آپکی فیس بک میں ایڈ ڈ دوستوں کے بارے میں کچھ بتارہے ہیں۔ پہلے ہمارے دوست ہمارے کزنز وغیرہ، محلے دار یا اسکول کالج اور جائے ملازمت کے ساتھی ہوتے تھے۔ لیکن سوشل فورمز خاص کر فیس بک کی بدولت اب آپ کا تعارف بلکل اجنبی افراد سے بھی ہو تا ہے، نتیجۃً آپ کے حلقہء احباب میں بھانت بھانت کے لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ ہم ان ہی سے تو آپ کا تعارف کروارہے ہیں۔ ڈرئیے مت، آگے پڑھئے۔

آپکے دوست:


یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی زندگی میں بھی آپکے دوستوں کے حلقے میں شامل ہوتے ہیں۔ لہذہ یہ گھر کے بھیدی ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پھوت پھات مارنے پر یقین رکھتے ہیں تو بہتر ہے انکے لیے ایک الگ پروفائل بنا لیں۔

سیکند فرینڈز:


[ سیکنڈ کزنز کی طرح] یہ آپکے دوستوں کے دوست ہوتے ہیں یا دوستوں کے بہن بھائی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان میں سے کچھ آپکے فرسٹ فرینڈز اور کچھ فاسٹ فرینڈز بن جاتے ہیں، جبکہ کچھ دوستوں کے حلقے سے خارج ہوجاتے ہیں۔

جڑواں فرینڈز:


فیس بک پر آپکی ملاقات کچھ ایسے لوگوں سے بھی ہوتی ہے، جن کو آپ کبھی پہلے نہیں ملے ہوتے، لیکن ان سے مل کر لگتا ہے کہ وہ آپکے جڑواں ہیں جو بچپن میں آپ سے بچھڑ گئے تھے۔ ان میں سے بعض کی آپ نے شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی، نہ کبھی آواز سنی ہوتی ہے۔ لیکن یہ خود بخود آپ کے چڈی بڈی ہو جاتے ہیں، وہ بھی اس عمر میں جب آپ چڈی پہننا ترک کر چکے ہوتے ہیں۔ ان کا ریڈیو بھی اسی فریکوئینسی پر سیٹ ہوتا ہے، جس پر آپکا ریڈیو نشریات پیش کرتا ہے۔

شوقین دوست:


شوقین فنکاروں کی طرح شوقین دوستوں کو بس آپ سے دوستی کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ان کی فرینڈز ریکویسٹ کنفرم ہونے کے بعد یہ ایسے منہ پھیرتے ہیں کہ دعا سلام بھی نہیں کرتے۔دعا سلام تو دور کی بات ہے ، شکریہ تک ادا نہیں کرتے۔ انھیں غالباً آپ کی پروفائل میں گھس بیٹھنا ہوتا ہے، جب یہ گھس بیٹھتے ہیں تو اسکے بعد ٹھنڈ پروگرام کرتے ہیں۔

اللہ واسطے کے دوست:

یہ دوست آپکی پروفائل میں ہر گز گھسنا نہیں چاہتےلیکن ہر اس فورم پر جہاں آپ اور وہ موجود ہوں آپ کی ہر پوسٹ پر کمنٹ اور ہر کمنٹ پر لائک کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آپ کے بارے میں اگر کوئی اختلافی رائے دے تو اس کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کے بھروسے آپ کسی کی بھی اور کہیں بھی، کسی پوسٹ پر کوئی "آگ لگاو" کمنٹ کرکے چین کی نیند سو سکتے ہیں، دوسرے دن مزیدار بریانی تیار ہوگی۔

آستین کے سانپ:


یہ وہ دوست نما دشمن ہیں جو آپکی ہر سنجیدہ پوسٹ پر "منہ چڑاو" کمنٹ اور مزاحیہ پوسٹ پر "دل جلاو" کمنٹ کریں گے، ہر معقول پوسٹ کی بھد پیٹ دیں گے، اور ہر فضول پوسٹ پر اپنی بقراطی جھاڑیں گے۔ اکثر و بیشتر یہ آپکے جڑواں یا چڈی بڈی فرینڈز میں سے ہوتے ہیں۔ انہی کے بارے میں کہا جاتا ہے، "ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اسکا ، آسماں کیوں ہو"

نرگسی دوست:


ہر دو پارٹیوں میں سے ایک کی خوش قسمتی اور دوسرے کی بد قسمتی سے یہ آپکے فرینڈ بلکہ آپ انکے فرینڈ ہوتے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھولے سے بھی آپکی پوسٹ پر کوئی کمنٹ یا لائک نہیں کرنا ہوتا۔ انکی نازک طبعی کا عالم یہ ہوتاہے کہ آپ کے نارمل سے کمنٹ بھی طبیعت پر گراں گزر سکتے ہیں، اور وہ ڈیلیٹ کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے دوست تادیر آپ کی پروفائل میں شامل نہیں رہتے۔ یا تو وہ خود آپ کو اپنی پروفائل سے نکال دیتے ہیں خاموشی سے، یا پھر آپ انکے ساتھ ایک دن یہی سلوک کرڈالتے ہیں۔ 

آپ کو یہ "مذمون" پڑھ کر کہیں ایسا تو نہیں لگ رہا کہ " دوست ہوتا نہیں پروفائل پر ہر آنے والا"

Sunday, September 15, 2013

شوئیاں

پھوت مارنا یا شیخی بھگارنا ہمارا خاندانی شوق ہے۔ دادا مرحوم سے یہ شوق ورثے میں چلا آرہا ہے، مرحوم ہمیشہ ہماری جاب کا ایک گریڈ بڑھا کر بتاتے تھے، یہی حشروہ اپنے بچوں کی جاب کے ساتھ کرتے تھے۔ اگر کبھی ہم ان کے ساتھ فلم دیکھنے سنیما جانے کی غلطی کر لیتے ۔۔۔ ویسے یہ غلطی ہم بچے بلاناغہ ہر سال کر لیا کرتے تھے ۔۔۔ تو سنیما پہنچتے پہنچتے بس کے ہر مسافر کو یہ خبر ہو چکی ہوتی تھی کہ ہم فلم دیکھنے جا رہے ہیں، کس سنیما میں اور کون سی۔ 
تو یہ جراثیم ہم میں بھی درجہ بہ درجہ منتقل ہوئے ہیں، خاصے کم منتقل ہوئے ہیں، پرہم خاندانی روایتوں سے ہرگز منہ نہیں موڑ سکتے۔ اب ہم دادا ابا کی طرح اپنی کاروائیوں میں غلو تو نہیں کرتے لیکن حسب توفیق شوئیاں ضرور مارتے ہیں۔

لاہور کی سیر

لاہور ٹھوکر نیاز بیگ کے بس اڈے سے شروع ہوتا ہے، نہر والی روڈ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ایک دو موڑ مڑ کے لبرٹی میں داخل ہوجاتا ہے، لبرٹی میں ایک ہوٹل ہوتا ہے، اسمارٹ ہوٹل، اس میں ایک جناح کنونشن ہال ہوتا ہے۔ ہوٹل کے سامنے ایک جھگی ہوٹل میں پتوڑے/ بتوڑے بک رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ایک کثیر المنزلہ شاپنگ مال ہوتا ہے، شام ہوتی ہے تو لاہور سمارٹ ہوٹل کے سامنے والی روڈ سے ایک یو ٹرن لے کر دوبارہ ٹھوکر نیاز بیگ کے بس اڈے پر ختم ہوجاتا ہے۔ 

بحوالہ مستنصر حسین تارڑ میٹنگ 7 ستمبر2013، لاہور

Friday, September 13, 2013

مستنصر حسین تارڑ

لوگو دور حاضر و غیر حا ضر کا سب سے خطرناک ادیب مستنصر حسین تا رڑ ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ یہ ایک ایسا خطرناک انفیکشن ہے کہ ایک بار آپ کو لگ گیا تو ساری عمر اس نے آپ کی جان نہیں چھوڑنی۔ غلطی سے بھی اسکی کوئی کتاب نہ پڑھنا، اسکا طریقہ واردات بڑا وکھرا ہے۔ یہ آپ کو اپنی باتوں کے جال میں قید کر لیتا ہے۔ آپ کو ایسی خطرناک جگہوں پر لیے پھرتا ہے کہ آپ کے 'کڑے' نکل جاتے ہیں۔ یہ آپ کو اسطرح گھیرتا ہے کہ آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ آپ کو گھیر گھار کے اس جیپ میں بٹھا دیتا ہے جس میں خواجہ صاحب، کرمانی، ،،،،، کے بعد کسی اور فرد کی جگہ نہیں ہوتی۔ کبھی لے جاکر کسی برفزار میں بٹھا دیتا ہے، تو کبھی یاک سرائے میں۔ کبھی اس جھیل کے کنارے تو کبھی اس جھیل کے کنارے۔ خود تو 'منظر' دیکھتا رہتا ہے، اور آپ اسے دیکھتے رہتے ہیں۔