Friday, September 13, 2013

مستنصر حسین تارڑ

لوگو دور حاضر و غیر حا ضر کا سب سے خطرناک ادیب مستنصر حسین تا رڑ ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ یہ ایک ایسا خطرناک انفیکشن ہے کہ ایک بار آپ کو لگ گیا تو ساری عمر اس نے آپ کی جان نہیں چھوڑنی۔ غلطی سے بھی اسکی کوئی کتاب نہ پڑھنا، اسکا طریقہ واردات بڑا وکھرا ہے۔ یہ آپ کو اپنی باتوں کے جال میں قید کر لیتا ہے۔ آپ کو ایسی خطرناک جگہوں پر لیے پھرتا ہے کہ آپ کے 'کڑے' نکل جاتے ہیں۔ یہ آپ کو اسطرح گھیرتا ہے کہ آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ آپ کو گھیر گھار کے اس جیپ میں بٹھا دیتا ہے جس میں خواجہ صاحب، کرمانی، ،،،،، کے بعد کسی اور فرد کی جگہ نہیں ہوتی۔ کبھی لے جاکر کسی برفزار میں بٹھا دیتا ہے، تو کبھی یاک سرائے میں۔ کبھی اس جھیل کے کنارے تو کبھی اس جھیل کے کنارے۔ خود تو 'منظر' دیکھتا رہتا ہے، اور آپ اسے دیکھتے رہتے ہیں۔

ہر سفر میں آپ کو زبردستی اپنے گروپ میں شامل کر لیتا ہے، آپ کی ہنڈیا چولہے پر ہو، آپ کو اپنے پیپر کی تیاری کرنی ہو، تھیسس لکھنا ہو، یہ ہاتھ پکڑ کر آپ کو اپنی جیپ میں بٹھا لیتا ہے۔ مہمان نواز ہے آپ کو اپنے خیمے میں جگہ دیتا ہے اور نور کے تڑکے سے بھی پہلے ٹھنڈی یخ جھیل میں 'تاڑی' لگوا دیتا ہے۔

انفیکشن لگنے سے مرض میں مبتلا ہونے کے درمیان یہ ہوگا کہ خواجہ صاحب آپ کے دوست ہونے لگیں گے۔ آپ کا بھی دل چاہے گا کہ ایک واری تو خواجہ صاحب کے سامنے 'اندازہ کڑو' بول ہی دیں۔ ایک اور مصیبت جو اسکے ساتھ 'چلنے' میں ہے وہ یہ ہے کہ عینی کو بخار ہو جائے تو آپکا دل پگھلنے لگتا ہے، سمیر کسی چوٹی پر پاکستان کا جھنڈہ لہرائے تو آپکا دل اسکا ماتھا چوم لینے کو کرتا ہے، سلجوک کو ہائیٹ ہو جائے تو آپ 'اپنے' بچے کے لئے پریشان ہو جاتے ہیں۔ آپکا بس نہیں چلتا کہ کیا کریں۔ یہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس کے ساتھ چلتے چلتے ایک دن آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ خود ہی مستنصر حسین تارڑ ہو گئے ہیں۔

جن جن سے یہ نیاز مندی رکھتا ہے، آپکو بھی اسکا نیاز مند بنا دیتا ہے، گویا اپنے ساتھ دیگر دوستوں کی روٹیوں کا بھی بندوبست کرتا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اسکی کتاب پڑھنے کے بعد آپ رسول حمزہ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، احمد بشیر و دیگر کی کتابیں پڑھنے کے لئے نہ مچل اٹھیں۔


-----------x-x-x------------