Monday, October 24, 2016

خواہشمندگان فیس بک فرینڈ شپ کی خدمت میں

اس پر تو کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ہم یعنی کہ ہم اپنی فیس بک پروفائل پر "دوست" بننے کے امیدواروں سے تنگ آئے ہوئے ہیں، اور اکثر و بیشترفرینڈ رکویسٹ بھیجنے والوں یا ان باکس میں ایڈ کرنے کی درخواستوں اور دھمکیاں بھیجنے والوں کی شان میں کھلے عام گستاخانہ و طنزیہ اظہار رائے کرتے رہتے ہیں۔ 

Tuesday, October 18, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہشتم)

یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی 


درہ مولہ کی منفرد ٹوپوگرافی
جاتے ہوئے ہمیں پیدل جانے میں اتنا مزہ آیا کہ واپسی پر جب ہمیں جیپ رائڈ آفر ہوئی تو ہم نے انکار کردیا اور پیدل واپس آنے کو ترجیح دی۔ ریسٹ ہاؤس پہنچے تو جھٹپٹے کا عالم تھا نہ مکمل روشنی نہ مکمل تاریکی۔ کچھ لوگ ہم سے پہلے کے واپس آچکے تھے، تمام مقامی اور ڈرائیور حضرات لنچ یا ڈنر میں مشغول تھے، ہم بھی منہ ہاتھ دھو کر لائن میں لگ گئے، ریسٹ ہاؤس کیونکہ چاروں جانب سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ہوا کا نام و نشان نہیں تھا شدید حبس کی کیفیت تھی۔ اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید لوگ آبشار سے واپس آنا شروع ہوگئے، ریسٹ ہاؤس کے کمرے دن بھر کی گرمی جذب کر کے اب گرمی خارج کرنا شروع ہوگئے تھے، لہذہ کمپاؤنڈ میں دریاں بچھا کر بڑے کھانے کا انتظام کیا گیا، جس کے ساتھ ایک بڑی ایل ای ڈی فلیش لائیٹ لگا کر بظاہر روشنی کی گئی تھی مگر اس کے نتیجے میں باقی سارا جہان گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا ، اور ارد گرد کی خلق خدا نابینا ، نابینا سا محسوس کرنے لگی۔

Sunday, October 16, 2016

تاک بندر، اورمارہ ایڈونچر

تاک بندر کیمپ سائیٹ

سالانہ فیملی ٹرپ کئی ماہ سے لڑھکتا آگے کھسکتا جارہا تھا، عید پر بننے والا پروگرام ٹلتے ٹلتے بقر عید پر پہنچا۔ بقر عید پر گورکھ ہلز یا تھر پارکر جانے کا سوچا لیکن موسم چیک کرنے پر پتا چلا کہ درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر رہے گا، بچوں کے ساتھ اتنی گرمی میں سفر نامناسب ہے ۔ پھر کنڈ ملیر ہی دھیان میں آتا ہے ۔ لیکن کنڈ ملیر اتنی بار جاچکے ہیں کہ اب دل کرتا ہے کہ کوئی نئی جگہ ایکسپلور کی جائے۔

Friday, October 7, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہفتم)

لنگ آجا پتن چناں دا یار


مولہ چٹوک کی سیال چاندی
فوٹوکریڈٹ: آلموسٹ فوٹوگرافی - ماجد حسین
مولہ آبشار کی سمت سے پانی آنے کا بس یہی ایک راستہ تھا۔ سارے پانی ہمارے سامنے سے ہماری طرف آتے تھے۔ جہاں جیپ نے آگے بڑھنے سے انکار کیا تھا وہاں ایک تنگ درہ ہے جس سے راستہ اندر جاتا ہے یعنی پانی جس راستے سے باہر آتا ہے، دونوں جانب اونچے پہاڑ ہیں۔ اگر پیچھے کہیں دو چار روز پہلے بارش ہوئی ہو تو اچانک فلیش فلڈ آنے کی صورت میں لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ لیکن لاعلمی بڑی نعمت ہے، اسی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہم کبھی پانیوں پر اور کبھی پانیوں میں اٹھکیلیاں کرتے چل رہے تھے۔ پانی اپنی فطری زگ زیگ روش پر رواں دواں تھا ہم کبھی پانی کراس کر کے دائیں ہوجاتے، کبھی بائیں، اور کبھی درمیان میں پانی میں چھپا چھپ کرتے ایک دوسرے پر چھینٹے اڑاتے۔ کبھی ہمارے ٹیبلٹ سے نورجہاں تانیں اڑاتیں اور کبھی ہمسفر اپنی آواز کا جادو جگاتے جس میں ہم دونوں اپنی بھونڈی آواز ملانے کی کوشش کرتے اور پھر اپنی ہی آواز سے گھبرا کر چپ ہوجاتے۔ یا ہنس پڑتے۔ ہماری جیپ خراب نہیں ہوئی تھی بلکہ ہماری جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔