Wednesday, April 4, 2018

تھرپارکر سفاری

تھرپارکر کی مخصوص جھوپنڑی
ایک زمانے میں تھر پارکر ہمارا خواب تھا اور خواب کی طرح ہی کسی دودراز خوابناک سے مقام پر آباد تھا، ریت کے بگولوں کےپار ، پہنچ کی سرحدوں سے باہر۔ افواہیں تھیں کہ سڑکیں بہت خراب ہیں صرف فور بائی فور جاسکتی ہے۔ عام گاڑی نہیں جاسکتی۔ صحرہ ہے، سانپ اور دیگر جانور ہوتے ہیں۔ دیکھنے کا کچھ نہیں وہاں، ریت ہی ریت ہے لیکن ہمیں اتنا تو پتا تھا کہ وہاں پرانے مندر ہوتے ہیں، عمرکوٹ کا قلعہ ہوتا ہے جہاں عمر سومرو نے ماروی کو قید کر رکھا تھا اور عمر کوٹ میں ہی کہیں اکبر اعظم کی جائے پیدائش ہے اور سب سے بڑی بات کہ وہاں صحرہ ہے۔ ہمارے لیے  اصل کشش اور دیکھنے کی چیز تو صحرہ ہی تھا، "دین ایمان، سمندر، دریا، صحرہ، کوہستان" میں سے صحرہ نوردی ہی باقی رہ گئی تھی۔ لیکن صحرہ  پہنچ سے دور تھا۔ 

پھر آیا سوشل میڈیا انقلاب اور اپنے ساتھ لایا قومی سیاحت کا طوفان جو دیکھتے ہی دیکھتے شمال سے جنوب کی طرف بہہ نکلا۔ ساتھ میں ڈیسیلآری ہواؤں کے بگولے بھی آن ملے۔ اور نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملیں۔ اب جنوبیوں کا روز روز شمال جانا تو ممکن نہیں اور سردیوں میں شمال ویسے بھی ناقابل دست اندازیءِ آوارا گرداں ہوتا ہے۔ 

لہذہ  سیاحوں کا یہ سیل رواں جنوبی سرحدوں پہ چڑھ دوڑا۔ جس کا جدھر منہ اٹھا چل پڑا۔  کیونکہ سوشل میڈیا پر شو مارنے کا ایک الگ ہی سواد ہے تو شو مارنے کے لیے جدت لازمی ہے۔ کچھ نیا اور سب سے ہٹ کے کرنا اور اس کی تصویری نمائش۔ سو کچھ سیاح اور ٹوور آپریٹرز نئی فوٹوجینک جگہوں کی تلاش میں صحرہ جا پہنچے۔ تھر کے مور، صحرہ کی تاروں بھری راتیں اور سیاحوں کو ٹوپی کرانے کی تصویروں سے سوشل میڈیا سجنے لگا۔

اب ہمارا دل تھر پارکر کے لیے مزید ہمکنے لگا۔ لیکن ایک تو ہمیں کمرشل ٹورز مہنگے لگتے ہیں۔ دوسرے ہمیں یقین نہیں تھا کہ اپنے طور پر ہم خود تھرپارکر جاسکتے ہیں۔ ہمارے ایک  "مرحوم" دوست بھی تھرپارکر جانے کے موڈ میں تھے۔ ان سے طے ہوا کہ مل کر چلیں گے۔ بس ایک گرل فرینڈ کا انتظام ہوجائے (ہمارے لیے بھئی)۔ لیکن نہ تین من تیل ملا نہ رادھا ناچی۔ اور کیوں نہ ناچی  یہ ہمیں ان کے "فوت" ہونے کے بعد اندازہ ہوا۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمارے تھر پارکر کے پروگرام پر ہی واز دی  اصل نحوست والا ایلیمنٹ۔ کیونکہ ان کے بعد ہم دو بار تھرپارکر ہوآئے ہیں۔

 پہلی بار دی قراقرم کلب کی شریک منتظم کی بدولت ہم نیو ائیر  پر تھرپارکر کا ایک یادگار ٹرپ کر آئے۔  پچھلے سال بارش کے سیزن کے بعد تھرپارکر کی سڑکوں پر سیاحوں کے رش نے ٹریفک جام کردیا۔ اخباروں میں تھرپارکر کی سرسبز  تصویروں نے ہمیں بہکایا، دریائے کارونجھر کی لہروں نے ہمارے کانوں میں جھانجریں بجائیں۔ ہم نے اپنے دفتری نائب کو تصدیقی مشن پر روانہ کیا، ورنہ وہ ایک ٹیپیکل شہری مقیم بندہ ہے۔ لیکن ہم نے اسے بہکا ہی دیا۔ اس نے واپس آکر تصدیق کی کہ یہ ساری خبریں درست ہیں اور سڑکیں تو ایسی ہیں جیسے آپ کسی دودھ کی نہر میں کشتی چلارہے ہوں۔ ان کی صداقت کی تصدیق ندا کے ساتھ ٹرپ پر ہوگئی تھی۔

اب ہمیں اپنی فیملی کو تھرپارکردکھانا تھا۔ سو 23 مارچ کے لانگ ویک اینڈ کو موقع غنیمت جانتے ہوئے ہم چل پڑے۔ جمعہ کی صبح چھ بجے گھر سے نکلے اور اتوار کی صبح پانچ بجے اپنے گھر۔ صرف 2000 روپے پر ہیڈ میں۔ ناٹ بیڈ۔ اگر آپ نے بھی اپنے طور پر  تھرپارکر کا سستا ٹور کرنا ہے تو تفصیل حاضر ہے۔

ذاتی تھرپارکر پروگرام پلان : دورانیہ: دو سے تین دن

ڈے ون:
  • پہلے دن صبح چار بجے اسٹارٹ لیں تو راستے میں ناشتہ اور لنچ کے وقفوں کے ساتھ شام تین بجے تک آپ ننگرپارکر میں ہونگے۔ یہ آپ کی  گاڑی اور ڈرائیونگ اسکلز پربھی منحصر ہے۔ سڑکیں بہترین ہیں بدین میں شاہرہ کا کچھ حصہ زیر تعمیر ہے وہ بھی جلد بن جائے گی۔
  • ننگر پارکر  میں صرف دو ریسٹ ہاؤس ہیں۔ اس لیے ایڈوانس بکنگ کروا کر جائیں۔ اگر آپ جگاڑ کرسکتے ہیں تو 1500 روپے فی کمرہ میں سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ڈبل بیڈ کمرہ مل سکتا ہے لیکن یہ چانس پر ہے۔ اس کی بکنگ مٹھی میں ڈی سی آفس سے ہوتی ہے۔ اضافی میٹرس، تکیہ اور کمبل مل جاتا ہے۔ 
  •  دوسرا پی ٹی ڈی سی کا روپلو کوہلی ریسٹ ہاؤس ہے۔ کافی خوبصورت اور 5 اسٹار ہے اور اس کا کرایہ بھی 5000 فی ڈبل روم ہے۔ اضافی میٹریس دینے سے صاف انکار کردیتے ہیں اور اگر وہاں نہ ٹھہریں صرف ڈنر کے لیے جائیں تو بریانی میں مرچیں بھی تیز کردیتے ہیں۔ 
  • تیسرا آپشن یہ ہے کہ اپنا سفری ٹینٹ ساتھ لے کر جائیں اور جہاں جگہ اور اجازت مل جائے لگا لیں۔ اجازت اس لیے کہ ننگر پارکر سرحدی قصبہ ہے اور رینجرز کی عملداری میں ہے۔  شمال میں زیرو درجہ حرارت میں لگا سکتے ہیں تو یہاں بھی لگالیں۔ سفری مچھر دانی ضرور ساتھ رکھیں مچھروں کے علاوہ غیر ضروری حشرات کو بھی سرحدوں سے باہر رکھے گی۔ 
  • تین بجے سے لے کر اندھیرا ہونے تک آپ پاک انڈیا سرحد یعنی چوڑیو/چھوریو معہ ماں مندر جو ہنگول میں واقع نانی ہنگلاج مندر کے بعد ہندوؤں کا سب سے اہم اور مقدس مندر ہے، کاسبو کا مندر اور کارونجھر پہاڑیوں کے اندر شیو کا مندر میں سے ایک یا دو پوائنٹ دیکھ سکتے ہیں۔
  • شیو کا مندر دیکھ کر مایوسی ہوگی کیونکہ ایک انتہائی چھوٹا اور ناقابل ذکر سا مندر ہے جس کےساتھ ایک کائی زدہ پانی  کا تالاب ہے اور بس ۔ لیکن اس کا راستہ دیکھنے کا ہے۔ کارونجھر کی پہاڑیوں میں اندر لہراتا، بل کھاتا ہوا۔ اصل دیکھنے کی چیز کارونجھر کی پہاڑیاں اور ان کی حیرت انگیز ساخت ہے۔ کہیں کسی اہرام کا گمان ہوتا ہے تو کہیں انسانی چہرے کا اور کہیں کہیں لگتا ہےکہ جیسے قدرت نے جین مندر تراشا ہو۔ 
  • پاک انڈیا سرحد پر انڈیا نے پوری سرحد پر نیٹ لگایا ہے، اس کے ساتھ ایک ہائی وے تعمیر کی ہے اور اسے شمسی قمقموں سے سجایا ہے جو مقامی لوگوں کے بقول رات میں بہت خوبصورت لگتی ہیں۔ اور شام میں غروب آفتاب کا منظر بھی سنا ہے خوبصورت ہوتا ہے۔ یقیناً ہوگا کیونکہ سرحد پر ایک نمکین نیلی جھیل ہے جو زیادہ تر انڈین سرحدوں میں ہے لیکن اس کا کچھ حصہ پاکستان کے اندر تک سرائیت کئے ہوئے ہے۔اور غروب آفتاب اور سرحدی روشنیاں  جھیل کے ساتھ مل کر منظر تخلیق کرتی ہونگی۔  ہمیں ابھی تک رات میں سرحد دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا کیونکہ ہم لیٹ پہنچے تھے۔ اور سہ بارہ جانے کے لیے بھی تو کوئی بہانہ ہونا چاہئیے۔ 
  • مقامی افراد کے مطابق کارونجھر ہلز میں ایک ویو پوائنٹ ہے جہاں تک ہائکنگ کی جاسکتی ہے اور شاید گاڑی بھی جاسکتی ہے۔ وہاں سے بھی انڈیا کافی دور تک نظر آتا ہے۔ اور سرحدی قمقموں کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہم لیٹ پہنچنے کے باعث نہ جاسکے۔ ریسٹ ہاؤس کے کئیر ٹیکر اور رینجرز کے جوانوں نے مل کر ہمیں ٹال دیا۔ ویسے سرحدی روشنیاں رات میں سرکاری ریسٹ ہاؤس کی چھت سے بھی نظر آتی ہیں۔
  • ہمارا مشورہ یہ ہوگا کہ ویو پوائنٹ یا چھوریو میں سے ایک شام کو کور کرلیں اور باقی مندر اگلے دن کے لیے اٹھا رکھیں۔
  • چھوریو کے لیے آپ کو فور بائی فور جیب کے علاوہ مقامی گائیڈ بھی چاہیے ہوگا۔ بہتر ہے 2500-3000 تک میں مقامی جیپ کرائے پر لے لیں۔ 
ننگر پارکر چھوٹا قصبہ ہے صرف جھونپڑی ہوٹل ہیں جو رات کو اندھیرا ہونے کے بعد بند ہوجاتےہیں اس لیے رات کے کھانے کا انتظام خود کر کے جائیں یا مٹھی سے پارسل کروالیں۔ صرف روپلو کوہلی ریسٹ ہاؤس میں کھانا پکانے کا انتظام ہے لیکن وہ بھی اگر آپ نےایڈوانس آرڈر دیا ہو، عین وقت پر آرڈر پورا کرنے کے لیے بازار اور دکانیں بند ہوں تو کھانا نہیں ملتا۔ 
نوٹ: اگر آپ کے ساتھ بچے ہیں تو پینے کا پانی کافی مقدار میں اپنے ساتھ لے کر جائیں۔ مچھر مار اسپرے اور مچھروں کو دور بھگانے کا لوشن ساتھ رکھیں۔ پٹرول ہر جگہ سے مل جاتا ہے۔ 

پاک انڈیا بارڈر: چھوریو/چوڑیو، ننگر پارکر
فوٹو کریڈٹ رخسانہ مظہر

Pak-India Illuminated Boder ریسٹ ہاؤس کی چھت سے 

عجیب و غریب ساخت پر مشتمل کارونجھر ہلز 

پی ٹی ڈی سی: روپلو کوہلی ریسٹ ہاوس
فوٹو کریڈٹ : ندا عزیز

ڈے ٹو:
  • اگلے دن صبح سویرے اٹھیں۔ سامان سمیٹیں، بازار میں کسی ہوٹل پر ناشتہ کریں پھر اوپر درج شدہ مقامات میں سے بچے بقیہ مقامات کی طرف رخ کریں۔ 
  • ننگر پارکر سے واپس مٹھی کی طرف چلیں تو پہلے دائیں ہاتھ پر ننگر پارکر میوزیم ہے۔ جو ہم نے تیسرے چکر کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
  • پھر چند سو گز پر بائیں طرف بوڈیسر ڈیم، مسجد اور ننگر پارکر کے مشہور جین مندروں کے لیے موڑ ہے۔ یہاں تین جین مندر ہیں جن میں سے سب سے بڑے مندر کی حالت تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے۔ جبکہ بقیہ دو مندروں کی حالت بھی خاصی ناگفتنی ہے لیکن ان پر کچھ نہ کچھ مرمت کا کام جاری ہے۔
  • بوڈیسر ڈیم پر اگر آپ شام یا سویرے پہنچیں تو خاصی وائلڈ لائف کا نظارہ ممکن ہے۔ بارشوں کے بعد پانی بھی دیکھنے کو مل جائے گا۔ بوڈیسر ڈیم جیسے کئی ڈیم تھرپارکر میں بارانی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں جن کے ساتھ ایک پارک بھی بنا ہوا ہے۔ جس کی حالت لاپرواہی و نظر اندازی کے باوجود بھی بہت خراب نہیں ہے۔ بوڈیسر ڈیم بقیہ  ڈیموں کی نسبت مندر و مسجد کی وجہہ سے کافی مشہور ہوگیا ہے ۔ 
  • ان کے بعد آگے چلیں تو سیدھے ہاتھ پر ماروی کے کنویں کا بورڈ ہے۔ موڑ سے ایک کلومیٹر اندر چار دیواری میں ایک چھوٹا سا میوزیم، ایک کنواں اور ایک چھوٹا سا اوپن ائیر تھئیٹر ہے۔ یہاں کی خاص بات میوزیم کی عمارت ہے جس کی چھت تھر کی مخصوص جھونپڑیوں کی شکل کی ہے لیکن ان پر مختلف بیلیں اور پودے اس طرح چڑھے ہوئے ہیں کہ وہ سبز جھونپڑوں کی صورت نظر آتی ہیں۔ ایک ایسی ہی سبز جھونپڑی ماروی کے کنویں کے پاس ہے جس کی چھاؤں میں دو فنکار مقامی موسیقی سے سیاحوں کا دل خوش کرتے ہیں۔ 
  • ماروی کا کنواں دیکھ کر مزید مٹھی کی طرف چلیں تو دائیں جانب ہی گوری کے مندر کا بورڈ نظر آئے گا۔ گوری کا مندر اب تقریباً متروک ہوچکا ہے اس کا بیرونی اسٹرکچر خوبصورت ہے لیکن اندر اندھیرا ہے اور لاتعداد چمگادڑیں اندر بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ جو کیمرے کی لائٹ سے ڈسٹرب ہو کر احتجاج کرتی ہیں۔ 

مسجد 
گوری مندر: چھت

گوری کا مندر

گوری کا مندر

جین مندر: بوڈیسر

جین مندر بوڈیسر سامنے سے 

بوڈیسر ڈیم پارک کے قریب تھر پارکر اسپیشل بریڈ خوبصورت سینگوں والے مویشی

بوڈیسر ڈیم: وائلڈ لائف
ماروی کا کنواں کمپلیکس: کنواں، میوزیم اور گرین ہاؤس میں فنکار

آرام سے شام تک مٹھی پہنچیں۔ مٹھی میں کئی ریسٹ ہاؤسز ہیں جن میں رات گزاری جاسکتی ہے۔ کرایہ بھی مناسب ہے۔ یہاں بھی رات کا کھانا یا تو بازار میں اکلوتےہوٹل سے کھا لیں یا پھر شام کو ہی ریسٹ ہاؤس کے نگران کو آرڈر کردیں ورنہ بازار بند ہونے کے بعد وہ  آپ کو چائے بھی بنا کر نہیں دےسکے گا۔

مٹھی شہر فرام گاڈی بھٹ۔ فوٹو کریڈٹ: عدیل پرویز

  • مٹھی میں ہماری معلومات کے مطابق ایک ہی قابل دید مقام ہے گاڈی بھٹ۔ یہ ایک ٹیلا ہے جس پر ایک ویو پوائنٹ بنایا گیا ہے۔ ایک ریسٹ ہاوس بھی بنا ہے اور شام میں چائے اور چپس کی دکانیں بھی کھلی ہوتی ہیں۔ یہاں سے ٹھنڈی ہوا میں پورے مٹھی شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے پورے مٹھی شہر کی روشنیاں جھلملاتی ہوئی نظرآتی ہیں۔
گاڈی بھٹ ویو پوائنٹ
ہمارا مشورہ یہ ہے کہ گاڈی بھٹ پر ٹینٹ لگا کر رات بتائی جائے، یہ آپ کی زندگی کی یاد گار راتوں میں سے ایک رات ہوگی۔  یہاں سوائے واش روم  کی عدم دستیابی کے اور کوئی مسئلہ نہیں۔ مردوں کا تو یہ بھی مسئلہ نہیں،  خواتین کا مسئلہ صبح سویرے ٹینٹ سمیٹ کر کسی بھی نزدیکی پٹرول پمپ پر آسان کیا جاسکتا ہے۔ 

ڈے تھری:

آپ صبح مٹھی سے کراچی کے لیے خراماں خراماں بھی نکل سکتے ہیں اور آرام سے شام کو کراچی پہنچ سکتے ہیں۔ یا اس دن میں عمر کوٹ یا نوکوٹ میں سے ایک قلعہ دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں مٹھی کے دائیں بائیں دو مخالف سمتوں میں واقع ہیں۔ ہم نے تو مٹھی میں رات بسر کرنے پر رات بھر سفر کرنے کو ترجیح دی اور صبح سویرے گھر پہنچ کر سوگئے۔ اور عمرکوٹ اور نوکوٹ ایک الگ لانگ ویک اینڈ کے لیے وقف کردئیے۔ 

تھر پار  کے مور

وارننگ: اگر آپ تھر پارکر میں کالا ہاری، صحارہ، صحرائے گوبی یا تکلا مکان دیکھنے کی آرزو میں جاتے ہیں تو آپ کو سخت مایوسی ہونے والی ہے۔ کیونکہ تھرپاکر دنیا کا اکلوتا ذرخیز صحرہ ہے۔ اس کے لیے آپ کو اچھروتھر جانا پڑے گا۔ ہم بھی اب اچھرو تھر یا وائیٹ ڈیزرٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ 

🐪🐃🐄🐇🐐🐍🐎🐫

جنوبی پاکستان کو جانیں:

استولہ آئی لینڈ، مولہ چٹوک، شہر غاراں، تاک بندر