Thursday, November 9, 2017

سیکس اینڈ دی سٹی: مووی ری ویو


کیا کہا بہت فحش مووی ہے۔

رئیلی..!!

قسم کھاتے ہیں کہ ٹائٹینک نہیں دیکھی، دی ریڈر نہیں دیکھی، جیمز بانڈ سیریز کی ایک بھی مووی نہیں دیکھی۔

دیکھی ہے ناں 

منٹو کو پڑھ پڑھ کے تو بہت شوئیاں مارتے ہیں آپ لوگ ۔۔ 

کیا کہا ۔ ۔ 

منٹو تو زندگی کی حقیقتیں لکھتا تھا۔

اجی یہ مووی بھی زندگی کی حقیقت ہی ہے۔ اس نظر سے دیکھی ہو توناں۔  عموماً تو چسکے لینے کے لیے ہی دیکھی جاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو ہم نے بھی اسی لیے دیکھی تھی۔ 

انجان ملک، انجان زبان، انجان راستے ، اسٹوڈنٹ لائف اور ہانٹد ہوسٹل۔ زندگی ایک محدود دائرے میں گھوم گھوم کے تھک چکی تھی۔ ایک لیپ ٹاپ ہی تھا جو ترقی کرکے شریک حیات کے مقام پہ فائز ہوچکا تھا۔ تفریح کے ذرائع گنتی کرنے بیٹھو تو ایک ہاتھ کی انگلیاں پوری ہونے بھی پہلے ختم ہوجاتے تھے۔ جن میں سے ایک انسٹی ٹیوٹ میں چوری چوری مووی ڈاؤنلوڈ کرنا اور دیکھنا تھا۔ کمپیوٹر لیب کا انچارج بھی ایسا کھڑوس کہ روز ڈاونلوڈر ڈیلیٹ کردیتا اور بار بار جھانک کے دیکھتا کہ اسکرین پر کیا چل رہا ہے۔ 

پر جب بندہ بے ایمانی کرنے پر آجائے تو اللہ میاں کی نہیں سنتا،  لیب انچارج کیا چیزہے۔ بیک وقت پانچ سے چھ کمپیوٹرز پر موویز ڈاونلوڈ ہوتیں۔ شام کو سارے کاموں سے فارغ ہوکر رات گئے تک کسی ایک روم میں اندھیرا کرکے اکھٹے بیٹھ کر مووی  دیکھی جاتی۔ کارٹون موویز سے لے کر رومینٹک، ایڈوینچر، کامیڈی اور ہارر موویز تک کچھ نہیں چھوڑا۔ رات گئے تک ہاسٹل قہقہوں یا چیخوں سے گونجتا رہتا، چیخوں سے زیادہ کیونکہ زیادہ تر ہارر موویز ہی ہوتی تھیں۔

 منہ کا ذائقہ بدلنے اور چسکے لینے کو "اور طرح" کی موویز بھی کبھی کبھار دیکھ لی جاتیں یا کوئی مووی چسکے دار نکل آتی، پھر مل کر ہا ہائے بھی کی جاتی۔ ہا کو ذرا کھینچ کر پڑھیں ایک آنکھ دبا کر۔ سیکس اینڈ دی سٹی سیریز کی دونوں موویز بھی اسی دوران دیکھیں تھیں اور ہنس ہنس کر اور ہائے ہائے کر کے پاگل ہوگئی تھیں ہم  ساریاں۔ 

لیکن اب جب بھی کبھی اس دور کو دہرانے بیٹھتی ہوں اور خیال آوارہ گردیاں کرتے موویز اور موویز سے ہوتے سیکس اینڈ دی سٹی تک پہنچتا ہے تو اور کچھ یاد نہیں آتا۔ یاد آتا ہے تو بس یہ کہ دوست خاندان کے بعد دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ اور خاندان کی غیر موجودگی میں آپ کا خاندان۔

 مووی تو آپ نے خود بھی دیکھ رکھی ہوگی اور نہیں تو اس بلاگ کو پڑھنے کے بعد لازمی دیکھیں گے۔ لیکن اپنی ذمہ داری پر دیکھئے گا۔ لڑکیاں الگ اور لڑکے الگ۔ کچے بچے آنکھیں بند کرکے دیکھیں ، تھوڑے بڑے ایک آنکھ بند کرکے دیکھیں۔ اور بڑے کم از کم اپنے بچوں کے ساتھ نہ دیکھیں ورنہ ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا۔

اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو یا تو معلوم ہی ہوگا یا جلد معلوم ہونے والا ہے کہ مووی چار سہیلیوں کے ایک گروپ کے گرد گھومتی ہے جو ساری کی ساری ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں مختلف شوق بلکہ خبط رکھتی ہیں لیکن پھر بھی دوستی ہے کہ چلتی جاتی ہے۔  مووی کی کہانی سنانے کا ہمارا ہرگز بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اس مووی سے جو سبق ہم نے اخذ کیے ہیں وہ ہم آپ سے ضرور شئیر کریں گے۔ عام لوگوں کو شاید یہ مووی ایک فحش مووی ہی نظر آئے گی۔ لیکن ہمیں اس میں کچھ اور ہی نظر آیا جیسے کہ : 

ڈائیورسٹی/ تنوع ہی زندگی کا اصل مزہ ہے۔ آپ مختلف خیال اور شخصیات ہوتے ہوئے بھی دوست ہوسکتے ہیں ان چار بالکل مختلف المزاج سہیلیوں کی طرح۔ دوستی میں دوستوں  کے لیے معمولی اختلافات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جن کے ساتھ رہنا ہو، جن کا ساتھ دینا ہو ان کےلیے سمجھوتے کیے جاسکتے ہیں۔ زندگی کی طرح دوستی بھی کوئی فیری ٹیل نہیں ہے۔ نشیب و فراز اس کا بھی لازمی جز ہیں۔ 

دوست ہی ہیں جن کے ساتھ آپ مل کر ہنستے، روتے، گاتے ہیں۔ جو آپ کے کمزور لمحوں میں آپ کا حوصلہ بنتے ہیں، آپ کی بے وقوفیاں سنبھالتے ہیں، خوشی میں آپ سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ دوست اور ہوتے کس لیے ہیں، اسی لیے تو ہوتے ہیں۔

غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے دوستوں سے بھی، شریک حیات سے بھی۔ سنگین غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ سب انسان ہیں اور کمزور لمحات کسی پر کبھی بھی آسکتے ہیں۔ لیکن اس سے رشتے اور دوستیاں ختم نہیں ہوجاتیں۔ اس ایک ایشو کے علاوہ ہزار اور لمحات ہونگے جو آپنے ساتھ بتائے ہونگے، شئیر کئیے ہونگے اور وہ اس ایک غلطی یا اختلاف سے ماورا ہونگے۔ 

اگرغلطی ہوہی گئی ہے تو معافی مانگ لیں۔ سدھارنے کی کوشش کریں اور کوئی معافی مانگے تو معاف کرنے کا حوصلہ رکھیں۔ 

ہر شخص کو کبھی نہ کبھی اپنے لیے وقت چاہیے ہوتا ہے خواہ وہ دوست ہو یا آپ کا شریک حیات۔ اپنے پیارے لوگوں کو اسپیس دیجیے۔ اور خود بھی انجوائے کیجیے۔

اور فیری ٹیل والا  شادی کا فنکشن آپ کی خوشیوں کا ضامن نہیں ہے، لیکن ایک دوسرے کے احساس کا خیال رکھنا ضرور باہمی خوشی کا ضامن ہے۔
💜💛💚💗

یہ مضمون دلیل ڈاٹ کام پر "دف مار" کر 7 نومبر 2017 کو شایع ہوچکا ہے۔

نیوز چینلز پر تبصرہ 

معاشرتی منافقت