Tuesday, May 20, 2014

نیوز چینلز

گزشتہ دھائی کے دوران پاکستان کی سرحدوں کے اندر اور باہر پاکستانی نژاد الیکٹرونک میڈیا نےدن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے۔ سو کے لگ بھگ نئے ٹی وی چینل کھل گئے ہیں جو اردو اور علاقائی زبانوں میں ہفتے کے ساتوں دن، دن کے چوبیس گھنٹے عوام کو تفریح ، خبریں اور تجز یئےفراہم کر رہے ہیں۔اس وقت تمام پاکستانی نیوز چینلز ریٹنگ کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں لگے ہیں۔

نیوز چینلز کا سب سے مقبول آئٹم بریکنگ نیوز ہے۔ آجکل ہر خبر بریکنگ نیوز ہوتی ہے۔ چینل پہ چینل بدلتے جائیں لیکن اسکرین پر سرخ رنگ میں بریکنگ نیوز اس تسلسل سے نظرآتی رہیں گی کہ لگتا ہے ٹی وی اسکرین بھی بریک ہوجائے گی۔ بھلا کوئی پوچھے کہ ایک شخص جس کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے, وہ عدالت میں پیش ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اور اسکی پچھلی غیر حاضریوں کی مثال کو سامنے رکھتےہوئے غالب امکان یہی ہے کہ وکیل آگے کی تاریخ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب بھلا اس سارے قصے میں کیا نیا پن ہے جو بریک ہونے سے رہ گیا ہے۔

پھر بریکنگ نیوز کی نوعیت ملاحظہ کریں: 

" ناظرین اب وہ اپنے بستر سے اٹھ گئے ہیں۔"

" ناظرین اب وہ اپنے گھر سے نکل رہے ہیں۔"

"ناظرین اب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔"

پتہ نہیں یہ بریکنگ نیوز والے یہ کیوں صرف ِنظر کر دیتے ہیں کہ بستر سے اٹھنے کے بعد باتھ روم بھی گئے ہونگے، اور وہاں بھی "کچھ نہ کچھ" تو کیا ہی ہوگا۔ بریکنگ نیوز دیتے ہوئے یہ چینل بالکل دو روپے والے شام کے اخبارات کی طرح لگتے ہیں جو مرچ مسالے والی خبریں لگا کر اپنی سرکولیشن بڑھانے کے کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی سرکولیشن تو بڑھ جاتی ہے لیکن پڑھنے والوں میں انکی قدر دو ٹکے کی ہی رہتی ہے۔

سونے پر سہاگہ نیوز ریڈر کا لہجہ اور انداز ہوتا ہے بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ صاحب یا صاحبہ ٹی وی اسکرین توڑ کر باہر نکل آئیں گے اور آپکا کاندھا ہلا کر آپ کو زبردستی بریکنگ نیوز دیں گے۔ کاش کوئی ان کو سمجھائے کہ خبر کے اجزاء کے ساتھ ساتھ خبر پڑھنے کا انداز بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ گزرے زمانے میں پی ٹی وی کے خبرنامہ کے اجزاء پر آپ کتنا بھی اعتراض کر لیجئے لیکن پی ٹی وی کے نیوز کاسٹرز کی شائستگی پر دو رائے نہیں ہوسکتیں۔
خدا نخواستہ ریپ یا زیادتی کے کیس میں متاثرہ مظلوم کا چہرہ تو نہیں دکھایا جاتا لیکن اسکے گھروالوں اور محلے داروں کے تفصیلی انٹرویو نشر کیے جاتے ہیں، گویا والدین، بہن بھائی اور محلے دار اس مظلوم کی شناخت اور پہچان نہیں ہوتے۔ ایک مشہور چینل کے مارننگ شو کی میزبان خاتون تو منہ اندھیرے جاگنگ کرنے والوں سے نکاح نامہ طلب کرنے اور انہیں سماجی اقدار کا سبق پڑھانے پر سوشل میڈیا کے دباو کے باعث بر طرف بھی کی گئی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کل پاکستان میں عوام کی چادر اور چار دیواری کو اتنا خطرہ پولیس سے نہیں جتنا میڈیا کے نمائندوں سے ہے۔

کرائم انویسٹی گیشن پروگرام نیوز چینلز پر بہت مقبول صنف ہے۔ تقریباً ہر چینل پر ہفتے میں ایک پروگرام مختلف قسم کے جرائم کی داستانوں پر پیش کیا جاتا ہے۔ کہ کس طرح مجرم اغوا، ڈکیتی، راہزنی کی وارداتیں پلان کرتے ہیں، پھر ان پر عمل درامد کرتے ہیں اور کن خامیوں کی بنا پر پکڑے جاتے ہیں۔ یہ پروگرام ایک جانب تو عوام کو ہوشیار کرتے ہیں۔ کہ وہ کس قسم کی وارداتوں کا شکار ہو سکتے ہیں دوسری جانب نونہالانِ مجرمان کو آگاہی دیتے ہیں کہ وہ آئندہ خامیوں سے پاک وارداتیں پلان کر سکیں اور کوئی قابل ضبطی ءِ پولس نشانی نہ چھوڑیں۔ البتہ یہ پولیس کے لیے خاص سود مند ثابت نہیں ہوتے کیوں کہ یہ کسی بھی واردات کے بارے میں پولیس کے فراہم کردہ ورژن پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔ مجرم اتنے بے وقوف نہیں کہ اپنا ورژن فراہم کر کے پولیس کو آسانیاں فراہم کریں۔ ویسے بھی پولیس کا ہے فرض مدد آپکی۔

اب اک نظر سیاسی تجزیوں پر مبنی پرائم ٹائم ریسلنگ کے مقابلوں کی طرف۔ اگر چینل کسی بڑے نیوز گروپ کا ہے تو مرد میزبان ہوگا اگر اس کے برعکس کوئی نیا ابھرتا ہو چینل ہو تو ایک خاتون میزبان جو چیخنے دھاڑنے اور بدتمیزیوں میں مردوں کو بھی پچھاڑ سکتی ہونگی۔ پروگرام میں چار متحارب سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں [جن کا آپس میں بیر ہونا اضافی خصوصیت ہے جو پروگرام کو چار چاند لگا دیتی ہے۔] دو صحافی حضرات ہمہ وقت آن لائن رہتے ہیں اور ایک کے بعد دوسرے چینل کے پروگرامز میں اپنے ماہرانہ تجزیات سے عوام الناس کی آنکھیں کھول رہے ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں میں میزبان کا کام ایک چنگاری چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا ہوتا ہے، ہاں اگر آگ سرد پڑنے لگے تو اس پر وقتاً فوقتاً تیل چھڑکتے رہنا ہوتا ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی ،میزبان جو ثابت کرنا چاہ رہا ہے، اس سے ہٹ کر پوائنٹ اسکور کرنا چاہے تو اسے 'راہ راست' پر لانا بھی اینکر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

ان پروگراموں کے کوئی اصول ضوابط نہیں ہوتے سوائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے۔ یعنی آپ اتنی بلند آواز سے اپنی بات کہہ سکیں کہ وہ دوسروں سے نمایاں ہو کر ریکارڈنگ میں صرف آپ کی آواز سنائی دے۔ بلند آواز کے علاوہ حسب توفیق گالی گلوچ اور طعن و تشنیع سے بھی کام لیا جاتا ہے۔

ہر نیوز چینل کا ایک لازمہ یا لازمی پروگرام ایک عدد بھانڈ پروگرام مطلب مزاحیہ نوعیت کا شو ہوتا ہے۔ جس میں کم از کم آدھے درجن بھانڈ شامل ہوتے ہیں۔ ان بھانڈوں کا کام پروگرام میں کی جانے والی ہر معقول بات اور بندے کا مذاق اڑانا اور جگتیں کرنا ہوتا ہے۔ ہاں پروگرام کے آخر میں کسی تازہ ترین اور مقبول بھارتی گانے کی دھن پر بھدی پیروڈی بھی لازمی ہوتی ہے۔ نیوز چینل والے اس پروگرام کو تفریحِ طبع کے لئے پیش کرتے ہیں لیکن اگر اس کو دیکھ کر کسی کو ہنسی کے بجائے رونا آئے تو یہ اسکا اپنا ذوق ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں شرح خواندگی مطلوبہ معیار تک پہنچنے کی سعی لاحاصل میں تا حال کوشاں ہے، جہاں غربت اور بے روزگاری، ناانصافی ، کم علمی اور جہالت کے ساتھ مل کر عوام کو ایک مشتعل آتش فشاں میں تبدیل کر چکی ہیں۔ کیا ایسے معاشرے میں الیکٹرونک میڈیا کی ذمہ داری صرف خبریں اور اطلاعات عوام کو پہنچانا ہے یا وہی خبریں اور اطلاعات ذمہ داری اور شائستگی کے ساتھ پہنچانا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ نیوز چنیلز پر سب کچھ خراب ہے لیکن یہ مضمون صحافت یا میڈیا جرنلزم کے مروجہ اصول کے مطابق لکھا گیا ہے جس کے مطابق اگر کچھ اچھا ہو تو وہ خبر نہیں ہوتی، خبر ہمیشہ بری ہی ہوتی ہے۔

-----