مڈل کلاس شریف لڑکیوں کا المیہ یہ ہے کہ لڑکوں کی بہ نسبت یہ پڑھ لکھ جاتی ہیں۔کچھ تعداد ان میں سے جاب بھی کرلیتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں یہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے تھوڑا بلندہو جاتی ہیں۔ جس کے اپنے الگ سے نقصانات ہیں۔
ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ لڑکیوں کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہ بہت تیز ہوتی ہیں۔ لڑکے پٹا لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے, یہ اپنی مرضی کرتی ہیں, یہ گھر نہیں بسا سکتیں۔ یہ مفروضے کم پڑھی لکھی اور گھریلو خواتین کے جانبدارانہ خیالات پر مشتمل ہوتے ہیں, جو ہمارے معاشرے میں اکثریت میں ہیں, سو جمہوریت یہی ہے کہ اکثریت ہی صحیح کہتی ہے۔
اس چھاپ سے بچنے کے لئے اور ان طعنوں سے بچنے کے لئے مڈل کلاس شریف زادیاں خود کو خاک میں ملا لیتی ہیں۔ اپنے ہر رشتے کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتی ہیں۔ اتنا humble ہوجاتی ہیں کہ لوگ انکو for granted لینا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنوں ہی کے ہاتھوں استعمال ہو جاتی ہیں لیکن ہونٹوں سے آواز نہیں نکلنے دیتیں, کہ اگر اپنی تعلیم اور شعور کے باعث معمولی سی بھی آواز نکالی توفوراً یہ تیار شدہ لیبل اسکے ماتھے پرچسپاں کردیا جاتا ہے۔
اسی چھاپ سے بچنے کے لئے اگر دل کے آس پاس کوئی آہٹ ہو تو خود کوسمجھا لیتی ہیں کہ یہ محض ایک گمان ہی تھا۔ کیونکہ اس گمان کو حقیقت بنا تو لیں اور اس حقیقت کو پا نہ سکیں تو ساری عمر کا روگ, اورپانا یا حاصل کرنا شریف لڑکیاں افورڈ نہیں کرسکتیں۔
اور جو یہ قیمت بھی افورڈ کرجائیں تو سسرال میں یہ سننے سے بچنے کے لئے "جاب کرنے والی لڑکیاں کہاں گھر بسا سکتی ہیں" اپنے آپ کو مٹا ڈالتی ہیں, ہر ایک کی سنتی ہیں کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں, پھر بھی ایک دن یہ تمغہ حسن کار کردگی مل کر رہتاہے۔