Tuesday, November 27, 2012

Like it or Not




There is a magic option on Facebook. Previously it used to be a button with a Thumbs-Up symbol, later it was replaced with an option. Traditionally I used to like things that really impress me. Since I started using Fakebook … oh sorry I mean Facebook I discovered new meanings of the word. Usually when I see something that is really interesting or makes me laugh I ‘Liked’ it. Soon I was surprised to see when one of the friends updated his status ‘Caught Fever’ and 25 people ‘Liked’ it.

زندگی کے ایٹم


جس طرح ایٹم کا ایک نیوکلئیس ہوتا ہے اور تمام الیکٹران اس مرکز کے گرداپنے اپنے دائروں میں چکراتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح انسانی زندگی بھی ایک مرکز اور دائروں پر مشتمل ہے۔ ہم انسان بھی مرکز میں رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد دائرے بنا رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہی اس رونق دنیا کا مرکز ہے باقی ساری دنیا اس کے گرد گھوم رہی ہے

ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے



عرب گوشت کے شوقین ہوتے ہیں، کسی کھانے میں اگر گوشت شامل نہ ہو تو اسکو کھانے میں گنتے ہی نہیں، کھانا تو دور کی بات، دوسری نظر بھی نہیں ڈالتے۔ خاص کر سعودی عرب کے لوگ کھانے کی سب سے زیادہ بے حرمتی کرتے ہیں، ان کے ہاں بچا ہوا کھانا سنبھال کر رکھنے کا رواج نہیں ہے، ایک پلاسٹک شیٹ بچھا کر اس پر کھانا کھاتے ہیں کھاتے ہوئے اپنے علاوہ سب کے سامنے سے کھاتے ہیں، دسترخوان پر کھانا جی بھر کر گراتے ہیں، آخر میں جو کھانا بچ جائے اسی پلاسٹک کے دسترخوان پر الٹ کر سیدھا کچرے کے ڈبے میں۔

Sunday, November 25, 2012

تبصرہ: فلم ہیر رانجھا



گو کہ فلم ستر کی دہائی میں ریلیز ہوئی تھی، لیکن ہم نے تو اب دیکھی ہے، ہم تو ابھی تبصرہ کریں گے۔

کیونکہ ہیرو 'ویلا' تھا یعنی اسے بانسری بجانے اور مفت کی روٹیاں توڑنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ کرنا ککھہ نہیں اور ناک دو فٹ 'اچی'، لہٰذہ بھرجائی کا طعنہ دل پہ ٹھااا کر کے لگ گیا۔ ہیرو کے اپنے شہر ہزارہ میں 'خبصورت' لڑکیوں کی شدید کمی تھی۔ اور عشق فرمانے کے لئے 'ختون' کا خبصورت ہونا ایک بنیادی شرط تھی، کم از کم ڈائریکٹر کی۔ 

ڈنڈے کے زور پر عقیدوں کی درستگی

آجکل عقیدوں کی درستگی پر بہت زور ہے، ہر شخص لٹھ لے کر دوسروں کے عقیدے درست کر وا رہا ہے۔ "اگر مسلمان ہو تو اس پوسٹ کو لائک کرو" ۔ 

میرا عقیدہ جو بھی ہو، وہ میرے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اگر میں درست ہوں تو مجھے کوئی ڈر نہیں، اگر تم درست ہو تو تمہیں فکر نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہم دونوں کو اللہ کے منصف ہونے پر یقین ہے نا، تو وہ سزا دے گا مجھے یا جزا ، یہ تمھارا concern نہیں ہونا چاہئے۔ 

جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا برائی کو ہاتھ سے روکو، نہیں تو زبان سے، ورنہ دل میں برا سمجھو، اور یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے، اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو کہا تھا کہ دین میں جبر نہیں ہے، اس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دو، اور جس پر تمہارا دل مطمعین ہو اسے اپنا لو۔ تو ہم صرف لوگوں کو صحیح اور غلط بتا سکتے ہیں سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں لیکن زبردستی اس پر چلا نہیں سکتے۔