گو کہ فلم ستر کی دہائی میں ریلیز ہوئی تھی، لیکن ہم نے تو اب دیکھی ہے، ہم تو ابھی تبصرہ کریں گے۔
کیونکہ ہیرو 'ویلا' تھا یعنی اسے بانسری بجانے اور مفت کی روٹیاں توڑنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ کرنا ککھہ نہیں اور ناک دو فٹ 'اچی'، لہٰذہ بھرجائی کا طعنہ دل پہ ٹھااا کر کے لگ گیا۔ ہیرو کے اپنے شہر ہزارہ میں 'خبصورت' لڑکیوں کی شدید کمی تھی۔ اور عشق فرمانے کے لئے 'ختون' کا خبصورت ہونا ایک بنیادی شرط تھی، کم از کم ڈائریکٹر کی۔
دوسری طرف ہیر باجی اپنے وقت کی 'مس ورلڈ' تھیں۔ چہار عالم میں انکے حسن کے چرچے تھے سوائے انکے اپنے شہر کے۔ یا پھر انکے شہر میں مردانہ آبادی صرف انکے والدِ محترم اور چاچا جی تک محدود تھی۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ملکہ عالم، اللہ جھوٹ نہ بلوائے، اپنی کم از کم تین درجن انتہائی شریر سہیلیوں کے ساتھھ کھیتوں میں، باغوں میں چھلانگیں لگاتی پھرے اور آسے پاسے کوئی مرد/ لڑکا جھانکی بھی نہ مارے۔
ہاں تو رانجھا 'پائی یان' بھرجائی کے طعنے کو دل پہ لیے ہوئے گھر سے چلے ہی عشق کرنے کے لئے تھے۔ اور سیدھے سیدھے ہیر باجی سے جا ٹکرائے۔ پورے گاوں میں صرف ایک گھر تھا اور اتفاق سے وہاں ویکنسی بھی تھی ۔ سو انھیں بغیر کسی کمپٹیشن کے نوکری مل گئی۔ لیکن بھائی رانجھا بہت 'مصوم' تھے یا مساوات کے قائل کہ جس بانسری سے مجوں کو ہانکتے تھے اسی سے ہیر باجی کو بھی بلاتے تھے۔ تمام 'زنانیوں' کو ایک ہی بانسری سے ہانکتے تھے اس میں ہیر کےcircumference کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے، جو مجوں کے قریب قریب تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے رانجھا کی نظر کمزور ہو، اور وہ مج اور ہیر میں تفریق نہ کرسکتے ہوں۔ ہاں کسی مج نے انھیں کبھی ٹکر نہیں ماری۔
جھنگ میں 'قحط الرجال' کا اندازہ اس بات سے بھی ہوا کہ ہیر باجی کے لئے ایک بھی پروپوزل جھنگ سے دریافت نہ ہو سکا۔ "رانجھا مجیاں چرایا بارہ سال تے ہیر منگ کھیڑیاں دی"۔ اگر ہم ہیر ہوتے تو رانجھے اور کھیڑے دونوں پر دو، دو حروف بھیج کر 'بلوچا ظالماں' کے ساتھہ نس جاتے، کہ وہ کہیں زیادہ سمارٹ تھا، ہمیں سدھیر کبھی اتنا سمارٹ نہیں لگا جتنا وہ اعجاز اور منور ظریف کے مقابلے میں لگا۔
ویسے آپس کی بات ہے اگر اصلی ہیر ایسی ہی تھی تو ہم بھی عشق میں غوطہ کھانے کے لئے تیار ہیں بس کوئی ہمیں یقین دلادے کہ وہ نورجہاں کی آواز میں 'قربان' ہوسکتی تھی
فلم دیکھہ کر پتہ چلا کہ پاکستان کی زرعی پیداوار میں مسلسل کمی کے کیا عوامل ہیں۔ اور یہ کہ عورتوں کی ریسلنگ کی ایجاد کا سہرا بھی مسماۃ ہیر اور انکی سسرالی خواتین کے سر ہے۔