Saturday, December 8, 2012

ہم اور ہمارا اسلام

خواہ دنیا پاکستانیوں کو بنیاد پرست کہے، یا ساری مذہبی تنظیمیں ہمیں بے دین سمجھتے ہوئے، بنیاد پرست بنانے کی کوشش کرتی رہیں، لیکن تین سال سعودی، مصری اور دیگر عرب مسلمانوں کے ساتھ رہ کر اندازہ ہوا کہ ہم عام پاکستانی ان نام نہاد مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہیں، ہم لوگ اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب تھے تو عرب دین اسلام میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ ہم پرائمری اسکول میں، اسی غلط فہمی میں ہم عموماً "رہنمائی" کے لیے سعودی عرب کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری عام زندگی بہت حد تک اسلامی شعائر کے دائرے میں ہے، ہم دین میں ان سے آگے اورمنافقت میں ان سے پیچھے ہیں۔

یقینا ہم میں شرابی کبابی بھی موجود ہیں لیکن ایک عام اوسط پاکستانی رزق کی عزت کرتا ہے، کھانا کھانے سے متعلق چھوٹی چھوٹی سنتوں کا خیال کرتا ہے، ایک عام پاکستانی خاتون اپنے محرموں کے سامنے بھی ستر کا خیال رکھتی ہے، جامے سے باہر نہیں ہوتی، 'لیڈیز اونلی' محفل میں بھی ان کا لباس اخلاقی حدود میں رہتا ہے،عربی خواتین خصوصا" سعودی خواتین کا لباس، اللہ کی پناہ۔ سعودی حکومت کی سخت شرعی پالیسی نے سعودیوں کوضرور کنٹرول کیا ہے، ان کے اخلاق و خصائل کونہیں، سعودی عرب میں جو کچھ نہ کرسکیں وہ کہیں اور کر لیا، یہ اسلام تو نہ ہوا، سراسر منافقت ہوئی۔

عام پاکستانی مرد بھی لڑکیوں کو تاڑنے تک ہی محدود رہتا ہے، اگر کہیں ریڈ لائیٹ ایریا ہے بھی تو سارے کے سارے وہیں نہیں پائے جاتے، جو جاتے ہیں نظر بچا کر ہی جاتے ہیں، سعودی مرد حضرات مصر آتے ہی 'تفریح طبع' کے لئے ہیں، زیادہ تر پرانے قاہرہ کے خاص محلوں میں چکراتے پائے جاتے ہیں، جو ذرا شریف ہوتے ہیں وہ کسی مصری خاتون سے ہفتے پندرہ دن کے لیے نکاح کر لیتے ہیں، پندرہ دن بعد طلاق دی اور یہ جا اور وہ جا۔ مزے کے مزے، ضمیر بھی مطمعین رہتا ہے، آخر نکاح کرتے ہیں، گناہ نہیں کرتے۔ مصر کی غربت نےغریب والدین کو بیٹیوں کا دلال بنا دیا ہے، مخصوص علاقےجہاں غربت زیادہ ہے اس قسم کی کاغذی شادیوں کے لیے مشہور ہیں، امیر عرب بوڑھے کمسن لڑکیوں سے چند روزہ شادی کی ٹھیک ٹھاک قیمت دے دیتے ہیں، والدین کی قسمت سنور جاتی ہے اور لڑکی . . . لڑکیوں کو قسمت کا کیا کرنا ہے۔ جب 'صراط مستقیم' پر چلنے والوں کا یہ حال ہے تو باقی عرب ممالک کے شہریوں کا آپ خود اندازہ کرلیں۔ 

یہ تو ہوئی معاشرت، عبادت کی بھی سن لیں، نماز عربوں کی عادت میں شامل ہے، اسکا پرچار نہیں کرتے، کسی بھی جگہ دو بندے بھی ہونگے تو جماعت کرلیں گے، اچھی بات ہے، لیکن وضو پورا نہیں کرتے،میرے ساتھ ایک صاحبہ بازار میں تھیں، اذان ہوئی تو ہم قریب میں مسجد میں چلے گئے، میں نے عادت کے مطابق وضو کیا، انھوں نے صرف ہاتھ اور چہرہ، چہرہ بھی ایسے کہ سکارف تک نم نہ ہوا، موزوں پر مسح کر لیا، نہ گردن، نہ کان، نہ بال، پھر حیرت سے فرمایا، تم نے گردن، بال اور کان کا بھی مسح کیا ہے، میں نے پوچھا تم نے کیوں نہیں کیا، بولیں، کوئی کرتا ہے، کوئی نہیں کرتا۔ ساری نمازیں پڑھتے ہیں، پر پوری نماز نہیں پڑھتے، صرف فرض، نفل چھوڑیں سنتیں بھی نہیں۔

شب معراج، شب برات کا کچھ پتہ نہیں چلتا ، نہ عبادت نہ روزہ۔ ۔البتہ رمضان بہت ہی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ شب قدر کے آخری عشرے میں روز انہ شبینہ عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے، اس خصوصی نماز کو تہجد کہا جاتا ہے۔ معمولی سی رونق عید میلادالنبی پر ہوتی ہے، محرم پر وہ بھی نہیں نظر آتی.

پردہ نشینوں کا کچھ حال تو اوپر بیان ہے، باقی عرب خواتین کا حال کچھ اس طرح ہے، سوریا شام کی خواتین یورپین ہوتی ہیں، سودانی خواتین پاکستانی ہوتی ہیں، مصری خواتین مصری ہوتی ہیں یعنی اپنی طرح کی ۔ اسی سے نوے فیصد مصری خواتین سکارف لیتی ہیں، انکا اسلامی لباس سکارف اور اسکن ٹا ئیٹ جینز اور ٹاپ پر مشتمل ہوتا ہے، انکے خیال میں پردہ جلد ڈھکنے کا نام ہے جسم ڈھکنے کا نہیں، لہذہ حضرات بآسانی تمام نشیب و فراز معائنہ فرماتے رہتے ہیں

Tuesday, November 27, 2012

Like it or Not




There is a magic option on Facebook. Previously it used to be a button with a Thumbs-Up symbol, later it was replaced with an option. Traditionally I used to like things that really impress me. Since I started using Fakebook … oh sorry I mean Facebook I discovered new meanings of the word. Usually when I see something that is really interesting or makes me laugh I ‘Liked’ it. Soon I was surprised to see when one of the friends updated his status ‘Caught Fever’ and 25 people ‘Liked’ it.

زندگی کے ایٹم


جس طرح ایٹم کا ایک نیوکلئیس ہوتا ہے اور تمام الیکٹران اس مرکز کے گرداپنے اپنے دائروں میں چکراتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح انسانی زندگی بھی ایک مرکز اور دائروں پر مشتمل ہے۔ ہم انسان بھی مرکز میں رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد دائرے بنا رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہی اس رونق دنیا کا مرکز ہے باقی ساری دنیا اس کے گرد گھوم رہی ہے

ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے



عرب گوشت کے شوقین ہوتے ہیں، کسی کھانے میں اگر گوشت شامل نہ ہو تو اسکو کھانے میں گنتے ہی نہیں، کھانا تو دور کی بات، دوسری نظر بھی نہیں ڈالتے۔ خاص کر سعودی عرب کے لوگ کھانے کی سب سے زیادہ بے حرمتی کرتے ہیں، ان کے ہاں بچا ہوا کھانا سنبھال کر رکھنے کا رواج نہیں ہے، ایک پلاسٹک شیٹ بچھا کر اس پر کھانا کھاتے ہیں کھاتے ہوئے اپنے علاوہ سب کے سامنے سے کھاتے ہیں، دسترخوان پر کھانا جی بھر کر گراتے ہیں، آخر میں جو کھانا بچ جائے اسی پلاسٹک کے دسترخوان پر الٹ کر سیدھا کچرے کے ڈبے میں۔

Sunday, November 25, 2012

تبصرہ: فلم ہیر رانجھا



گو کہ فلم ستر کی دہائی میں ریلیز ہوئی تھی، لیکن ہم نے تو اب دیکھی ہے، ہم تو ابھی تبصرہ کریں گے۔

کیونکہ ہیرو 'ویلا' تھا یعنی اسے بانسری بجانے اور مفت کی روٹیاں توڑنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ کرنا ککھہ نہیں اور ناک دو فٹ 'اچی'، لہٰذہ بھرجائی کا طعنہ دل پہ ٹھااا کر کے لگ گیا۔ ہیرو کے اپنے شہر ہزارہ میں 'خبصورت' لڑکیوں کی شدید کمی تھی۔ اور عشق فرمانے کے لئے 'ختون' کا خبصورت ہونا ایک بنیادی شرط تھی، کم از کم ڈائریکٹر کی۔ 

ڈنڈے کے زور پر عقیدوں کی درستگی

آجکل عقیدوں کی درستگی پر بہت زور ہے، ہر شخص لٹھ لے کر دوسروں کے عقیدے درست کر وا رہا ہے۔ "اگر مسلمان ہو تو اس پوسٹ کو لائک کرو" ۔ 

میرا عقیدہ جو بھی ہو، وہ میرے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اگر میں درست ہوں تو مجھے کوئی ڈر نہیں، اگر تم درست ہو تو تمہیں فکر نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہم دونوں کو اللہ کے منصف ہونے پر یقین ہے نا، تو وہ سزا دے گا مجھے یا جزا ، یہ تمھارا concern نہیں ہونا چاہئے۔ 

جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا برائی کو ہاتھ سے روکو، نہیں تو زبان سے، ورنہ دل میں برا سمجھو، اور یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے، اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو کہا تھا کہ دین میں جبر نہیں ہے، اس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دو، اور جس پر تمہارا دل مطمعین ہو اسے اپنا لو۔ تو ہم صرف لوگوں کو صحیح اور غلط بتا سکتے ہیں سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں لیکن زبردستی اس پر چلا نہیں سکتے۔

Wednesday, July 18, 2012

Why I can not Dance..!

Whatttt ... you can not dance...!

This was the first surprising reaction from my colleagues during early days of my fellowship during an introductory gathering @ Cairo. When they knew that I never danced, they could not believe. It was very hard to make them understand why I do not dance. I tried to explain that I never danced before and I can not but they could not make out. But why I never danced has a very vast cultural background that is not easy to understand for Non Pakistanis.

Pakistan is a multi-ethnic and multi-cultural society. All of the ethnic groups have their cultural routs in pre-partition Indian subcontinent. In pre-partitioned Indian subcontinent in Urdu speaking population singing and dancing were limited to one specific community. This community was usually headed by women known as Tawaif equivalent to Prostitutes but not all of them were prostitutes in popular meaning of the term. These Tawaifs were limited to one specific geographical area in the cities known as Bazaar-e-Husn (Market place to buy women).

These Tawaifs were of two types. One type of Tawaifs used to sing and dance only for men and any one can come, pay their fee and watch dance and listen songs. Some times any rich man would buy rights of singing and dancing of the most famous, most beautiful and most talented Tawaif. In this case she would perform only for him and he would pay her a handsome monthly salary. She might get pregnant of this man legitimately or illegitimately but this child would never be accepted in his family. Some times these singer and dancer Tawaifs used to go to wedding parties of rich people at home “to please only men audience”.

(Dancing was considered so bad in Urdu speaking community that noble women were not allowed to see.)

Another kind of Tawaifs was Female Sex Workers. They used to live in the same Bazaars. But because of getting old or not being so attractive and beautiful as others were, hence having fewer admirers for their singing and dancing, they had to sell themselves for money.

Sex workers or performers, all of them were considered same - WOMEN HAVING VERY BAD CHARACTER - at those times, because the noble women used to observe Parda (Hijab) from Na-Meharam (out of family) men. While these women not only were coming out in front of all men but singing and dancing in front of them at least and flirting with them for earning more money. So among noble community they were considered as untouchables. No noble men would marry a Tawaif (surprisingly he was allowed to see her show/mujra :D) if some one would do so, his family would never accept this girl and her children as legitimate family members and inheritors.

So till today noble Urdu speaking families consider dancing and to some extent singing as un-respectable art or skill (not elite families, there is a difference between a sharif family and Ashrafiyah :P).

But it does not mean that people especially women do not dance at all in Pakistan. Other major ethnic cultures such as Punjabi, Sindhi, Pashtoon and Balochi have their own very beautiful cultural dance forms for men and women and they dance separately or collectively on different occasions according to their centuries old traditions. In modern Urdu families people getting infected from Indian movies and dramas and they dance more than Indians (dance is a part of religious rituals in Hindu Culture) to show how modern they are. However, I am proud and happy that I am from a traditional Urdu family.

One may call me a Conservative, I am happy with that :)

Tuesday, July 3, 2012

اپنے اپنے خدا

تنبیہ: کمزور ایمان والے اپنے رسک پر پڑھیں، ہوسکتا ہے میں نے آپ کے خدا کی شان میں گستاخی کردی ہو

انسان فطرتاً 'عابد' ہے اس لئے ابتدا ہی سے 'معبود' تلاشتا اور تراشتا رہا ہے۔ ابتدا میں فائدہ و نقصان کی بنیاد پر معبود بنائے، سورج سے حرارت کا احساس ملا تو سورج کی عبادت شروع کردی، سمندر کی طاقت سے دہشت زدہ ہو کر یا رزق کی فراہمی سے مرعوب ہو کر سمندر کو دیوتا مان لیا، آگ نے جلا ڈالا تو آگ کو سجدہ کر لیا، پتھر سے چوٹ لگی تو پتھر کو دیوتا بنا لیا۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں بخیل پن ہے تو اپنے اپنے دیوتا اور خدا الگ الگ کر لیے، پتھر مختلف شکلوں میں تراش لیے اور انھیں لات، منات ایسے عجیب و غریب نام دے دیے۔

Monday, July 2, 2012

ہاسٹل میں رہنے کے رہنما اصول

صاحبو ہاسٹل اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں طالبعلموں کی تعداد ہمیشہ دستیاب وسائل کے بالعکس متناسب ہوتی ہے یعنی طلبہ کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور وسائل کم ہوتے جاتے ہیں۔ ہر طالبعلم کو ہر صبح پہلے غسل خانے کے لئے اور اسکے بعد ناشتہ تیار کرنے کے لئے رسہ کشی کرنی پڑتی ہے۔ جہاں ایک طالبعلم کو اسی وقت فل والیوم سے مائیکل جیکسن کو سننا ہوتا ہے جب دوسرا خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔ جب آپ غسل فرمانے کی فل تیاری اور موڈ میں ہوتے ہیں اور اسی اثنا میں کوئی دوسرا حمام پر قبضہ کرلیتا ہے اور آپ صرف دانت کچکچا کر رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم یہ کشٹ کاٹ رہے ہیں اور اپنے تئیں خاصے تجربہ کار ہو چکے ہیں اس لئے نئے آنے والوں کے لئے ہاسٹل میں کامیابی سے رہنے کے کچھ راہنما اصول درج کیے دیتے ہیں۔