Tuesday, July 3, 2012

اپنے اپنے خدا

تنبیہ: کمزور ایمان والے اپنے رسک پر پڑھیں، ہوسکتا ہے میں نے آپ کے خدا کی شان میں گستاخی کردی ہو

انسان فطرتاً 'عابد' ہے اس لئے ابتدا ہی سے 'معبود' تلاشتا اور تراشتا رہا ہے۔ ابتدا میں فائدہ و نقصان کی بنیاد پر معبود بنائے، سورج سے حرارت کا احساس ملا تو سورج کی عبادت شروع کردی، سمندر کی طاقت سے دہشت زدہ ہو کر یا رزق کی فراہمی سے مرعوب ہو کر سمندر کو دیوتا مان لیا، آگ نے جلا ڈالا تو آگ کو سجدہ کر لیا، پتھر سے چوٹ لگی تو پتھر کو دیوتا بنا لیا۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں بخیل پن ہے تو اپنے اپنے دیوتا اور خدا الگ الگ کر لیے، پتھر مختلف شکلوں میں تراش لیے اور انھیں لات، منات ایسے عجیب و غریب نام دے دیے۔
پھر انسان کو پیغام عظیم پہنچایا گیا کہ یہ تم کن خداوُں کی عبادت کرتے ہو، میں ہوں تمہارا ربّ ، 'قل ہواللہ احد'، حضرتِ انسان بڑی مشکلوں سے اس ان دیکھے انجانے خدا کو خدا مانے، خاصی گڑبڑیں بھی کیں، بالآخرکچھ مان گئے، باقی نافرمان کہلائے۔

لیکن جیسے کہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ 'آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا' تو مسلمان کو بھی میسر نہیں مسلماں ہونا۔ چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصداق اس نے کچھ اور طرح کے نئے خدا تلاش لئے۔

ماضی: ہم مسلمانوں کا سب سے اہم دیوتا 'مسلمانوں کا عظیم الشان ماضی 'ہے، 'حال' ہمارا ایسا ہے کہ جانے نا جانے گل ہی نہ جانےباغ تو سارا جانے ہے، 'مستقبل' میں صرف ایک بحر ِِبے کراں جیسا بلیک ہول نظر آتا ہے، جس میں جھانکیے تو کچھ نظر ہی نہیں آتا، تو لے دے کر صرف ایک ماضی بچتا ہے جسے جتنا پوجو کم ہے۔ کچھ لوگ کراچی کے ماضی میں زندہ ہیں تو کچھ لاہور کے، ہم میں سے اکثر ماضی پرست ہیں اور کچھ نہیں تو اپنے بچپن اور بعضے اپنے پچپن کو دہراتے رہتے ہیں۔

لوگ: دوسرا خدا 'لوگ' ہیں، اللہ کے ڈر سے [اللہ سےڈرنے کی بات بھی خوب ہے، وہ جو ہم سے ستّر ماوں جتنی محبت کرتا ہے، مولوی صاحب نے ہمیں اس سے محبت کرنا سکھانے کے بجائے ڈرنا سکھایا ہے، مولوی صاحب نے کہا ہے تو مان لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو]، ہاں تو اللہ کے ڈر کے بجائے ہم اکثر نماز اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، اور اکثر اسی سبب ہم عبادت چھوڑ بھی دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کتنا فنڈامینٹلسٹ ہے۔

ہمارے کچھ کالم نگار حضرات نے بھی اپنے اپنے بت تراش رکھے ہیں، جیسے نئی نسل کے پسندیدہ کالم نگار جاوید چودھری کا خدا رجا ئیت پسندی یا رومانیت پسندی ہے، ان کے ہر کالم کا عنوان کسی نہ کسی پر امید موضوع پر ہوتا ہے، وہ معاشرے کے کسی بھی منفی ترین موضوع میں رومانویت تلاش کر لیتے ہیں اور اسکو اسقدر مثبت انداز میں بیان کرتے ہیں کہ اگر وہ زہر کی تعریف کرنے پر آئیں تو بہت سارے لوگ خوشی خوشی پی لیں گے۔ یہ سبز عینک لگا کر دیکھتے اور لکھتے ہیں اس لئے ۔ ۔ ۔ آگے سینسر ڈ

ایک اور کالم نگار حسن نثار منفیت پسندی [یہ لفظ ابھی ابھی ایجاد ہوا ہے، اسکا اصل لفظ یاد نہیں آرہا] کے عبادت گزار ہیں، کالم نگاری میں جاوید چودھری سے ایک سو اسی درجے کے زاویے پر مقیم ہیں یہ کسی بھی موضوع پر اس قدر منفی رائے رکھتے اور لکھتے ہیں کہ اگر عید کے موضوع پر لکھیں تو لوگ عید کے دن یومِ عاشور منانے لگیں، شادی کے موضوع پر لکھیں تو دلہا دلہن اجتماعی خود کشی کرلیں۔ ملکی حالات پر سب ہی افسردہ ہیں اور لکھتے بھی ہیں پر جو ' ہوکے اور کچی چیاں' مطلب آہیں اور افسردگی[اس لفظ کچی چیاں کا معنوی ترجمہ ممکن ہی نہیں] نثار صاحب کے کالم میں ہیں، کہیں اور ان کا عشر ِ عشیر بھی دستیاب نہیں۔ اگر آپ کو جلنے، بھننّے، کڑھنے، تپنے اور سیاپا ڈالنے جیسے الفاظ کے معنی نہیں آتے تو انکے کالم کا با قا عدگی سے مطالعہ آپ کی اردو کو یقیناً جِلا بخشے گا۔

ایک اور 'مشہور' کالم نگار کا خدا 'کپتان' ہے، ان کی عبدیت کے سامنے ہم مسلمانوں کو اپنی عبادات کی کوالٹی پر شرم آنی چاہئے، نظم یا غزل میں تو حمدیہ کلام بہت دیکھا اور پڑھا ہے، لیکن نثر ی حمد میں آنجناب کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ نہ جانے کپتان کو ان سے نفع ہو رہا ہے یا وہ ' ہوئے تم دوست جس کے ۔ ۔ ۔ ' والے دوست ثابت ہونگے۔ کپتان سے ہمیں کوئی خاص پرخاش نہیں ہے بس ایک بار انھوں نے ہما را دل توڑا تھا، اخبار میں بار بار اعلان کے باوجود کے وہ ایک پاکستانی مسلمان لڑکی سے شادی کریں گے ایک فرنگن سے شادی کرلی، لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم عمر اور قد دونوں میں کپتان سے ایک اور چوتھا ئی کی نسبت رکھتے تھے۔

ایشیا ئی نوجوانوں کی اکثریت کا خدا کرکٹ ہے، اور کرکٹ سے وہی سلوک کرتی ہے جو ہم ناشکرے بندے اللہ کے ساتھ کرتے ہیں، یعنی جب 'خدا'نے من کی مراد پوری کردی تو کیا بات ہے بس 'تو ہی خدا ہے' اور جو خواہشات کے برعکس ہو تو 'بندہ دے اور اللہ لے'