Showing posts with label Tourism. Show all posts
Showing posts with label Tourism. Show all posts

Friday, March 20, 2020

Tourism in Sindh and Baluchistan

A Few Humble Suggestions

Being a die hard supporter of promotion of tourism in Southern Pakistan that is Sindh and Baluchistan, and a well traveled person in the region, I believe that South is more diverse than North of Pakistan in terms of tourism that is under explored. South has Sea, Rivers, Lakes, Dams, Islands, Volcanoes, Mountains, Waterfalls, Deserts, Historical and Archaeological sites, Necropolises, Forts, English era and Pakistan movement sites, Religious spots, Sufi Shrines, Folk tales sites, Natural wonders and so on.

Photo Credits & Copy Rights: Writer

Friday, June 14, 2019

K-2 | Coz THEY are There - VIII

 پائیو کیمپ سائیٹ


پائیو کیمپ سائیٹ ایک کاروان سرائے ہے۔ روز صبح نو بجے سے کوئی نہ کوئی گروپ اپ یا ڈاؤن ٹریک پائیو پہنچتا ہے جسے پہلے سے مقیم لوگ ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ بھی آگئے ہیں حصہ بٹانے کو اور نوواردان سوچتے ہیں کہ ہیں یہاں یہ بھی ہیں پہلے سے۔ یہ کیوں ہیں، یہاں پرائیویسی کیوں نہیں۔ اور ہر روز تڑکے ان میں سے چند گروپ آگے یا پیچھے روانہ ہوجاتے ہیں۔ عموماً آگے کیونکہ اردوکس سے واپس ہونے والے یہاں ٹھہرے بغیر جھولا چلے جاتے ہیں۔

K-2 | Coz THEY are There - VII

ڈے تھری: جھولہ ٹو پائیو

(صبح ساڑھے پانچ بجے سے سہ پہر تین بجے )

بالتورو گلیشیر سے نکلنے والا دریا گائیڈ کے مطابق دریائے سندھ ہے لیکن مقامی نام شیوک ہے۔ لیکن نام سے کیا ہوتا ہے۔ سندھ ہو یا شیوک اگر آپ اس میں ڈبکی کھا گئے تو اس نے آپ کو کھا جانا ہے۔ جھولا سے ناشتہ کر کے ہم نے دریا کا کنارہ پکڑ لیا۔ ٹریک دریا کے کنارے کنارے کبھی اوپر کبھی نیچے۔ کبھی لب دریا، کبھی پرے دریا۔کبھی دریا کے بیڈ میں، کبھی پہاڑ کے اوپر، کبھی جھاڑیوں میں۔
فرخ نالہ پار کرتے ہوئے

Thursday, June 13, 2019

K-2 | Coz THEY are There - VI

جھولہ کیمپ سائیٹ

ہم اشکولے سے صبح 7:30 پر چلے اور ساڑھے تین بجے جھولہ پہنچے، جبکہ باقی سارے ہم سے پہلے 12 بجے ہی جھولہ پہنچ چکے تھے۔ جھولہ کیمپ سائیٹ دریا کے دوسری جانب ہے، اشکولے سے آنے والا ٹریک دریا کے اس طرف ہے ، آپ جب اس موڑ پر پہنچتے ہیں جہاں سامنے جھولا کیمپ سائیٹ نظر آرہی ہوتی ہے تو دل کو بڑی تسلی ملتی ہے کہ بس جی کیمپ سائیٹ آگئی۔ لیکن اس کیمپ سائیٹ تک پہنچنے کے لیے آپ کو تقریباً تین چار کلومیٹر کا چکر لگا کر دریا پر بنے برج پر سے یو ٹرن لینا پڑتا ہے۔ تب کہیں جاکر کیمپ سائیٹ پہنچتے ہیں۔ کیمپ سائیٹ اشکولے سے کچھ بہتر ہے۔ باتھ روم اور واش رومز بھی بنے ہوئے ہیں۔ 
جھولہ کیمپ سائیٹ پچھلی طرف سے

K-2 | Coz THEY are There - IV

اشکولے کیمپ سائیٹ

ڈے ون: 
[ایکچوئلی نائیٹ ون۔ کیونکہ ہم مغرب کے وقت اشکولے پہنچے تھے۔ پہلا دن تو جیپ کے سفر میں گزرا تھا۔ جس کی روداد ابھی قلمبند ہونی باقی ہے۔]

ہمارا خیال تھا کہ ہم اسکردو سے نکلیں گے اور بس کھلی ہوا میں کیمپنگ شروع ہوجائے گی۔ اشکولے کیمپ سائیٹ کے بارے میں ہمیں گمان تھا کہ یہ ایک اوپن ائیر کیمپ سائیٹ ہوگی جہاں ہم صبح اٹھ کر اپنے خیمے کا دروازہ کھولیں گے تو برف پوش چوٹیاں سیدھی ہمیں سلامی دینے ہمارے ٹینٹ میں گھسی چلی آئیں گی۔
اشکولے کیمپ سائیٹ اگلی صبح کچن ٹینٹ

Wednesday, June 12, 2019

K-2 | Coz THEY are There - II

Almost Solo

تقریباً سولو ٹریکر یعنی بولے تو گروپ میں اکلوتی ہیروئین

"فرخ ٹرپ میں کوئی اور خاتون ہے؟ میں آل بوائز کمپنی میں نہیں جاتی کم از کم ایک خاتون اور ہونی چاہیے"

"جی دو خواتین ہیں۔ ایک میاں بیوی ہیں اور ایک خاتون اور ہیں "

اور ہم بے فکری سے تیاری میں مگن ہوگئے ۔ پر اللہ میاں جانے کیا سوچ کے بیٹھے تھے وہ جوڑا تو کہیں اور چلا گیا اور خاتون ٹرپ سے دو دن پہلے حسب عادت مکر گئیں۔ فرخ نے مجھے بتایا ہماری تو سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ ہم فرخ کو عین وقت پر انکار نہیں کرسکتے تھے اور آل بوائز کمپنی کے ساتھ جانا 😈۔ اور اللہ میاں " ہن پتا چلا "


K-2 | Coz THEY are There - I

فرخ نامہ

ہر طرف سے جو مجھ پر سفر نامہ لکھنے کا دباؤ ہے، سارے سن لیں کہ وہ اصل میں فرخ نامہ ہوگا۔ بعد میں شکایت نہ کریں، ہاں۔

تو پیش ہے سفر نامے کا پیش لفظ یعنی فرخ نامہ۔ فرخ کو میں تھوڑا تھوڑا جانتی تھی کیونکہ وہ ایک بند شخصیت ہے اور میرا اس کا رشتہ پہلے روز سے احترام کا ہے کیونکہ روز اول سے ہی اس نے مجھے آپا کہہ کر پکاراتھا، اس کی سنجیدگی کی وجہ سے اس کے کافی رعب میں بھی تھی۔

جانے سے پہلے میں کافی جز بز تھی کہ ہائے میری تصویریں کون کھینچے گا، 20/22 لوگوں کے گروپ میں آپ کے آسے پاسے 8/10 افراد تو ہوتے ہیں جو خود اپنی اور دوسروں کی کارٹونی پکچرز لے رہے ہوتے ہیں تو آپ بھی انہیں منہ پھاڑ کے اور پوز مار کے کہہ دیتے ہیں کہ ذرا میری فوٹو بھی کھچ اوئے۔

Thursday, August 2, 2018

خوردوپن پاس : محمد عبدہ



کسی بھی کتاب پر ہم تعریفی تبصرہ کریں گے یا تنقیدی، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا I fell in love with کتاب یا نہیں۔

اینڈ I did ود خوردو پن پاس، پاس بھی اور کتاب بھی۔ ❤

لیکن اس میں ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ ہم نے خوردوپن پاس تب "کراس" کیا جب ہم غوندوغورو سے تازہ تازہ لوٹے تھے اور نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملیں۔ تو بس ہمارا کام ہوگیا، بلکہ تمام ہوگیا۔ ہمیں تو لگا ہم ہی خوردوپن پاس کر کے آئے ہیں۔ گوڈے گٹے بھی اس کی "گواہی" دے رہے تھے بلکہ ابھی تک دے رہے ہیں۔ 😂😂😂

Wednesday, April 4, 2018

تھرپارکر سفاری

تھرپارکر کی مخصوص جھوپنڑی
ایک زمانے میں تھر پارکر ہمارا خواب تھا اور خواب کی طرح ہی کسی دودراز خوابناک سے مقام پر آباد تھا، ریت کے بگولوں کےپار ، پہنچ کی سرحدوں سے باہر۔ افواہیں تھیں کہ سڑکیں بہت خراب ہیں صرف فور بائی فور جاسکتی ہے۔ عام گاڑی نہیں جاسکتی۔ صحرہ ہے، سانپ اور دیگر جانور ہوتے ہیں۔ دیکھنے کا کچھ نہیں وہاں، ریت ہی ریت ہے لیکن ہمیں اتنا تو پتا تھا کہ وہاں پرانے مندر ہوتے ہیں، عمرکوٹ کا قلعہ ہوتا ہے جہاں عمر سومرو نے ماروی کو قید کر رکھا تھا اور عمر کوٹ میں ہی کہیں اکبر اعظم کی جائے پیدائش ہے اور سب سے بڑی بات کہ وہاں صحرہ ہے۔ ہمارے لیے  اصل کشش اور دیکھنے کی چیز تو صحرہ ہی تھا، "دین ایمان، سمندر، دریا، صحرہ، کوہستان" میں سے صحرہ نوردی ہی باقی رہ گئی تھی۔ لیکن صحرہ  پہنچ سے دور تھا۔ 

Friday, February 2, 2018

وقت کا پہیہ : سائیکل سے موٹر سائیکل تک کا سفر

کہانی شروع ہوتی ہے ایک سائیکل سے۔ سب سے پہلی سائیکل جو ایک لڑکے کو 10/12 سال کی عمر میں اس کے ابا نے بہاولپور میں دلوائی تھی، اس سائیکل نے جہاں اس کا اسکول کا راستہ کم کردیا تھا وہیں اس کی آوارہ گردیوں کو نئے آسمان عطا کردیے تھے۔ نہ صرف خود بلکہ اپنے چھوٹے بھائیوں، کزنز اور دوستوں کو بھی ساتھ آوارہ گردیاں کراتا اور ان سب کے اباؤں سے ڈانٹ کھاتا۔ اس کے اپنے ابا تو خود وڈے آوارہ گرد تھے، اسے کیا منع کرتے دنیا دکھانے کو ایک آدھ گھرکی لگا دیتے۔ یہی نہیں بلکہ اکثر وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی سائیکل کے پیچھے بٹھا کر روہی میلہ دکھانے چل پڑتا۔

ھنڈا 110 لسبیلہ بلوچستان میں

Saturday, January 20, 2018

"منظر ہے اس طرح کا کہ دیکھا نہیں ہوا"


رش لیک۔ فوٹو کریڈٹ: فریال عثمان خان

رش لیک پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے جوگلگت بلتستان میں رش پری پہاڑ کے دامن میں سطح سمندر سے تقریباً 15000 فیٹ بلندی پر واقع ہے۔ رش لیک ٹریک کا شمار شمال کے مشکل ٹریکس میں ہوتا ہے۔ رش لیک پہنچنے کے لیے ہوپر براستہ نگر سے تقریباً دو سے تین دن کی ٹریکنگ ہے۔ جاتے ہوئے ہوپر گلیشئیر پار کرنا ہوتا ہے جو زیادہ مشکل نہیں اور مقامی گائیڈ کی موجودگی میں مزید آسان ہوجاتاہے۔ ٹریکرز اگر چاہیں تو اسی راستے سے دو دن میں واپس بھی آسکتے ہیں اور چاہیں تو دوسری جانب سے چکر کاٹ کر بھی واپسی ہوسکتی ہے۔ چکرکاٹ کر یا لوپ ٹریک کی صورت میں واپسی میں مزید دو گلیشئیرز، چند گلیشئیائی نالے اور ایک پہاڑی نالہ پار کرنا ہوگا۔ جو جانے والے راستے کی نسبتاً تھوڑا مشکل لیکن زیادہ ایڈونچرس اور خوبصورت راستہ ہے۔

Monday, January 8, 2018

"چاند نگر"

تھرپارکر: ایک تاثر


ہمارے پاس اس ٹریک کی کوئی تصویر نہیں، کوئی سیلفی نہیں، ایک بھی نہیں۔ کوئی ثبوت نہیں۔ لیکن اٹ واز ون آف دی ونڈرز آئی ہیو بین تھرو

فوٹوکریڈٹ: عدیل پرویز @ ٹریکس اینڈ ٹیلز


Wednesday, December 20, 2017

شیرگڑھ کوٹ ٹریکنگ ایڈوینچر

"مزمل ہم دوبارہ رنی کوٹ آئیں گے، نائیٹ کیمپنگ کریں گے اور شیر گڑھ کوٹ تک ٹریکنگ بھی کریں گے۔ "

"ہاں ، آج تو ہم نےسوشل سروس ہی کی بس"

"لیکن عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر"

"ڈن"
رنی کوٹ، سن گیٹ۔ فوٹو کریڈٹ : طارق

اگر کسی کو آپ سے کوئی مسئلہ ہے

آج میں اپنی ساتھی جہاں گرد خواتین سے مخاطب ہوں، عموماً خواتین اور لڑکیوں سے لیکن خصوصاً شادی شدہ خواتین جہاں گرد وں سے۔ کیوں کہ آپ خاتون ہیں تو آپ کو اپنے شوق کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر ذمہ داریاں بھی بحسن خوبی پوری کرنی پڑتی ہیں تاکہ کوئی آپ کے شوق پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور وہ آپ ضرور پوری کرتی ہوں گی۔ ہم خواتین ایسی ہی ہوتی ہیں، اپنے شوق کی خاطر دہری مشقت اٹھانے والی کہ کوئی ہم پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ لیکن

 کچھ تو لوگ کہیں گے
لوگوں کا کام ہے کہنا

Saturday, August 26, 2017

تفریح کے بدلتے ہوئے صنفی رجحانات

بطور ایک مشرقی معاشرہ پاکستانی معاشرے میں صنفی تقسیم کار اب بھی بہت واضح ہے، خواتین کا کام گھر سنبھالنا ہے اور مردوں کا کام معاشی بوجھ اٹھانا۔ تبدیلی آرہی ہے مگر بہت دھیرے دھیرے۔ شہروں میں یہ تبدیلی نسبتاً تیز رفتار ہے۔ خواتین تعلیم، ہنر اور معاشی سرگرمیوں میں مردوں کے شانہ بشانہ نہ سہی ان سے بہت پیچھے بھی نہیں ہیں  بلکہ بعض میدانوں میں مردوں کو پیچھے بھی چھوڑ گئی ہیں۔
Photo Credit: Usama Ali

Wednesday, December 21, 2016

کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی

کوہِ حنیف مڈ والکینو مہم 


ایک معصوم سا پہاڑ: دور کے ڈھول سہانے
پکچر کریڈٹ: محمد حنیف بھٹی صاحب

کہتے ہیں کہ ایک کوہ نورد یا ایک ٹریکر پر ہر ٹریک کے دوران تین مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ابتداء میں پرجوش یا ایکسائٹمنٹ، درمیان میں پچھتاوا یا ریگریٹ اور تیسری پھر سے کسی اور نئی مہم کے لیے تیاری۔ ہم اس وقت دوسرے مرحلے سے گزر رہے تھے۔ یعنی پچھتاوا۔ بھلا ہمیں کس نے کہا تھا کہ جان بوجھ کر جان جوکھم میں ڈالیں۔ 

Friday, December 16, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ نہم / اختتامیہ)

چلو اب گھر چلیں ساغر ، بہت آوارگی کرلی 


صبح سویرے ہی روشنی ہونے سے آنکھ کھل گئی۔ اکا دکا لوگ جاگ چکے تھے لیکن اپنے اپنے مقام استراحت پر "اینڈنے" میں مصروف تھے۔ "اینڈنا"یہ ہماری ذاتی ایجاد کردہ اصطلاح ہے، یعنی آنکھ کھلنے کے بعد کی نیند ، الارم بجنے یا امی کے جگانے کے بعد جو ایک نیند کا پیریڈ ہوتا ہے اسے ہم اینڈنا کہتے ہیں۔"ہاں بس پانچ منٹ اور" والی نیند، اور جو سواد اس نیند میں ہوتا ہے وہ ساری رات کی نیند میں نہیں ہوتا۔ پر ہر گزرتے منٹ کے ساتھ روشنی بڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی گرمی بھی۔ چار و ناچار ہر ایک اٹھ بیٹھا، ناشتے کے لیے چائے چڑھا دی گئی۔ گرمی اور حبس اتنا تھا کہ دل کرتا تھا اٹھ کے بھاگ لو ۔ ابھی سات بھی نہیں بجے تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ابھی سب دوبارہ آبشار کی طرف جائیں گے، واپس آکر ناشتہ کریں گے اور پھر نو بجے تک واپسی کے لیے نکلیں گے۔ 

Tuesday, December 6, 2016

کراچی فوٹو واک : کراچی میں یہ گل کھلنے کا موسم ہے

نکتہ آغاز-  فوٹو: نسرین غوری 

ہم چاروں کی گاڑیاں ایمپریس مارکیٹ کی پارگنک میں موٹر سائیکلز کے درمیان ایسے خوشی خوشی محصور تھیں جیسے بھینیسیں کسی جوہڑ میں فرصت سے بیٹھی جگالی کر رہی ہوں۔ اور ہم چاروں حق دق کہ انہیں کیسے واگزار کرائیں۔ہم اتنا ہڑبڑائے کہ ،،، بس نہ پوچھیں۔ اور یہ سارا کیا کرایا ہمارا ہی تھا۔ ہم ہی ہیں جس کو یہ کراچی فوٹو واک کا وائرس لگا تھا۔ 

ونس اپان ٹو ائیرز ایک مرتبہ جب ہم ایک نامہ نیم ادبی جمع ادیبی فین گروپ کے منتظم تھے ہمیں شوق چڑھا کہ کراچی میں ریڈنگ اور فوٹو سیشن کے علاوہ بھی کوئی ایکٹیوٹی ہونی چاہیے۔ قدیم لاہور میں ہوئی واک کا نشہ بھی تازہ تھا۔ سو ہم نے گروپ کے کراچی کے ارکان کو کراچی میں بھی ایک ایسی ہی واک کروانے کا پلان بنایا۔ 

Tuesday, October 18, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہشتم)

یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی 


درہ مولہ کی منفرد ٹوپوگرافی
جاتے ہوئے ہمیں پیدل جانے میں اتنا مزہ آیا کہ واپسی پر جب ہمیں جیپ رائڈ آفر ہوئی تو ہم نے انکار کردیا اور پیدل واپس آنے کو ترجیح دی۔ ریسٹ ہاؤس پہنچے تو جھٹپٹے کا عالم تھا نہ مکمل روشنی نہ مکمل تاریکی۔ کچھ لوگ ہم سے پہلے کے واپس آچکے تھے، تمام مقامی اور ڈرائیور حضرات لنچ یا ڈنر میں مشغول تھے، ہم بھی منہ ہاتھ دھو کر لائن میں لگ گئے، ریسٹ ہاؤس کیونکہ چاروں جانب سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ہوا کا نام و نشان نہیں تھا شدید حبس کی کیفیت تھی۔ اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید لوگ آبشار سے واپس آنا شروع ہوگئے، ریسٹ ہاؤس کے کمرے دن بھر کی گرمی جذب کر کے اب گرمی خارج کرنا شروع ہوگئے تھے، لہذہ کمپاؤنڈ میں دریاں بچھا کر بڑے کھانے کا انتظام کیا گیا، جس کے ساتھ ایک بڑی ایل ای ڈی فلیش لائیٹ لگا کر بظاہر روشنی کی گئی تھی مگر اس کے نتیجے میں باقی سارا جہان گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا ، اور ارد گرد کی خلق خدا نابینا ، نابینا سا محسوس کرنے لگی۔

Sunday, October 16, 2016

تاک بندر، اورمارہ ایڈونچر

تاک بندر کیمپ سائیٹ

سالانہ فیملی ٹرپ کئی ماہ سے لڑھکتا آگے کھسکتا جارہا تھا، عید پر بننے والا پروگرام ٹلتے ٹلتے بقر عید پر پہنچا۔ بقر عید پر گورکھ ہلز یا تھر پارکر جانے کا سوچا لیکن موسم چیک کرنے پر پتا چلا کہ درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر رہے گا، بچوں کے ساتھ اتنی گرمی میں سفر نامناسب ہے ۔ پھر کنڈ ملیر ہی دھیان میں آتا ہے ۔ لیکن کنڈ ملیر اتنی بار جاچکے ہیں کہ اب دل کرتا ہے کہ کوئی نئی جگہ ایکسپلور کی جائے۔