Saturday, August 26, 2017

تفریح کے بدلتے ہوئے صنفی رجحانات

بطور ایک مشرقی معاشرہ پاکستانی معاشرے میں صنفی تقسیم کار اب بھی بہت واضح ہے، خواتین کا کام گھر سنبھالنا ہے اور مردوں کا کام معاشی بوجھ اٹھانا۔ تبدیلی آرہی ہے مگر بہت دھیرے دھیرے۔ شہروں میں یہ تبدیلی نسبتاً تیز رفتار ہے۔ خواتین تعلیم، ہنر اور معاشی سرگرمیوں میں مردوں کے شانہ بشانہ نہ سہی ان سے بہت پیچھے بھی نہیں ہیں  بلکہ بعض میدانوں میں مردوں کو پیچھے بھی چھوڑ گئی ہیں۔
Photo Credit: Usama Ali

اسی صنفی "کردار نگاری" کے نتیجے میں "تفریح" ایک ایسا میدان کار زار ہے جس پر چند سال پہلے تک صرف مردوں کی اجارہ داری تھی۔اور ایڈونچر پر تو خالصتاً مردوں کا حق تھا۔ آبادی کی اکثریت میں ابھی بھی یہی رحجان ہے کہ تفریح خصوصاً گھر یا شہر سے دور تفریح پر مردوں کا ہی حق سمجھا جاتا تھا اور خواتین گھروں تک یا اپنے شہر کے تفریحی مقامات تک محدود رہتی تھیں۔

چند سال قبل تک شہری علاقوں میں بھی خواتین کی تفریح صرف خاندان کے ساتھ ساحل سمندر پر جانا یا کسی فارم ہاوس پر جا کر دن گزارنے تک محدود ہوتی تھی۔ جس میں ان پر روزمرہ سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ پڑجاتا تھا، پہلے پکنک کی تیاری، جس میں کھانے پکانے کا حصہ زیادہ ہوتا تھا، پھر پکنک پر ہر چیز اور ہر فرد کا خیال کرنا اور پھر آخر میں گھر واپس آکر ہر شے کو دھو دھا کراسکے  ٹھکانے پر پہنچانا۔ 

اب شہری علاقوں میں یہ رحجانات تبدیل کی طرف مائل ہیں۔ اب خواتین جن میں طالبات اور  ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ گھریلو خواتین بھی شامل ہیں، فیملی تفریح سے ہٹ کر انفرادی تفریح سے لطف اندوز ہونے لگی ہیں۔ ورکنگ ویمن کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ گھریلو خواتین کے مقابلے میں معاشی طور پر خود مختار ہوتی ہیں، اپناخرچ خود اٹھا سکتی ہیں اور گھر سے باہر نکلنے کے باعث ان کے پاوں آزاد ہوتے ہیں اس لیے وہ تفریح کے لیے جا سکتی ہیں۔ 

نوجوان لڑکیوں کا گھر سے اکیلے تفریح کے لیے جانا خاصا معیوب سمجھا جاتا تھا اور اکثر گھرانوں میں اب بھی سمجھا جاتا ہے، خاص کر مخلوط گروپس میں۔  چند سال قبل تک زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ کسی "آزاد خیال" گھرانے کی طالبہ نے دور طالبعلمی میں کالج یا یونی ورسٹی کے ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد اور مری کا ایک چکر لگا لیا اور اسے آل پاکستان ٹور کا نام دے کر خوش ہو لیے۔ اکثر طالبات کو اس کی بھی اجازت نہیں ملتی تھی۔

پر اب نوجوان بچیاں اپنے خاندان کے اعتماد کے ساتھ گھروں سے تفریح کے لیے نکل رہی ہیں اور ہمت و حوصلے کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ مشکل ترین ٹریکس، درے، گلئشیرز عبور اورپہاڑوں کی چوٹیاں سر کر رہی ہیں۔ ہیوی بائکس پر موٹر سائیکل ٹورز کر رہی ہیں۔ یہ ایک صحت مند رحجان ہے۔ جس سے نئی نسل کی خود اعتمادی اور ان پر ان کے خاندان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، یہی نوجوان خواتین آگے چل کر اپنے پیچھے آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنیں گی۔

پاکستانی معاشرے میں گھریلو خواتین خاص کر وہ خواتین جو اپنی اولاد کی شادی سے فارغ ہوچکی ہوں ان کا روایتی کردار گھر بیٹھ کر اپنے بچوں کے بچے پالنا، ان سے کھیلنا اور ان کا خیال رکھنا ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب ان میں سے کچھ باہمت خواتین نے "سیکنڈ اننگز" کا آغاز کردیا ہے اوروہ بھی اب  نہ صرف تنہا گھروں سے نکل کر اپنے حلقہ احباب کے ساتھ شہروں سے دور  بلکہ دشوار گزار مقامات کی سیربلکہ ایڈونچرز پر جانے لگی ہیں۔  جہاں وہ گھریلو اور گھر والوں کی ذمہ داریوں سے آزاد صرف اور صرف اپنے دوستوں کے درمیان بھرپور تفریح، مشکل ٹریکس، اور خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔

میں ذاتی طور پر کم از کم ایسی تین خواتین کو جانتی ہوں جو ماشاء اللہ کئی بچوں کی نانی دادی ہیں، سال کے 365 دنوں میں سے 350 دن   وہ اپنے خاندان اور بچوں کو دیتی ہیں اور اپنی خاندانی و گھریلو ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں لیکن سال کے 15 دن وہ اپنی زندگی جیتی ہیں، ٹریکس پر جاتی ہیں، شوخ رنگ پہنتی ہیں، سرخ لپ اسٹک لگاتی ہیں، (جو ہم نے نانیوں دادیوں کو بزرگ قرار دے کر ان پر حرام کر دئے ہیں) گانے گاتی ہیں، کوئی منظر پسند آجائے تو سرور میں آکر کبھی کبھی تھوڑا سا جھوم بھی لیتی ہیں، ساتھ ہی  درے کراس کرتی ہیں، گلیشئیروں پر برفاب نالے پھلانگتی ہیں، ٹریکنگ کرتی ہیں اور حیرتوں کے نئے جہان آباد کرتی ہیں۔

 ابھی ہمارے حالیہ رش لیک ٹور پرایک  62 سالہ اسمارٹ خاتون ہم سے آگے آگے دوڑی جاتی تھیں اور ہم ان کی شرموں شرمی ان کے نقش کف پا ڈھونڈتے ہانپتے کانپتے دوڑے جاتے تھے۔ یاد رہے کہ رش لیک پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے جو سطح سمندر سے 5098 میٹر( تقریباً 16725 فیٹ بلند) بلند ہے اوررش لیک ٹریک مشکل ترین ٹریکس میں شمار ہوتا ہے۔ خواتین صرف ٹریکنگ ہی نہیں، اسنارکلنگ، اسکوبا ڈائیونگ، کلف جمپنگ، جیٹ اسکیئنگ، راک کلائمبنگ، ریپلنگ جیسے کھیلوں اور ٹیکنیکس میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے رہی ہیں۔

تبدیلی صرف خواتین میں ہی نہیں آرہی ہے، یہ تبدیلیاں عکاس ہیں کہ ہمارے خاندان اور انکی سوچ تبدیل ہورہی ہے۔ اورخاندانوں کے سربراہ اب خواتین کو سانس لینے والی مخلق سمجھنے لگے ہیں اور انہیں بھی سانس لینے اور اپنی زندگی میں رنگ بھرنے کی اجازت یا آزادی دینے لگے ہیں۔( اجازت والا معاملہ بھی قابل  اعتراض و ڈسکشن ہے لیکن پھر کبھی سہی)۔ جی ہاں چند فیصد ہی سہی لیکن تبدیلی مردوں میں بھی آ رہی ہے۔ اب کم تعداد میں ہی لیکن مرد اپنے ساتھ دور دراز اور مشکل  تفریحات میں خاندان یا بیوی بچوں کو شریک کرنے لگے ہیں۔

ایک صاحب ہیں جو کسی بھی تفریح پر اپنی بیوی کے بغیر نہیں جاتے خواہ وہ تفریح پاکستان کے اندر ہو یا پاکستان سے باہر۔ جائیں گے تو بیوی بچوں سمیت، ورنہ نہیں۔ ایک اور صاحب ہیں جو موٹر سائیکل پر اپنی بیگم اور بچوں کو پورا شمالی پاکستان دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور یاد رہے کہ ان دونوں صاحبان کی زوجہ محترمائیں شرعی پردہ فرماتی ہیں۔ لیکن وہ اسے جواز بنا کر انہیں تفریح سے محروم نہیں رکھتے۔ ایک اور صاحب ہیں جو اپنی بیگم صاحبہ کو نہ صرف ہر ٹریک پر لے جاتے ہیں بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹریک پر بیگم صاحبہ ہر وہ گوشہ، ٹیلہ، نالہ تجربہ کر لیں جس سے خود ان کا گزر ہوا ہے۔

اب خواتین بھی یہ کہہ سکتی ہیں کہ

دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے 
پس نوشت:

جہاں لڑکیوں اور خواتین میں تفریحات کے رحجان میں مثبت تبدیلی آئی ہے وہاں اس بات کا بھی خیال رہے کہ یہ آغاز ہے، اور اگران بچیوں اور خواتین نے اچھی مثالیں قائم کیں تو یہ مزید بچیوں اور خواتین کے لیے مشعل راہ بس سکتی ہیں اور ان کی معمولی سی غلطی یا  بے احتیاطی ان کے پیچھے آنے والی دیگر خواتین کے راستے بند کرسکتی ہے۔

👩🌈👩🌊👩🌋👩🌃👩🌄👩🌅👩


یہ آرٹیکل  مورخہ26 اگست 2017 کو دلیل ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔

پاکستان میں سیاحت کا جائزہ

جنوبی پاکستان کے سیاحتی مقامات کے بارے میں جانئے ۔ ۔ ۔

مولہ چٹوک، کنڈ ملیر، شہر غاراں [گوندرانی/ ماہی پیر]، استولہ آئی لینڈ