"آپ سسرال جا رہی ہیں" برابر سے آواز آئی۔
ٹرین کی ہم سفر متجسس تھیں کہ 'اکیلی' لڑکی آخر کہاں جارہی ہے۔ ہم نے اس اچانک حملے پر کتاب سے منہ اٹھایا، ایک غائب دماغ قسم کی نظر ان پر ڈالی، دماغ کو سوتے سے جگایا اور جواب دیا۔ " جی جی اپنے گھر ہی جا رہی ہوں" اسکے بعد سوالوں کی لائن لگ گئی ، بچے کتنے ہیں، میاں کیا کرتے ہیں۔ میکہ کہاں ہے، سسرال کہاں ہے۔ ہماری اپنی ذات کی تو گویا کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ ساری اہمیت متعلقہ معلومات کی تھی۔
ہم نے اپنے جھوٹ کو مزید تقویت پہنچائی اور اسی وقت طے کر لیا کہ آج سے ہم ایک شادی شدہ خاتون ہیں، جس کے دو بچے ہیں، اورجو اپنے سسرال یا میکے جارہی ہے، اور وہ میکہ یا سسرال وہیں ہے جہاں بھی یہ ٹرین جارہی ہے، بس ۔ کیونکہ غیر شادی شدہ لڑکی اگر اکیلی سفر کر رہی ہے تو وہ یقیناً آوارہ ہے۔ یا کم از کم مشکوک تو ہے۔
اور اگر غیر شادی شدہ ہونے کا پتا لگ جائے تو الگ تبصرے اور مشورے، جن کی ہمیں کوئی ضرورت نہ بھی ہو تب بھی ملیں گے ضرور۔ سو اب کوئی اگر بچوں کے بارے میں پوچھتا ہے تو ہم بہت ڈھٹائی اور وثوق کے ساتھ دو بچے بتا دیتے ہیں، جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم "ویلے" نہیں ہیں۔ اکثر تو ہم جواب میں "پہلی اور اکلوتی ملاقات میں اتنے پرسنل سوال کی اجازت نہیں ہے" کہہ دیتے ہیں۔ ایسے میں سوالی خاتون کا رنگ دیکھنے کا ہوتا ہے، اور ہمیں سمجھ بھی نہیں آتی کہ آخر ہم انہیں یہ سب کیوں بتائیں جب ہم نے زندگی میں دوبارہ کبھی ملنا بھی نہیں۔
ہم ایک متجسس قوم ہیں، ہم ہر شخص کے بارے میں متجسس و فکر مند رہتے ہیں، کہ وہ کون ہے، کیا کرتاہے، پہلے کیا کرتا تھا، کیوں کرتا تھا یا ہے۔ اور کیا کر رہا ہے۔ اور ہر شخص کے بارے میں کن سوئیاں لینے کی فکر میں رہتے ہیں، اگر سامنے والے سے خود نہیں پوچھ سکتے تو دوسروں سے اس کے بارے میں دریافت کرتے رہتے ہیں۔ خواہ ہمارا تعلق اگلے سے مستقل ہو یا عارضی ، ہم اسکے بارے میں سب کچھ جان لینا چاہتے ہیں۔ خواہ اسکا ہمیں ککھ فائدہ نہ ہو۔
صرف یہی نہیں بلکہ اکثر عارضی ہم سفر آپ کو اپنی پوری زندگی کی کہانی بغیر پوچھے ہی بتا دیں گے، کہاں سے آرہے ہیں، کہاں جارہے ہیں، اپنی پیدائش سے لے کر شادی، بچے، والدین، سسرال، کزنز ہر ایک کی تفصیل اتنی مفصل سنائیں گے کہ آپ بور ہوجائیں گے، آپ چاہیں کتاب میں منہ دے لیں، باہر دیکھنے لگیں، موضوع تبدیل کرنے کی ناکام کوششیں کر لیں پر انہوں نے آپ کی ایک نہیں سننی ، اپنی ہی سنانی ہے۔
ایک بار لوکل بس میں سفر کے دوران ایک خاتون کو ہم نے ٹھیک سے ڈرا دیا جو ایسی ہی معلومات کے دریا بہا رہی تھیں کہ وہ کہاں رہتی ہیں، کتنے بچے ہیں، بچوں کے ابا کیا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے ان خاتون کو گھورا اور کہا کہ یہ جو بھری بس میں آپ معلومات کے دریا بہا رہی ہیں ان معلومات کی بنا پر اسی بس میں سے کسی کی نیت خراب ہوگئی اور وہ آپ کے گھر ڈاکہ ڈالنے آگیا تو۔ان دنوں کراچی کے حالات بھی نا مناسب سے تھے۔ بس پھر بریک لگ گئی انہیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے ایمرجنسی بریک ہی استعمال کیے ہونگے کہ ایسی عادتیں اتنی آسانی سے کہاں چھوٹتی ہیں۔
آپس کی بات ہے کچھ عرصہ پہلے تک ہم خود بھی یہی حرکتیں کرتے تھے، اب بھی کبھی کبھی کر لیتے ہیں۔ لیکن اب اگر ہم کسی سے زیادہ کن سوئیاں لینے لگیں تو خود سے ایک دو سوال کرلیتے ہیں کہ اس "تحقیق" کا ہمیں کوئی "فائدہ" بھی ہوگا یا تحقیق نہ کرنے سے کوئی شدید قسم کا نقصان ہونے جا رہا ہے۔ یا یہ سوال کیے بغیر کیا ہماری روٹی ہضم نہیں ہورہی۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے پرسنل سوال کئے بغیر ہماری روٹی بھی ہضم ہوجاتی ہے اور ہماری صحت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا لہذہ ہم "سانوں کیہہ" کہہ کر اگے بڑھ جاتے ہیں۔ آپ بھی ٹرائی کر کے دیکھئیے، خاصہ افاقہ ہوگا۔
💬 🙅 💭 📢 💬 📣 💭