Wednesday, December 21, 2016

کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی

کوہِ حنیف مڈ والکینو مہم 


ایک معصوم سا پہاڑ: دور کے ڈھول سہانے
پکچر کریڈٹ: محمد حنیف بھٹی صاحب

کہتے ہیں کہ ایک کوہ نورد یا ایک ٹریکر پر ہر ٹریک کے دوران تین مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ابتداء میں پرجوش یا ایکسائٹمنٹ، درمیان میں پچھتاوا یا ریگریٹ اور تیسری پھر سے کسی اور نئی مہم کے لیے تیاری۔ ہم اس وقت دوسرے مرحلے سے گزر رہے تھے۔ یعنی پچھتاوا۔ بھلا ہمیں کس نے کہا تھا کہ جان بوجھ کر جان جوکھم میں ڈالیں۔ 

یہ سارا کھڑاگ شروع جانے کہاں سے ہوا۔ ہم تو صرف ایک ہی مڈ والکینو سے واقف تھے "چندر گپ" جو ہنگول نیشنل پارک میں واقع ہے اور بر صغیر کے ہندووں کا اہم مذہبی مقام ہونے کے باعث کافی مشہور ہے۔  ہم کنڈ ملیر اور ہنگول اتنی بار جا چکے ہیں کہ اب ہمیں لگتا ہے کہ ہنگول جا کر تو پیسے ہی برباد ہوتے ہیں اس لیے ستاروں سے آگے اور جہاں ڈھونڈے جائیں ۔ اور کیونکہ ہم بلوچستان کے لینڈ اسکیپ، پہاڑ اسکیپ، ویران اسکیپ  اور ہر قسم کے فل اسکیپ کے شدید قسم کے شیدائی ہیں تو ہم بلوچستان سے متعلق فیس بک پر موجود ہر پیج کو لائک کیے جاتے ہیں۔ ہر گروپ میں گھس جاتے ہیں اور کہیں کہیں سے تو متواتر نکالے بھی جاتے ہیں لیکن کوشش پیہم کئے جاتے ہیں۔ اسی چکر میں ہم فیس بک پر پھرتے پھراتے ایک  Mud Volcano Explorations  نام کے گروپ میں داخل ہوگئے۔ 

داخل کیا ہوگئے ہماری تو آنکھیں حیرت سے چندھیا گئیں کہ ہیں ، ، ،  بلوچستان میں اتنے سارے ایکٹیو مڈ والکینو ہیں۔ یہ گروپ دراصل مڈ والکینو دریافت کرنے والے دوستوں کے ایک شوقین مگر سنجیدہ گروپ پر مشتمل ہے جو سندھ و بلوچستان کے ساحلی علاقوں پر واقع مڈ والکینوز دریافت کرتے ہیں ، ان کی ریکی کرتے ہیں، ان تک پہنچنے کے ٹریکس دریافت کرتے ہیں یا ان تک جانے کے راستے طے کرتے ہیں اور پھر ان کی جیوگرافک میپنگ کر کے انہیں گوگل میپس پر مارک اور اپ لوڈ کرتے ہیں۔  یہ لوگ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں  اب تک 90 سے زائد ایکٹیو مڈ والکینوز دریافت اور میپ کرچکے ہیں۔

گروپ میں جیسے ہی ایک نئے دریافت شدہ مڈ والکینو پر چڑھائی کا پروگرام بننا شروع ہوا، ہم نے اس میں اپنی ٹانگ اڑانی شروع کردی۔ اس سے پہلے ہم ایک ٹریکرز میٹ اپ میں ایک نوجوان سے ماونٹ مہدی کے بارے میں سن کر بہت مرعوب ہوچکے وے تھے کہ اس نے پاکستان کا سب سے اونچا مڈ والکینو ماونٹ مہدی بھی سر کیا ہوا ہے۔ ہم نے کتنی حسرت اور مرعوبیت سے اسے دیکھا تھا اس وقت۔

خاک نشیناں ہونے سے پہلے
تصویر : نسرین غوری

منہ اندھیرے مکران کوسٹل ہائی وے سے دائیں پھر ہوکے منہ ول والکینو شریف کر لیا اور سورج نکلنے کا انتظار کرنے لگے، کیونکہ ہمیں اب پکی سڑک چھوڑ کر آف روڈ ہوجانا تھا۔ اور اس آف روڈ یا نا روڈ کو تلاش کرنے کے لیے امید کی کرن سورج سے ادھار لینی تھی۔ سورج کی روشنی ہوتے ہی "بحر خاک میں دوڑا دیں جیپیں ہم نے " ،  سارا ناشتہ اس رولر کوسٹر رائیڈ کی نظر کر کے  ہم دو خواتین سمیت پندرہ افراد کوہ حنیف کے بیس کیمپ پہنچے۔ اور بہت پرجوش تھے۔ ہمارے لیے سارے نئے چہرے جو  پہلے ایک ساتھ کئی والکینوز دریافت کر چکے تھے اور راستے بھر ان ہی کی باتیں کرتے اور ہمیں مرعوب کرتے آئے تھے۔ درمیان میں ہم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جہاں جہاں ممکن ہوا اپنی سابقہ مہمات کی شو مار دی تھی۔ 

کوہ حنیف بیس کیمپ
تصویر: نسرین غوری

زادِ راہ کی خورد برد سے ذرا پہلے
تصویر: نسرین غوری

اب ہم سارے ٹریکنگ کی ابتدائی کیفیت یعنی ایکسائٹمنٹ سے بھر پور کوہ حنیف کے بیس کیمپ پر کھڑے زادِ راہ کی تقسیم اور خورد برد میں مشغول تھے۔ یہاں سے والکینو کا مڈ گلیشئر بہت ہی معصوم نظر آتا تھا۔ اور پہاڑ کا اختتامی رج بھی قریب ہی دکھائی دیتا تھا۔  موسم بھی خاصا سہانا تھا۔ سورج ابھی مائل بہ کرم تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اور گروپ میں ہمارے اور ایک اور نووارد کے علاوہ باقی ساری ٹیم تجربہ کار تھی۔ لہذہ ہم اپنی معصومیت یا بے خبری میں کچھ زیادہ ہی پرجوش تھے۔ ویسے بھی بے وقوفی اور بہادری دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔ نووارد کے بقول

باقی نہ رہے ساکھ ادا دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشہء انجام ہی آئے

کوہ حنیف مڈ والکینو یا کوہ حنیف مٹی فشاں کراچی سے گوادر جاتے ہوئے مکران کوسٹل ہائی وے پر دائیں جانب تقریباً 180 کلو میٹر کے فاصلے پرہنگول نیشنل پارک میں پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ اسکی اونچائی 1500 فٹ سے زیادہ ہے اور اسکا مڈ گلیشئر تقریباً تین کلو میٹر لمبا ہے۔ اس پہاڑ کو پاکستان کے ممتاز سیاح اور فوٹو گرافر محمد حنیف بھٹی/ (Pak Wheels) کے  نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اس پہاڑ اور مڈ والکینو کی تصویر کشی کی، بعد ازاں محمد مہدی حسین کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم  نے اس پر ایک مٹی فشاں دریافت کیا، جس پر آج پہلی باقاعدہ ٹیم والکینو سر کرنے جارہی تھی۔  اور ہم اس ٹیم کا ایک حصہ تھے۔

مڈ گلیشئر کا ایک خلاء بوس حصہ
تصویر: نسرین غوری

دو اور تین کے گروپس میں ٹیم کے ارکان نے مڈ گلیشئر پر چڑھائی شروع کی۔ ہم بھی چل پڑے۔ اور کلے ہی چل پڑے ۔ ہمارے علاوہ ایک نووارد تھا جو سب سے پہلی بار مل رہا تھا۔ اور پہلی بار ہی ہنگول کی سائیڈ آیا تھا اور وہ بھی ایسی انجان مہم پر۔ یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے کوئی پہلی بار پاکستان کے شمالی علاقے دیکھنے نکلے اور بے خبری میں کنکورڈیا کی مہم  جوائن کر بیٹھے۔ اس طرح ہم دو نووردان کی ٹیم خود بخود بن گئی۔ کچھ لوگ ہمارے پیچھے تھے اور کچھ ہم سے آگے۔ پیچھے والوں میں سے ایک آدھ ہم سے آگے نکل گیا۔ یا ہم اس سے پیچھے رہ گئے۔ آگے والے بہت آگے چلے گئے، پیچھے والے بہت پیچھے ، اور درمیان میں ہم ۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
تصویر: نسرین غوری

مڈ گلیشئر ایک بہت وسیع خلاء پر موجود جہازی سائز کے فوم نما نیٹ ورک پر مشتمل تھا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے جن کا نچلا سرا نظر نہ آتا تھا۔  مڈ برجز کا ایک جال سمجھ لیں جس کے نیچے ایک خلاء تھا۔ کہیں کہیں سے یہ نیٹ ورک موسم کی زیادتیوں کے باعث زمین بوس بلکہ خلاء بوس ہوچکا تھا اور گہری کھائیاں وجود میں آچکی تھیں۔ چلتے چلتے اچانک پتا چلتا کہ جس برج پر ہم چل رہے ہیں اس کے نیچے تو ایک دم سے کھائی آگئی ہے۔ پھر ایک دم پیچھے والے برج پر منتقل ہوجاتے اوردل میں طے کرتے کہ اب دھیان سے چلنا ہے۔ اور دھیان سارا پیروں کے آس پاس ہی رہا کیونکہ ایک مستقل سوراخ دار نیٹ ورک پر چلنے میں ہر دم یہ خدشہ کہ کہیں پیر پھسل ہی نہ جائے اور پیروں سے ٹکرا کر جو پتھر کنکر پراسرار قسم کی آوازیں نکالتے ان کھائیوں میں خود کشی کرنے روانہ ہوتے وہ مزید دل دہلانے کا باعث بنتیں۔ اور یہی وہ درمیانی مرحلہ تھا پچھتاوے والا ، کہ کس نے کہا تھا  ۔ ۔ ۔ کہتا کون ، یہ تو سب کے دماغ میں خود ہی کیڑا کلبلاتا ہے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد کہ

وحشی کو سکون سے کیا مطلب
جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

جی یہی ٹریک ہے ، اندازہ کریں
تصویر: نسرین غوری

قصہ مختصر ہم دونوں مل کرٹھکانہ یعنی  راستہ بھٹک گئے۔ اور وہی صبح والا معصوم سا مڈ گلیشئیر اب اپنی اوقات دکھانے اور ہماری بتانے پر اتر آیا۔ ہم اندازوں سے کبھی دائیں پھر جاتے، پھر وہاں سے منہ کی کھا کے بائیں جانب رخ کرلیتے۔ اس پر سے ہمارا پانی ختم ہونے پر آگیا۔ اب ہمیں راستے سے زیادہ پانی کی فکر کہ کہیں ہم ڈی ہائیڈریٹ ہو کر فوت شد نہ ہوجائیں۔ کون ان بھول بھلیوں سے ہماری لاش چکنے آئے گا۔ جہاں سے اپنا بوجھ ہی نہیں ڈھویا جاسکتا، وہاں ہمیں کاندھا کون دے گا اور کاندھے کی باری تو تب آئے گی جب کسی کو پتا چلے گا کہ ہم کہاں فوت ہوئے ہیں۔ پھر ہم نے طے کیا کہ ہمیں ہر صورت پہاڑ کا کریسٹ عبور کرنا چاہیے تب ہی ہمیں کوئی دوسرا ذی روح دکھائی دینے کے امکانات ہیں۔

ہم بھٹکتے ہیں، کیوں بھٹکتے ہیں، دشت و صحرا میں
تصویر: نسرین غوری 

ہم تو ایک ٹبّے پر تشریف فرما ہوگئے اور نووارد کو اذن روانی عطا کیا کہ جاو دیکھو کوئی اللہ کا بندہ ہے جو ہمیں پانی پلاسکے۔ اسے کریسٹ کے پار پورا گروپ ہی مل گیا جو مڈ والکینو کے وینٹ یا دہانے سے ہو کر واپس آرہاتھا۔ ان سے لے کر پانی کی دو بوتلیں ایک ساتھ اندر انڈیلیں۔ جان میں جان آئی۔  وہ سارے کسی اور راستے سے دہانے تک پہنچے تھے اور اب واپس جارہے تھے، اور انکا اصرار تھا کہ ہم بھی یہیں سے واپس چلیں۔ ہم نے تو صاف انکار کردیا کہ اتنی مشکلات اٹھا کر یہاں تک آئے ہیں بغیر ہاتھ لگائے تو واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  سوچی وی ناں 

ہمارے خیالات جان کر اولین فاتحین میں سے ایک صاحب ہمیں والکینو کے دہانے تک پہنچانے پر تیار ہوگئے۔ اب سب سے آگے وہ، ان کے بعد نووارد اور سب سے پیچھے ہم دہانے کی جانب روانہ ہوئے، دہانہ ہم تینوں کی ترتیب و رفتار سے بالترتیب 15، 30 اور 45 منٹ کی واک پر تھا۔ اور یہ کوئی کیک واک نہیں بلکہ کیٹ واک تھی۔ بلی کی طرح چوکنا رہ کر کی جانے والی واک۔ گو کہ ہمارے ساتھی ہم سے کہیں آگے نکل چکے تھے۔ لیکن ہم اپنی بے ڈھنگی رفتار سے ہی چلتے رہے اور فیری میڈوز ٹریکنگ کے تجربے کے پیش نظر ان سے ریس لگانے کی ہرگز ٹرائی نہیں کی۔ کہیں کہیں ہم اپنے خاتون ہونے کا بھرپوراور ناجائز حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور یہ ان مواقع میں سے ایک بہترین موقع تھا۔ آخر دو حضرات نے کلی خاتون کو کونسا اکیلے چھوڑ جانا تھا۔ 😉😋

مٹی فشاں کے چند دہانوں میں سے ایک
تصویر: نسرین غوری 

جب ہم دہانے پر پہنچے تو دونوں حضرات اطمینان سے بیٹھے تھے۔ ایک دوسرے کی اور دہانے کی تصاویر کھینچ کر ہم اسی ترتیب و رفتار سے واپس چل پڑے ۔ اور چاچا جی کے بقول چڑھائی فٹے منہ اور اترائی در فٹے منہ۔ گو کہ اب ہمارے ساتھ ایک تجربہ کار ٹریکر تھے ، لیکن یہ اترائی تو  دو بار در فٹے منہ تھی بلکہ در "پھٹے" منہ  ہی سمجھیں  ۔ ہم کیسے اترے ہیں بس ویسے ہی جیسے کوئی جہان سے گزرتا ہے ہم بھی وہاں سے گزر آئے۔ کیسے آئے ہیں ہم ہی جانتے ہیں۔ پچھتاوے والا مرحلہ دو تین سے ملٹی پلائی ہوگیا تھا لیکن ہم نے کونسا باز آجانا ہے۔

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

واپسی پر ہمارا کچھ کچھ شاندار قسم کا استقبال ہوا۔ ٹریک آپ نے کیسے ہی کیا ہو، کیا تو آپ نے ہی ہے ناں۔ یہی کاونٹ ہوتا ہے۔ تو ہم نے بھی کوہِ حنیف مڈ والکینو مہم سر کر لی ہے اور ایک کامیاب ٹریکر ٹھہرے ہیں۔ ہاں ۔ بعد ازاں ہم مہم کی اولین اور اکلوتی خاتون ٹھہرے جس نے کوہ حنیف کی چوٹی پر قدم رنجہ فرمایا ، اور یہ خود اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے ہمارے لیے۔

اور یہ تھی ہماری اوقات اس جہان حیرت میں
پکچر کریڈٹ: محمد حنیف بھٹی صاحب

کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
"کجھ دل  وچ شوق دی ہوک وی سی"
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی

(منیر نیازی سے معذرت کے ساتھ)

🌋🌋🌋🌋🌋🌋🌋🌋🌋🌋🌋
پی ایس:

مہم کی جو دو تین باتین ہمیں متاثر کر گئیں ان میں سے ایک سب سے اہم بات کہ ایک بھی پانی کی خالی بوتل، بسکٹ کا ریپر، جوس کا خالی ڈبہ  تک  وہاں نہیں پھینکا گیا۔ دوسری اہم بات: ہر قسم کے میوزک سے قطعی پرہیز۔ تیسری بات: ہم نہیں بتا رہے بٹ آئی لائیک اٹ ویری مچ