Wednesday, January 4, 2017

ان سنگ ہیروز اور ہیروئن ز

بہن نے چائے بنائی ، موڈ نہیں تھا ، انکار کردیا۔ بھئی پوچھ کر بنانی چاہیے تھی ناں

حسن نے مستقل "پھپھو میرے ساتھ کھیلو پلیج" کی رٹ لگائی ہوئی تھی۔ ہم فیس بک پر دوستوں کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے۔ اسے کہا پھپھو "کام " کر رہی ہیں۔ آپ جاو ممی کے پاس۔ وہ مایوس ہوکر "بھائی گچھہ [غصہ] آرا ہے" کہہ کر منہ بسور کر چل دیا۔

ابو نے کہا کہ چائے بنا کر مس کال کردینا۔ چائے بنائی اور اسکے بعد موبائل میں منہ ڈال کر بیٹھ گئے۔ ابو انتظار ہی کرتے رہے مس کال کا۔

فاطمہ اوپر سے دو بار نیچے آئی، پھپھو کا منہ موبائل میں ہی تھا۔ فائنلی کہہ گئی کہ پھپھو تو موبائل میں ہی گھسی رہتی ہیں۔ 

یہ وہ قریبی رشتے ہیں جنہیں ہم منہ بولے دوستوں یعنی سوشل میڈیائی دوستوں کے لیے نظر انداز کرتے ہیں ۔ صرف نظر انداز ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں فار گرانٹڈ لیتے ہیں ۔ ان کے احساسات و جذبات کا خیال ہی نہیں آتا ہمیں ۔ ان کے کیے کسی کام کا احسان نہیں مانتے اور جب احسان نہیں مانتے تو شکریہ کیوں ادا کریں۔ یہ ان سنگ ہیرو اور ہیرونز ہیں جو خاموشی سے اپنا فرض پورا کئے جاتے ہیں اور جواب میں ستائش یا شکریہ بھی نہیں ملتا ۔۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کے ارد گرد موجود ہیں۔ 

ہم اپنے ارد گرد رہنے والے افرادخاص کر خونی و قانونی رشتوں کو فور گرانٹڈ لیتے ہیں۔ جیسے وہ ہماری خدمت اطاعت اور ہمارے موڈ سوئنگز کو برداشت کرنے کے لیے ہی اس دنیا اور ہماری زندگی میں آئے ہوں۔

ان میں بہت سارے لوگ شامل ہیں ۔ سب سےپہلے تو آپ کے والدین خاص کر والدہ ۔ امیاں تو ہوتی ہی اس لیے ہیں کہ وہ ابو سے لے کر بچوں اورپھر پوتا پوتی ، نواسہ نواسی کے نخرے برداشت کریں۔ ابو گھر آئیں تو وہ اپنےدفتر کی ٹینشن امی پر اتاریں ،بہانہ کبھی چائے میں چینی کم ہونے کا تو کبھی سالن میں نمک زیادہ ہونے کا۔ کبھی ٹریفک جام کی اکتاہٹ، نارمل حالات میں بھی اگر گھر نک سک سے درست ہے یا کھانا بہت اچھا بنا ہے تو بھی تعریف کے دو بول بولنے سے اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ تعریف کے یہی دو بول شاید انکے لیے دنیا بھر کی دولت سے زیادہ ہوں۔

کسی محفل میں اگر دوسرے ان کے بچوں کی تربیت کی تعریف کردیں تو پھولے نہیں سمائیں گے لیکن کبھی اسکا کریڈٹ بیگم کو نہیں دیں گے۔ نہ ہی اس پر ان کا شکریہ ادا کریں گے۔ یہ تو انکا فرض تھا ، کونسا کمال کیا انہوں نے ، سب کی امیاں یہی تو کرتی ہیں۔ 

ابو کے بعد بچے بھی امیوں کو جی بھر کے استعمال بلکہ مس یوز کرتے ہیں۔

"یہ کیا پکا لیا"۔

" آپ تو روز ہی دال سبزی بنا لیتی ہیں"۔

"میں یہ نہیں کھاتا/کھاتی۔ مجھے انڈہ بنا کے دیں"۔

جس دن کھانا اچھا بنا ہوگا اس دن ایک کی جگہ چار روٹیاں آرام سے کھا جائیں گے یہ بھی کہہ دیں گے کہ کھانابہت مزے دارتھا لیکن کبھی شکریہ نہیں بولیں گے ۔ امیوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ وہ روز کھانا بنائیں آج بھی بنادیا۔ تو اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ 

کسی دوست سے ان بن ہوگئی تو کھانا نہیں کھانا، امی پر چلانا، چیزیں تک اٹھا کر پھینک دینا۔ پیپر اچھا نہیں ہوا، تکیے میں منہ دیکر پڑ جانا۔ اب امی بے چاری کی جان پر بنی ہے لیکن پرواہ کسے ہے، امیاں تو پریشان ہی ہوتی رہتی ہیں کبھی کسی بات پر کبھی کسی بات پر۔ کبھی پلٹ کر نہیں سوچا کہ اگر کھانا نہیں کھایا تو امی پر کیا گزرے گی۔ یہ اپنے بچے ہوجانے کے بعد سمجھ آتا ہے۔ یا پھر جب امیاں نہ رہیں تب 

اور تیسری نسل تو ٹھیک سے امیوں مطلب نانی دادی کو رگڑا لگاتی ہے۔ کیوں کہ اپنی امیوں کے پاس تو وقت ہوتا نہیں ، بس نانی یا دادی ہاتھ آجاتی ہیں اور انکو صبح سے شام تک اپنے ساتھ لگا کر رکھنا ، اور انہوں نے بھی خوشی خوشی لگے رہنا۔ 

یہ ان سنگ ہیرو یا ہیروئن آپ کی والدہ ہی نہیں کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔ آپ کی بہن، بھابھی یا آپ کی بیوی یا آپ کے بچے۔ آپ کا ابا یا شوہر بھی ۔

یہی وہ لوگ ہوتے ہیں ۔ جو ہم سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ جو ہماری ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں، جو ہماری ذرا سی توجہ کے منتظر رہتےہیں لیکن ہمیں تو ان کی طرف نظر کرنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی۔  ہم ان ہی کو سب سے زیادہ نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ رشتے ایسے ہیں کہ ان سے فرار ممکن نہیں، تو ہم یہی سوچ کر ان کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں فار گرانٹڈ لے رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے کہاں جانا ہے۔ یہیں رہنا ہے ، میرے ساتھ ، میرے پاس۔ 

دوسروں کی غلطیوں، گستاخیوں، بے وفائیوں اور نارسائیوں کا بدلہ ہم ان سے لے رہےہوتے ہیں ، ان کا غصہ ہم ان پر اتار رہے ہوتے ہیں جو ہم سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور انکے حصے کی محبت اور توجہ باہر بانٹ رہے ہوتےہیں۔ 

ذرا یہی سلوک کسی دوست کےساتھ کر کے تو دیکھیں ، ایک یا زیادہ سے زیادہ دو بار وہ یہ نخرے برداشت کرے گا اس کے بعد کہے گا "جہاں رہو خوش رہو، اپنے خرچے پہ" اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو ایک اضافی ان سنگ ہیرو یا ہیروئن دستیاب ہے۔ 

ایسا نہیں کہ ہم اپنے قریبی افراد سے محبت نہیں کرتے ۔ کرتے ہیں لیکن ان کی محبت کا احساس نہیں کرتے نہ ہی اپنی محبت کا احساس انہیں دلا پاتے ہیں۔ ساری بات احساس کی ہی ہوتی ہے۔ دوستوں سے معمولی غلطی یا غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی سوری کرلیں گے ۔۔ کیونکہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں یہ دوست ہمیں چھوڑ نہ دے لیکن کیونکہ گھروالے ہمیں چھوڑ کے کہیں نہیں جاسکتے، ناراض بھی ہونگے تو کچھ دیر یا کچھ دن بعد خود ہی من جائیں گے۔ یہی یقین ہمیں ان کی دل آزاری کا احساس نہیں ہونے دیتا، نہ ہی شکریہ یا معذرت کے الفاظ ہمارے لبوں پر آنے دیتا ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ ہماری محبت، توجہ احساس، شکریہ اور معذرت اور سب سے بڑھ کر ہمارے وقت کے حقدار یہی لوگ ہیں۔ 

سب سے اہم بات کہ ہم اپنی فیملی سے محبت کرتے ہیں لیکن اظہار کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ انہیں مادی سہولیات بہم پہنچا کر ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔ لیکن مادی اشیاء کے ساتھ ساتھ انہیں ہمارے وقت، ہمارے لمس اور الفاظ کی بھی  ضرورت ہوتی ہے۔  ہمارے روٹین سے ہٹ کر کچھ خاص کرنے کی اور انہیں خاص ہونے کا احساس دلانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

اس ضمن میں کچھ مضامین پچھلے دنوں نظر سے گزرے جن میں صحتمند فیملی لائف سے متعلق کچھ بہترین امورکا تذکرہ ہے۔ فیملی میں ہر شخص کی اپنی ہمیت ہے لیکن بچے سب سے اہم ہیں۔ خاص کر بڑھتے ہوئےبچوں سے محبت کا اظہار ضروری ہے۔  اور شوہر سے بھی۔ اکلوتی اور سگی بیوی کو بھی اسکے سگے ہونے کا احساس دلایا جاسکتا ہے۔


اب جس کے دل میں آئے وہ پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرراہ رکھ دیا

😍😍😍