Wednesday, January 25, 2017

چرس

چرس صرف ایک "چرس" ہی تو نہیں ہوتی۔ پتا نہیں کتنی ساری قسم کی چرسیں بندے کو زندگی کے مختلف ادوار میں خوار کرتی ہیں۔ ہم بھی پرانے چرسی ہیں۔ سب سے پہلی چرس جو یاد ہے وہ چند صفحات پر مشتمل مختصر سائز کی ٹارزن کی کہانیاں اور عمران سیریز تھیں۔ نیا نیا پڑھنا آیا تھا ، محلے کے لڑکوں سے لے لے کر خوب پڑھے ،عمران سیریز پڑھتے ہوئے تو ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ اس دور کی لڑکیاں پتا نہیں کیا کرتی تھیں۔ ہماری لڑکیوں سے کبھی نہیں بنی۔

اسکول کے زمانے میں ڈائجسٹ پڑھنے کی لت پڑی۔ ایک رشتہ دار خاتون نے اپنی ساری ردی ناولز اور ڈائجسٹوں کا خزانہ ایک بوری بھر کر ہمارے گھر بھجوادیا تھا۔ اور ہم تعلیم و تربیت اور نونہال سے ڈائرکٹ رومانی ناولز اور ڈائجسٹی افسانوں پر لینڈ کرگئے۔ پہلے اپنا اسٹاک ختم کیا پھر ایک محلے کی بھابھی ہوتی تھیں۔ ان سے لین دین شروع کیا، اپنے ڈائجسٹ اور ناول انکو پڑھائے اور انکے خود پڑھے۔ اس زمانے میں لالٹین کی روشنی میں رات دیر تک ڈائجسٹ پڑھ پڑھ کر آنکھیں دکھ جاتیں لیکن چھٹتی نہیں تھی آنکھوں سے لگی ہوئی۔ پڑھنے کی لت ہمیں ان ہی ڈائجسٹوں اور ناولوں سے لگی تھی۔

پھر وی سی آر آگیا۔ ایک ایک رات میں چار چار فلموں کو نپٹایا جاتا۔ شہر کے حالات خراب تھے، افواہیں بھی خوب چلتیں۔ "جی آج رات پٹھان اورنگی ٹاون پر حملہ کرنے والے ہیں" چلو جی رت جگا کرنا ہے سو وی سی آر پر موویز لگادیں اور محلے بھر میں لیڈ یں پھیلا دیں۔ رت جگا بھی، انٹرٹینمٹ بھی اور حفاظت بھی۔ اگر کبھی کوئی لیڈ لینے کے بارے میں پوچھتا اور امی یا ابو منع کردیتے تو بس لگتا تھا کہ جیسے انہوں نے چرس کی ڈوز روک لی ہے۔ ہائے کون سی موویز لگا رہے ہیں۔ ہم کہیں محروم نہ رہ جائیں۔

پھر انٹر کے دور میں این ٹی ایم پر اردو اور انگریزی موویز کی چرس کے ہتھے چڑھ گئے۔ ہماری نسل کے لوگ پی ٹی وی کی سنسر پالیسی کے باعث فلموں کے بھوکے ہوتے تھے۔ وی سی آر کی مقبولیت کی بھی یہی وجہ تھی کہ پہلے پی ٹی وی جو بھولے بھٹکے رات گئے ایک آدھ فلم دکھا دیا کرتا تھا اب وہ بھی قصہ پارینہ ہوچکی تھی۔ وہ سی آر پر تو پھر بھی پیسے اور محنت لگتی تھی۔ این ٹی ایم نے تو موجیں ہی کروادیں۔ ایک دن پاکستانی اور دوسرے دن انگریزی کلاسک۔ واہ جی واہ۔ سارے کام نو بجے سے پہلے نمٹا کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے۔ ہمیں پاکستانی موویز کی چرس لگانے کا کریڈٹ این ٹی ایم کو ہی جاتا ہے۔ نتیجہ انٹر میں دو پرچوں میں فیل۔ ابا سے خوب ڈانٹ پڑی۔

اسکے بعد ایک نئی چرس مارکیٹ میں آئی ایف ایم ریڈیو کی۔ خاص کر ایف ایم 100 جس نے ریڈیو کی نشریات میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ نت نئی آوازیں، نت نئے پروگرام اور سب سے بڑھ کر فون اِن کی سہولت۔ دوران پروگرام فون کیجے اور اپنی آواز سنیے ، دوستوں کو بھی سنائیے اور خوب شوئیاں ماریے۔ فون تو اس زمانے میں تھا ہی نہیں ۔۔ لیکن پروگرام کیا کم تھے۔ صبح آٹھ بجے سے جو ریڈیو بجنا شروع ہوتا ، رات گئے تک بجتا ہی رہتا۔ کسی بھی ڈے جے / آر جے کا پروگرام چھوٹ جاتا کسی وجہ سے ، تو بس چرس کی ڈوز میں کمی ہوجاتی۔

 اور پھر ساری چرسوں کی اماں جان آگئیں مارکیٹ میں۔ یعنی کہ سوشل میڈیا خاص کر فیس بک۔ انہوں نے ساری چرسوں سے جان چھڑا کر اپنی طرف لگا لیا۔ جب تک فیس بک کمپیوٹر تک محدود تھی غنیمت تھی۔ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملیں ، مزید نشہ بڑھانے کو اینڈرائیڈ موبائل فون اور وائی فائی آگئے۔ اس پر طرہ یہ کہ دنیا جہان کے لوگوں سے گھر بیٹھ کر رابطہ ، جہاں پھڈے بہت ہوئے وہاں ہم مزاق و ہم مزاج دوست بھی ملنے لگے، وہ تو خیر سے اللہ میاں نے مزاج ایسے دیے ہیں کہ اکثر تو راستے سے ہی لوٹ جاتےہیں لیکن کچھ جوتوں سمیت آنکھوں میں بھی اتر آتے ہیں۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ اس سہ آتشہ چرس سے کیسے جان چھڑائیں۔

یہ ہمیں پتا ہے کہ جب پچھلی ساری چرسیں چھوٹ گئیں تو اس نے بھی چھوٹ ہی جانا ہے، تھوڑا مشکل سہی، ناممکن تو نہیں ہے۔

کیونکہ 
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔

😊😊😊😊


اگر آپ کو چرس چھوڑنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو یہ آرٹیکل آپ کی کافی مدد کرسکتا ہے۔