Wednesday, February 1, 2017

خواتین مزاح نگاروں کا انسائیکلوپیڈیا

لینے تو ہم گئے تھے "بذلہ سنجانِ دو عالم" جس پر عرصے سے ہماری نیت خراب تھی اور جسے ہماری یار غار نے ہمیں گفٹنے سے انکار ہی نہیں کیا تھا ،ہمیں پہچاننے سے بھی انکار کر دیا تھا اور کرنا بھی چاہیے تھا۔ انہوں نے ہم سے دو کتابوں کے بارے میں پوچھا کہ یہ تمہیں بھیج دوں اور ہم نے کہا ایک ہم نے پڑھنی نہیں اور دوسری ہمارے پاس ہے، سو تم ہمیں بذلہ سنجان دو عالم بھیج دو یا پھر شفیق الرحمان کا مجموعہ یا پھر شام شعر یاراں یا پھر یہ ساری ۔ اور اس نے کہا کہ" ہیں تم کون ، میں تمہیں نہیں جانتی" اور ہمیں نہ تو خدا ملا ، نہ ہی وصال صنم۔ البتہ سنا ہے کہ ہمیں ایک ڈائری کراچی سے بذریعہ ساہیوال آرہی ہے، لیکن وہ ابھی تک آ ہی نہیں چک رہی۔ 


خیر ہم بات کر رہے تھے بذلہ سنجان دو عالم کی جسے خریدنے کی غرض سے ہم نے اپنے سرکاری فرائض میں جناح ہاسپٹل کا دورہ خاص کر شامل کیا تھا کہ واپسی پر اردو بازارکا چکر لگا سکیں۔ ہم نے بک شاپ پر سیلزمین سے اس کے بارے میں دریافت کیا ہی تھا کہ کاونٹر سے آواز آئی کہ ان کا خواتین کاانسائیکلو پیڈیا بھی دکھا دیں انکو۔ ہم نے سوچا انسائیکلوپیڈیا میں تو غالباً خواتین مزاح نگاروں کی لسٹ اور انکے بارے میں معلومات ہونگی۔ 

لیکن ورق گردانی کرنے کے دوران انکشاف ہوا کہ اس میں 60/65 خواتین مزاح نگاروں کے مضامین جنہیں آپ "مزاح مین" یا "مزاحمین" بھی کہہ سکتے ہیں ایک ساتھ جمع کردیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے ہمارا اپنے بارے میں خیال تھا کہ ہم صرف سوانح اور سفرنامے ہی شوق سے پڑھتے ہیں لیکن اب احساس ہوا کہ ہمیں مزاح سے بھی اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی سابق الذکر دو انواع ادب سے۔ ورنہ ہمارے بک شیلف میں آخر کرنل اشفاق حسین، کرنل محمد خان، یوسفی صاحب اور ہماری ہارڈ ڈسک میں ابن انشاء و ضمیر جعفری وغیرہ کیا کر رہے ہیں بھلا ۔ یہ اور بات کہ ان تینوں اصناف ادب کا ادب میں مقام ابھی تک مشکوک ہی ہے۔ کوئی انہیں ادب میں شمار کرتا ہے کوئی نہیں بھی کرتا۔ اور بقول مرّتب کے خواتین مزاح نگاروں کو بھی ایسے ہی روِئیے کا سامنا ہے۔ یعنی ایک تو مزاح نگار اور اس پر سے خواتین۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا۔ 

سرکاری دورے سے واپسی پر ہم چار کتابیں لیے خوشی خوشی گھر آگئے اور پڑھنے کا افتتاح یوسفی صاحب کی شام ِ شعرِ یاراں سے کیا۔ لیکن دل تھا کہ باقی تینوں کتابوں میں جھانکی مارنے مچلا جاتا تھا۔ بقیہ دو کتابوں کے مندرجات کے بارے میں تو کچھ نہ کچھ شد بد تھی کہ ان میں کیا ہوگا لیکن سب سے زیادہ بے چینی خواتینی مزاح کے بارے میں تھی۔ فہرست پر نظر ڈالی کچھ نام آشنا سے نظر آئے لیکن ان کی پہلی پہچان مزاح نہیں سنجیدہ ادب سے تھی۔ جبکہ بہت سارے نا آشنا سے نام نظر آئے۔ کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا پہلے صفحے پر لکھا تھا کہ 

"خواتین کی اتنی بڑی تعداد مزاح نگاری کررہی ہے تو کیا مرد اب جھاڑو پوچا کریں گے"

ایسے ہی ورق گردانی کے لیے پلٹ کر کتاب کا آخری مضمون پڑھنا شروع کیا ۔ مضمون نے ہمیں تو لوٹ لیا۔ ہم نے تو ان خاتون کا نام بھی پہلے کبھی نہیں سنا تھا اور نہ اب تک یہ معلوم ہے کہ خاتون پاکستان سے ہیں یا ہندوستان سے۔ لیکن ان کا مضمون "عشق اور پائیں باغ" مضمون کیا ہے ایک جانب اردو رومانی ناولز کے ٹپیکل فارمیٹ کا بہت ہی اعلیٰ انداز میں مضحکہ اڑایا گیا ہے اور دوسری جانب ان ناولز کو پڑھنے والی سیدھی سادی مڈل کلاس لڑکیوں کا ، جو ان ناولز کے رومینس اور رومنٹک ہیروز کی تلاش میں ناکام ہوکر جہاں ابا کہتے ہیں وہاں شادی کرلیتی ہیں اور بعد میں اپنی ہی بے وقوفیوں پر اپنا مذاق اڑاتی ہیں۔ ہمیں تو لگا جیسے ہم نے ہی وہ مضمون لکھا ہو۔ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔ 

مذکورہ مضمون میں مضمون نویس بلکہ نویسہ  نے اپنے حالات کا جائزہ لے کر اپنے ناکامِ رومان ماضی کا اس طرح مذاق اڑایا ہے کہ اگر عشق کے لیے درکار درج ذیل ضروری اشیاء انہیں حاصل ہوتیں تو وہ ایک کامیاب عشق میں ضرور مبتلا ہوگئی ہوتیں۔ اور وہ ضروری اشیاء تھیں : 
  1.  پائیں باغ، 
  2. فرانسیسی دریچہ، 
  3. آتش دان، 
  4. نانا حضور،
  5. دینو بابا،
  6. اجنبی۔
غالباً ایک چیزسہواً انکی لسٹ سے شامل ہونے سے رہ گئی: "وکٹورین طرز" کا ڈرائینگ روم اوراس کے فرانسیسی دریچوں پر لہراتے "حریری" پردے ۔ آتش دان بھی غالباً وہیں فروکش ہونا تھا۔ 

لیکن اس مضمون کا اصل مزہ تب ہی آئے گا جب یہ پورا پڑھا جائے۔ پھر جو پڑھنا شروع ہوئےتو پڑھتے ہی چلے گئے ۔اور شام شعر یاراں ابھی تک جاری ہے، جبکہ خواتین مزاح نگار ان سے بازی لے گئیں۔ صرف نیلوفر اقبال کا یہ مضمون ہی نہیں، اسماء قادری کا 'انقلابی مصنفہ'، بشریٰ رحمن کا 'انجمن افتاد باہمی'، جیلانی بانو کا 'بیکاری کے مشغلے'، ڈاکٹر فرزانہ فرح کا' امتحان اور ابھی،، اور ابھی ،، اور ابھی ۔۔۔'، رضیہ صدیقی بصیر کا ' ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے'، مسرت لغاری کا 'علم کے نقصانات'، فاخرہ گل کا 'ف سے فیس بک' ، منزہ سلیم کا 'من کہ ایک نقاد '، اور نسیمہ بنت سراج کا 'دوپٹے کا سفر' کمال است، اخیر است، تباہی است ۔ 

کتاب میں انور احمد علوی نے ہندوستان پاکستان کی نامور اور گم شدہ خواتین مصنفین کے پرمزاح مضامین کو اکھٹا کردیا ہے، جن میں مرحومین بھی ہیں اور حیاتین بھی، بیسویں صدی کی مزاح نگاران بھی اور اکیسویں صدی کی خندہ زنانیاں  بھی۔ مزاح نگاروں کے 'مزہ مین 'بھی اور سنجیدہ ادیب خواتین کے شاد و نادر لکھے گئے مزاحیہ مضامین بھی۔ جو بھی ہے اگر آپ میں مزاح سے مزا لینے کی حس ابھی باقی ہے تو یہ کتاب آپ کے لیے ہی ہے۔ مطلب اپنی خرید کر پڑھیں، میری پر بری نظر ڈالنے سے پرہیز ہی کریں۔

📖 📖 📖 📖 📖 📖

ہیپی ریڈنگ

اس کتاب پر رووف پاریکھ کا تبصرہ پڑھیے۔

ہماری مطالعہ شدہ دیگر کتب پر ہمارا ہی تبصرہ پڑھنے کے لیے رجوع کریں : کتاب کہانیاں