بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جب سے "رسیدی ٹکٹ" پڑھی تھی ۔ اور "میں ساحر ہوں" مارکیٹ میں آئی تھی، ساحر کی سوانح پڑھنے کی بے چینی لگی تھی۔ ادبی دنیا میں امرتا پریتم اور ساحر کے رومان کا بڑا چرچا پڑھا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جو شذرے نظر سے گزرے لگتا تھا کہ کوئی فیری ٹیل تھی لیکن" میں ساحر ہوں" پڑھ کر احساس ہوا کہ عاشق ہوجانا ان کی عادت تھی۔ وہ تو تھے ہی عاشق مزاج، امرتا سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کتنی ہی خواتین پر ریشہ خطمی ہوئے۔ کوئی خاتون ذرا نظر آئی نہیں اور وہ اس پہ زارو قطار قربان ہونے کو تیار۔
میری رائے میں امرتا سے ان کے معاشقے یا رومان کو پبلسٹی ان کی وجہ سے نہیں بلکہ امرتا کی وجہ سے ملی ہوگی۔ کہ وہ ایک مشہور ادبی شخصیت تھیں اپنے قلم کی کاٹ کے باعث اپنے ہم عصر ادباء میں تنقید کا نشانہ توتھیں ہی، نظر میں بھی رہتی تھیں کہ کب کس بہانے ان پر انگلی اٹھانے کا موقع مل سکے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی سوانح میں ذکر بھی کیا ہے کہ کس طرح ان کے ہم عصر ان کے خلاف 'مذمون نگاریاں' کرتے رہتے تھے۔ سو جب ایک شادی شدہ سکھ خاتون کی ایک دل پھینک مسلمان شاعر سے دوستی زبان زد عام ہوئی تو کیا کیا نہ کہا اورلکھا گیا ہوگا۔
اس کہنے اور لکھنے نے اس وقت امرتا کا دل جتنا بھی دکھایا ہو آج وہی ان دونوں کی کتابوں خصوصاً سوانح ہائے حیات کی فروخت کا باعث بن رہے ہیں۔صرف ان کی ہی نہیں امرتا کے مجازی خدا امروز کی بھی۔ ہمیں بھی امروز کی سوانح ہاتھ آنے کا انتظار ہے۔ کہ اس محبت کی مثلث کے زاویے تحلیل کرسکیں۔
دیگر خواتین کے ساتھ ان کے معاشقے یا رومان اس باعث نظروں میں نہ آسکے کہ ان میں سے کچھ خواتین تو تھیں ہیں گم نام، جب تک کہ ان کا تذکرہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر "میں ساحر ہوں" میں شامل نا کردیا گیا۔ ایک آدھ اگر مشہور بھی تھیں تو ان کا تعلق شو بز سے تھا جن سے اس قسم کے افئیرز یا دوستیاں ویسے ہی متوقع ہوتی ہیں۔
ساحر کے افئیرز سے ہٹ کر ان کے مزاج کے بارے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ حضرت خاصے خود پسند اور مغرور واقع ہوئے تھے اور بمبئی کی فلم نگری میں شاعروں اور گیت نگاروں کے حوالے سے خاصے کریڈٹس لینے کے عادی تھے۔ گو کچھ عرصے بعد انہیں خود بھی اس کا احساس ہوگیا تھا کہ وہ کافی سے زیادہ خود غرض ہوگئے تھے، اور کافی لوگوں سے انہوں نے برے وقت میں اپنے ساتھ کئے گئے سلوک کا بدلہ بھی ٹھیک سے لیا۔