Tuesday, February 14, 2017

سیون ائیرز ان تبت

ایک لو اسٹوری

سب سے پہلے تو اس کا سفر ہی کراچی سے اسٹارٹ ہوا ۔ ہمارا اپنا کراچی ، ہاں جی اور ہمارا اپنا نانگا پربت بھی ۔ بندے کی آنکھیں اور دل کھل نہ جائے تو اور کیا ہو بھلا ۔ چار کوہ نورد جو نانگا پربت کا دیا میر فیس اور ٹریک دریافت کرنے کی مہم سے فارغ ہوکر اپنے وطن واپس جانے کے لیے کراچی میں بحری جہاز کے انتظار میں تھےدوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر سرکار انگلیشہ کے جنگی قیدی بنا لیے گئے کیونکہ انکا تعلق جرمنی سے تھا۔ اور جیل بھیج دئیے گئے جو تقریباً تبت کے بارڈر پر ہی سمجھیں ۔ اب بندہ اور وہ بھی کو ہ نورد,  انگریز کی جیل سے فرار ہوگا تو بھاگ کے اور کہاں جائے گا, تبت اور کہاں ۔ سو یہی ہوا۔

تبت اب تک ہمارے لیے بس اتنا ہی تھا کہ دنیا کا بلند ترین پلیٹو یعنی کہ سطح مرتفع ہے ، چین کا حصہ ہے، جو ذرا چین سے ناراض سا ہے اوروہاں کے حکمران ہندوستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔

لیکن اس کتاب نے نہ صرف تبت کے بارے میں بلکہ ہمالیہ کے اس پار کے دروں، جھیلوں، ٹریکس، موسمی حالات، خانہ بدوش، انکے رہن سہن، ثقافت، مہمان نوازی و قزاقی کے بارے میں بھی خاصی معلومات فراہم کیں ۔ اور ظاہر ہے کہ تبت کے بارے میں بہت ساری معلومات، بہت سارے شبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوا۔ اور کچھ نئی اقسام کے تجسس میں بھی مبتلا کیا اور کچھ سوالات ذہن میں نمودار ہوئے جن کے جوابات کی تلاش ہے۔ کچھ کے مل گئے اور کچھ ابھی تک تشنہ ہیں۔



راستے کی ناہمواریاں اور موسم کی شدتیں اپنی جگہ اور شدتیں بھی ایسی کہ منفی تیس ڈگری تک درجہ حرارت گر جائے، بقول کسے اسے درجہ حرارت کہنا حرارت کی توہین ہے کہ اس میں حرارت ہوتی کہاں ہے۔ اور منفی تیس بھی اس لیے کہ ہنری کے تھرمامیٹر میں منفی تیس ہی آخری ہندسہ تھااس سے مزید زیادہ سردی وہ شو ہی نہیں کرسکتاتھا۔ فائنلی ایک دن سردی سے تنگ آکر اس نے اپنا تھرما میٹر پھینک دیا کہ "کی فیدہ"۔ جیسے رابن نے ٹریکس کے دوران اپنا ٹائم پیس پھینک دیا تھا کہ وہ وقت کی قید سے آزاد ہوگئی تھی۔

انسانی عزم اور ہمت کی ایک منفرد مثال، 20 ہزار فیٹ اونچے دروں کو پار کرنے میں کپڑے پھٹ گئے، جوتے لیر لیر ہوگئے، سردی ، تیز ہواوں اور برف باریوں نے حشر نشر کردیا لیکن جب انسان کچھ ٹھان لے تو کوئی شے اسکے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ 

تبت میں غیرملکیوں کو ویلکم نہ کرنے یا بھگانے کا ایک منفرد طریقہ تھا کہ کوئی دکاندار کسی غیر ملکی کو کھانے پینے کی کوئی چیز فروخت نہیں کرے گا ورنہ اس پر بھاری جرمانہ اورسزائیں عائد ہوسکتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی آخر بغیر کھائے پئیے کتنےدن گزارا کرسکتا ہے۔ 

بدھ مذہب میں کسی بھی جاندار کو مارنا انتہائی بھیانک گناہ اور جرم مانا جاتا ہے سو تبت میں مکھی مچھر کو بھی مارنا منع ہے حتیٰ کہ تعمیرات کے لیے زمین کھودتے ہوئے بھی ایک ایک بیلچہ مٹی کو چیک کیا جاتا تھا کہ اس میں کوئی زندہ کیڑا مکوڑا تو نہیں ، اور اگر ہے تو اسے بہت احترام کے ساتھ کسی متبادل جگہ مٹی میں رکھ دیا جاتا تھا۔ جبکہ دوسری جانب اپنے مُردوں کی تکہ بوٹی کر کے پرندوں کو کھلا دیتے ہیں۔ہاں بھئی ہاں چاپڑ سے چوپ کرکے۔ یقین نہیں تو خود کتاب پڑھ لیں۔  اسی سے یہ خیال بھی آیا کہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کی بدھ لاماوں کے ہاتھوں نسل کشی پر دلائی لامہ یا کسی اور بدھ مذہبی رہنما کا کوئی مذمتی بیان ابھی تک ہماری نظر سے تو نہیں گزرا۔

کتاب میں ذکر ہے کہ تبت میں کسی قدیم دور میں مسلمانوں کی فوج نے لشکر کشی کی تھی۔ ان پر برفانی طوفان/ ایوالانچ آگیا تھا جس میں ساری فوج تباہ ہوگئی تھی اور ان کے ہتھیار اور زرہ بکتر ابھی بھی موجود ہیں اور نئے سال کے موقع پر انکو ڈسپلے کیا جاتا ہے جن پر اردو میں [ غالباً عربی میں] کچھ تحاریر لکھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب اور کس دور میں؟

تبت میں راہزنوں کے لیے ہاتھ کاٹنے اور قاتل کے لیے کوڑے مارنے کی سزا تھی کیونکہ جان لینا یعنی پھانسی کی سزا بدھ مذہب کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اپنے شریک حیات سے بے وفائی کی سزا جسمانی ایذا جیسے ناک کاٹنا وغیرہ دی جاتی تھی۔ سعودی عرب یا مسلمان چور کے ہاتھ کاٹیں تو قابل مذمت لیکن دلائی لامہ کے دیس میں چور یا ڈاکو کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں تو گل ای کوئی نئیں جی، آنکھیں اور کان بند کرلو ، کیونکہ وہ تو امریکہ اور یوروپ کو پیارے ہیں ، پالیسی وہی ہے دشمن [چین] کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ 

تبت کے رہن سہن، مذہب، رسم و رواج، واہمے، مذہبی و سیاسی بیوروکریسی، تقسیم کار اور تقسیم طاقت کے بارے میں کافی معلومات ہیں ۔ معاشرے اور معاشرتی رویوں کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے اور بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا۔ مصنف کے خیال میں تبت کا معاشرہ یورپ سے کم از کم ہزار برس پیچھے تھا لیکن اپنے حال میں مست اور خوش تھا۔ یہی اس کی خوبصورتی اور معصومیت تھی اور اس کے خیال میں اسے اس معصومیت کو کھونا اتنا کوئی لازمی یا ضروری بھی نہیں تھا جب لوگ اس طرح مطمئین اور خوش اور پرامن تھے۔ 

ہنری کی ملاقات دلائی لامہ سے اس وقت ہوئی جب وہ محض 14 سال کے تھے ۔ اور ایک انتہائی ذمہ دار مذہبی شخصیت بلکہ ذلِ الہی ہونے کے احساس کے ساتھ ساتھ ایک بچے کی معصومیت اور جستجو سے بھی بھرپور تھے۔ جتنا ہنری اور اسکا دوست دلائی لامہ کو دیکھنے کے شوقین تھے اتنا ہی وہ ان دو غیر ملکیوں کو دیکھنے کے شائق تھے۔ ہنری نے کچھ عرصہ دلائی لامہ کو انگریزی، جغرافیہ اور تاریخ وغیرہ پڑھایا اور اس طرح انکی تاحیات دوستی پروان چڑھی۔ 

ایک چودہ سالہ لڑکا جسے 5 سال کی عمر میں بدھا کا زندہ روپ مان کر اسکے والدین اور بہن بھائیوں سے الگ کر دیا گیا ہو اسکی کتنی چھوٹی چھوٹی سی خواہشات ہوتی ہیں کہ اس کے لباس میں ایک جیب ہو جس میں وہ اپنی ٹافیاں یا پنسلیں ہی رکھ سکے۔ روایتی تبتی لامہ کے ملبوس میں جیب نہیں ہوتی کہ جیب ہوگی تو اسے بھرنے کے لیے تو کچھ نہ کچھ چاہیے ہوگا اور ایک لامہ کو زندگی کے لیے بھلا کیا چاہیے جب کہ اس کی ذمہ داری تو دوسروں کی ضروریات پوری کرنا ہے، دینا ہے ، جمع کرنا نہیں ، یہ اور بات کہ مصنف کے بقول لامہ کے حضورعوام کی نذر نیاز کا دیا ہوا اتنا خزانہ شاہی محل کے گوداموں میں بھرا تھا کہ وہ دنیا کے چند امیر ترین انسانوں میں سے ایک ہوگا۔ اسکے باوجود تبت پر چین کے قبضے کے بعد دلائی لامہ کو ایک دن تبت چھوڑ کر بھارت میں سیاسی پناہ لینی پڑی۔ اور ساتھ ہی ہنری کو بھی تبت چھوڑنا پڑا

کتاب کو پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ بدھ مذہب کا تو چلو انڈیا سے آغاز ہوا تھا تو کیا دلائی لامہ سارے بدھوں کے یکہ و تنہا "امام کعبہ" ہیں ، تھوڑی تحقیق کی تو پتا چلا کہ بدھ مذہب کے بھی دوبڑے اور چند مزید چھوٹے چھوٹے فرقے ہیں ، اور تبتی بدھ مذہب ایک الگ ہی فرقہ مانا جاتا ہے۔  دل کو خاصی تسلی ہوئی کہ

اک ہم ہی نہیں تنہا 
محفل ِ میں تری رسوا

😝😝😝😝😝

".Wherever I live, I shall feel homesick for Tibet"
Heinrich Harrer
👣 👣 👣 👣 👣

دی ٹریکس کے بعد ایک مزید شاندار ایڈونچر ، ایک اور کتاب جس کے سحر میں نکلنے سے ابھی کچھ دن لگیں گے۔ 

لیکن "پکچر" ابھی باقی ہے مائی ڈئیر ریڈر، اس پر تبصرے کے لیے انتظار فرمائیے۔