یہ وہ سوال تھا جو باری باری ہماری تینوں ہمراہیوں نے پہلے خود سے، پھر ایک دوسرے سے اور فائنلی ہم سے کیا کہ ہم وہاں کیا کرنے جارہے ہیں۔ ہمیں تو خود نہیں معلوم تھا کہ ہم وہاں کیا کرنے جارہے ہیں ، سو ہم نے کہا ہم یہی تو معلوم کرنے جارہے ہیں کہ ہم وہاں کیا کرنے جارہے ہیں, یہ وہیں جا کر پتا چلے گا ۔
ایک ہفتہ پہلے ہم سب ڈاٹ کام پر ڈاکٹر آصف فرخی کا مضمون نظر سے گزرا جو "تحریک پاکستان چوک "کے بارے میں تھا کہ کچھ اہل کراچی نے پاکستان چوک کی تزئین و آرائش کرکے اسے Pakistan Chowk Initiative کے نام ایک عوامی پلیٹ فارم میں تبدیل کردیا ہے ۔ جہاں ہر اتوار مصور اور فنکار جمع ہوتے ہیں اور ارد گرد کی قدیم، خوبصورت لیکن تیزی سے آثار قدیمہ و عدیمہ ہوتی عمارات کی شبیہات صفحہ قرطاس پر محفوظ کرتے ہیں کہ نہ جانے کب اس گلی میں کسی عمارت کی شام ہوجائے۔
پاکستان چوک کراچی کے قلب میں واقع ہے جس کے گرد انگریزوں کے دور کی خوبصورت پرانی عمارات، معروف تعلیمی درسگاہیں اوربازار واقع ہیں۔ کراچی کی مشہور فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان چوک میں واقع یہ پارک کچرا کنڈی بن چکا تھا، جہاں نشہ کے عادی افراد اپنا ڈیرا جمائے ہوئے تھے اور غلاظت سے بدبو کے جھونکے اٹھا کرتے تھے۔ "پاکستان چوک آغاز نو" تحریک کے تحت اس پارک کی تزئین و آرائش کی گئی ہے، جنگلہ ، بنچیں اور ٹائلز لگائی گئی ہیں اور اب یہ ایک ایسی صاف ستھری جگہ بن گیا ہے جہاں صبح اور شام کے اوقات میں اہل محلہ بیٹھتے ہیں اور گپ شپ کرتے ہیں، اور اتوارکے اتوار یہاں اہل علم و فن کا اجتماع ہوتاہے۔
ہم کچھ عرصہ پہلے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کراچی فوٹو واک کے بہانے یہ علاقہ گھوم پھر کر آئے تھے۔ سوچا کہ جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں ہوتا کیا ہے۔ سب سے پہلے تو ہم نے فیس بک پر Pakistan Chowk Initiative کا صفحہ تلاش اور لائک کیا ۔ اتوار سے چند دن پہلے اس صفحے پر اعلان ہوا کہ اتوار کو مصوری کے ساتھ ساتھ محفل موسیقی یعنی عرف عام میں کنسرٹ اور کتاب خوانی کا بھی امکان ہے۔
بس پھر کیا تھا ہم نے اپنے دوستوں سے صلاح ماری اور دو تین خواتین کو پٹانے میں کامیاب ہوگئے۔جن میں سے ایک فوٹو واک میں ہماری شریک جرم رہ چکی تھیں۔ ایک عدد فوٹو گرافرہ کو بھی ہم نے پٹایا ۔ ان کی سمجھ میں ہی نا آتا تھا کہ وہ اس سیشن میں جاکر کیا کریں گی۔ بقول انکے مصوری کے نام پر وہ صرف ایک ہاتھی بنا سکتی ہیں بُک ریڈنگ سے ان کی جان جاتی ہے اور گانا انہوں نے کبھی گایا نہیں۔ ہم نے کہا بی بی تم ہماری تصویریں کھینچ لینا، ایسے بھی تو آٹے، دال، نمک، تیل کی تصویریں کھینچتی پھرتی ہو، کبھی انسانوں کو بھی تو بطور ماڈل آزماو ۔
ان خواتین کے علاوہ اور کسی کو شاید سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہاں جانا عقلمندی ہوگی یا بے وقوفی میں شمار ہوگا سو اور کسی نے "ساہ "بھی نہیں لی کہ کبھی ہم انہیں زبردستی گھر سے گھسیٹ کر نہ لے جائیں۔اور وہ ایسے غلط بھی نہیں تھے کیونکہ ہم ایسے ہی کرتے ہیں۔ ان تینوں خواتین کو ہم نے تقریباً انکے گھروں سے ہی "چُکا "تھا۔ اب لازمی تو نہیں ہر بندہ ہماری طرح "ویلا" ہو ۔
ہم اپنی حادثاتی و اتفاقی بلاگنگ کے باعث ایک اردو بلاگر گروپ کے بھی خاصے مشہور قسم کے رکن ہیں کیونکہ اردو بلاگرز میں خواتین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ ان میں سے کچھ بلاگر خواتین و حضرات سے ہم پچھلے سال لاہور بلاگرز میٹ اپ میں مل چکے تھے لیکن کراچی کے بلاگرز سے ملاقات سے محروم تھے۔ سو ایک کراچی کے بلاگر کو بھی صلاح ماردی ۔ وہ اور ہم بچوں کے لیے ڈھونڈ ڈھانڈ کر کہانیاں جمع کرتے ہیں اور ایک بلاگ پر محفوظ کردیتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آنے کی کوشش کریں گے۔
خیر جی اتوار کو ہم بھری دوپہر میں اپنی ساتھی خواتین کومختلف مقامات سے لفٹاتے ہوئے پاکستان چوک پہنچے۔ گاڑی پارک کرکے مقررہ احاطے میں داخل ہوئے، تھوڑے تھوڑے کنفیوژ بھی تھے کہ ہم وہاں کسی کو جانتے تو ہیں نہیں تو واقعی ہم اندر جا کر کریں گے کیا۔
لیکن ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے بانسری کی مدھر تان نے ہمارا استقبال کیا ۔ احاطے میں موجود اکلوتے درخت کے نیچے کئی فنکار مختلف عمارتوں کے مختلف زاویوں سے اسکیچز بنانے میں مشغول تھے، دوسری جانب ایک ساونڈ سسٹم ترتیب دیا ہوا تھا اور مائک پر ایک عوامی قسم کے فنکار بانسری پر سر بکھیر رہے تھے۔ ہمارے سامنے انہوں نے دو تین خوبصورت گانوں کی دھنیں سنائی اور حاضرین سے داد پائی۔
اس دوران ہمیں ایک نوجوان پر شک ہوا کہ یہ شاید وہی بلاگر ہیں جنھوں نے آنے کا وعدہ کیاتھا، لیکن کچھ کنفرم نہیں تھا، ہم نے بذریعہ فون تصدیق کی کوشش کی کہ آیا ہماری کال وہیں کے وہیں وہی وصول کرتے ہیں یا کہیں اور کوئی اور وصول کرتا ہے۔ اور اس طرح بذریعہ ایک فون کال ہم ایک دوسرے سے رو برو مشرف بہ ملاقات ہوئے۔ یہ صاحب ہمیں ایک اردو بلاگر گروپ میں ملے تھے، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں ایڈیٹر ہیں اور بچوں کے لٹریچر کی کانٹ چھانٹ اور پبلشنگ کرتے ہیں، آجکل ٹین ایج بچوں کے لیےطبع زاد ادب اور ادباء کی تلاش میں ہیں، اگرکسی کو بچوں کے لیے لکھنے لکھانے سے دلچسپی ہو تو ان سے رابطہ کرلیں۔
اسی اثناء میں منتظمین میں سے ایک صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں پٹھان کے ہاتھ کی بنی چائے کے کپ پکڑا دئیے ۔ ہم ہکا بکا کہ یہ کیا ، جان نہ پہچان، جبکہ وہ ہم سے ایسے پیش آرہے تھے کہ جیسے پتا نہیں کب سے جان پہچان ہو۔ چائے کے ساتھ انہوں نے کچوریوں کی آفر کی جسے ہم نے خوبصورتی سے ٹال دیا لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ بن کباب کی آفر کے ساتھ پھر موجود تھے، اب اتنا کفران نعمت بھی ٹھیک نہیں سو ہم نے بن کباب کی آفر کچھ رد و کد کے ساتھ قبول کرلی۔اس دوران فوٹوگرافرہ کو انکے قبیلے کے دوتین جاننے والے مل گئے اور وہ ان کے ساتھ خوش خوش تصویریں کھینچتی رہیں۔ لیکن ان کی ہم نام ہماری چوتھی ساتھی خاصی بور ہوئیں۔
کافی دیر تک مقامی اور عوامی فنکار اپنی آوازوں کا جادو جگاتے رہے، یعنی عوام میں سے جو گانا چاہے یا اپنا فن پیش کرنا چاہے، اسے اجازت تھی کہ وہ پانچ منٹ کے لیے مائک پر گانا گاسکتا ہے ۔ ایک صاحب جو غالباً کسی دستی ہنر یا پیشے سے تعلق رکھتے تھےاور اپنے کام پر جارہے تھے، راستے میں رک کرکچھ دیر کے لیے پارک میں آگئے تھے، انہوں نے محمد رفیع کا ایک گانا بہت ڈوب کر گایا۔ چند نوجوانوں نے بھی اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کیا ۔ اس دوران ارد گرد کی بلند عمارات سے ناظرین براہ راست اس کنسرٹ کو ملاحظہ کرتے رہے ۔ درمیان میں ساونڈ سسٹم بھی سر بکھیرتا رہا جس میں ایک خاص آئٹم کراچی کی روڈ سائیڈ آوازوں کا RAP تھا جس میں غالب آواز " دس روپے گلاس" والے کی تھی۔
ساز و آواز کے بعد Books & Beyond کے زیر اہتمام مستقبل کے ایک ریڈنگ سیشن کاابتدائی تعارفی سیشن ہوا جس میں تمام شرکاء نے اپنا تعارف، اپنی تازہ ترین پڑھی گئی کتب کا تعارف اور پھر کسی بھی کتاب سے کسی ایسے کردار کا تعارف پیش کیا جس سے وہ متاثر ہوئے ہوں یا جس میں انہیں اپنا آپ نظر آتا ہو۔ اس تیسرے تعارف نے کچھ شرکاء کو متذبذب بھی کیا۔ بحیثیت مجموعی یہ سیشن بہت دلچسپ رہا ۔
اس سیشن کے بعد فری مائیک سیشن ہوا جس میں شرکاء سے فرمائش کی گئی کہ جو بھی چاہے مائک پر آکر ایک گانا یا پانچ منٹ کی ریڈنگ، شاعری یا جو وہ چاہے سنا سکتاہے، اس میں کسی قسم کی ویلیو مارکنگ نہیں تھی کہ کس نے اچھا سنایا کس نے برا سنایا، بس ہر شخص سنا سکتا تھا جو وہ چاہے اور جیسے چاہے۔ سو ہم نے بھی اپنا کراچی فوٹو واک والا بلاگ پڑھ کر سنایا اور دو تین پنکھے یعنی پرستار موقع پر ہی کما لیے۔ ان تمام سرگرمیوں کے دوران آرٹسٹ اپنا کام کرتے رہے یعنی اسکیچنگ۔ ان آرٹسٹس میں مرد و خواتین، اور بچوں کی یکساں تعدادتھی۔ فری مائک سیشن کے بعد ہم نے اجازت چاہی اور براستہ برنس روڈ اور دھورا جی گھر کی راہ لی۔
مجموعی طور پر یہ ایک اچھا آغاز ہے۔ ایک عوامی اور تاریخی مقام کو اصلاح اور تزئین و آرائش کے بعد عوام کی تفریح طبع کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے، محل وقوع کے لحاظ سے شہر کے مرکز میں ہے، شہر کے ہر حصے سے ہر کوئی باآسانی یہاں پہنچ سکتا ہے۔ پھر اس میں شرکت کی کوئی فیس یا کوئی پابندی نہیں ہے، سڑک سے گزرنے والے افراد بھی رک رک کر پارک کے باہر سے اندر جھانک رہے تھے جن کو اندر بلا کر پروگرام کا حصہ بنالیا گیا۔ ہر قسم کے لوگ اس ایکٹویٹی کا حصہ ہیں، پوش علاقوں کے پڑھے لکھے اور کچھ کچھ برگر عوام بھی اور بہت عوامی طبقے یعنی ڈرائیور ، چوکیدار قسم کے ٹیلنٹڈ لوگ بھی اور ہم جیسے مڈل کلاس والے بھی۔
اس ضمن میں تذکرہ کرتے چلیں کہ یہاں جتنے بھی آرٹسٹ اسکیچنگ یا تصویر نگاری کر رہے تھے ان میں سے کچھ بالکل ہی نوجوان اور غیر معروف تھے۔ لیکن ان کے فن کو ایک موقع ضرور ملنا چاہیے ، ہماری تجویز ہے کہ اسی پارک میں ایک تصویری نمائش ہونی چاہیے جس میں یہاں بیٹھنے والے تمام فنکاروں کی تصاویر اور اسکیچز کی نمائش ہو۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ ایسی عوامی قسم کی پبلک اسپیسز کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی ڈیولپ کی جانی چاہئیں ، جیسے لیاری، اورنگی، ناظم آباد، گارڈن وغیرہ میں۔
📖 🎤 🎸 🎺 🎵 🎭 🎆 📷 📢 🔖 📕
تصاویر: نسرین غوری