نکتہ آغاز- فوٹو: نسرین غوری |
ہم چاروں کی گاڑیاں ایمپریس مارکیٹ کی پارگنک میں موٹر سائیکلز کے درمیان ایسے خوشی خوشی محصور تھیں جیسے بھینیسیں کسی جوہڑ میں فرصت سے بیٹھی جگالی کر رہی ہوں۔ اور ہم چاروں حق دق کہ انہیں کیسے واگزار کرائیں۔ہم اتنا ہڑبڑائے کہ ،،، بس نہ پوچھیں۔ اور یہ سارا کیا کرایا ہمارا ہی تھا۔ ہم ہی ہیں جس کو یہ کراچی فوٹو واک کا وائرس لگا تھا۔
ونس اپان ٹو ائیرز ایک مرتبہ جب ہم ایک نامہ نیم ادبی جمع ادیبی فین گروپ کے منتظم تھے ہمیں شوق چڑھا کہ کراچی میں ریڈنگ اور فوٹو سیشن کے علاوہ بھی کوئی ایکٹیوٹی ہونی چاہیے۔ قدیم لاہور میں ہوئی واک کا نشہ بھی تازہ تھا۔ سو ہم نے گروپ کے کراچی کے ارکان کو کراچی میں بھی ایک ایسی ہی واک کروانے کا پلان بنایا۔
اب ہم نے تو خود کبھی کراچی ٹھیک سے نہیں دیکھا تھا ، سوچا دوسروں کو دکھانے سے پہلے خود تو دیکھ لیں۔ سو ہم نے ایک خاتون اور ایک صاحب کے ساتھ ارلی مارننگ پری فوٹو واک ریکی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مقررہ اتوار کو طے شدہ وقت اور جگہوں سے اپنے ساتھیوں کو لفٹایا ، اپنے سابقہ دفتر میں گاڑی پارک کی اور صدر کی گلیوں کی خاک چھاننا شروع کی۔ خوب خوب تصویریں کھینچیں اور کھنچوائیں، کراچی کی قدیم عمارات کی، اپنی اور ایک دوسرے کی، صبح سویرے مختلف مشاغل میں مصروف اہل کراچی کی۔ مجوزہ گروپ فوٹو واک تو اہلیان کراچی کی مصروفیات اور غیر دلچسپی کے باعث عمل میں نہ آسکی لیکن ہمیں اور ہمارے ساتھیوں کو کراچی میں تفریح کا نشہ لگ گیا۔
اگلے سال ہم دوبارہ انہی دنوں میں پھر سے ارلی مارننگ فوٹو واک کے لیے تیار و کامران تھے۔ ایک ساتھی تو کسی مصروفیت کے باعث شریک نہ ہوسکے لیکن ہم" دو خواتین تنہا" پھر ایک دن صبح سویرے صدر کی تقریباً سنسان گلیوں میں تھے۔ کئی ایک جگہوں پر ہمیں اپنے اپنے موبائل فونز اور کیمروں کی خیریت بھی مشکوک ہوتی محسوس ہوئی۔ ایک باشرع کار سوار نے ہمیں ایسکارٹ دینے کی بھی کوشش کی جسے ہم نے ناکام بنا دیا۔ ایک سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار کو ہم پر غالباً دشمن ملک کا ایجنٹ ہونے کا بھی گمان گزرا۔ جس کی تصدیق اور ہماری سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے انہوں نے کئی چکر لگائے۔ لیکن پھر انہیں سمجھ آگیا کہ ان دونوں خواتین کی اوپری منزل میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ اور ایک کے تو کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہماری سیر کا اختتام ریگل چوک کے سنڈے بک بازار پر ہوا۔ اور واپسی پر دن کے بارہ بجے پٹیل پاڑہ میں پٹھان کے ہوٹل پر ناشتہ ۔۔ کیا کلاسک دن تھا۔
اب حال یہ ہے کہ نومبر شروع ہوتا ہے اور ہمارا دل مچلنے لگتا ہے ایک فوٹو واک کے لیے۔ مزید بھڑکانے کے لیے فیس بک نے پرانی یادداشتیں کھنگال کھنگال کے ہمارے سامنے پیش کرنی شروع کردی ہیں۔ کہ
"وہ بیتے دن یاد ہیں؟"
اور سچی بات تو یہ ہے کہ
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں
تنہائی جنہیں دہراتی ہے
اور ہم کو تنہا بیٹھے بیٹھے مسکاتی ہے ۔ اور اگر ایسے میں ہمیں کوئی دیکھ لے تو یقیناً ابنارمل سمجھے، اور ویسے بھی ہم نے کب نارمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ سو اس سال بھی کچھ نومبر نے اکسایا اور کچھ فیس بک نے ہمیں بہکایا کہ "پھر ایک پیگ ہوجائے" اور ہم بہک گئے اس بار ہم نے مزید لوگوں کو بھی بہکایا جن میں سے کچھ کے خیال میں شاید یہ ایک بچکانہ یا امیچور قسم کی ایکٹیوٹی تھی، اس لیے انہوں نے انوٹیشن کی رسید بھی دینی ضروری نہیں سمجھی، ایک دو لوگ با عذر ناگزیر شریک نہ ہوسکے لیکن باقی سارے لوگوں نے ہمارے بونگے پن کو عزت بخشی۔ ان میں تنہا خواتین بھی تھیں، سنڈے کودیرتک بستر توڑنے والے بھی، کراچی جیسے شہر میں "بے کار" لوگ بھی، نو آموز ڈرائیور بھی اورجاگرز کے بغیر پردیسی بھی اور اب سب ہمارے ساتھ پٹھان کے ہوٹل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ گرما گرم کرکرے پراٹھے اور چائے۔
خستہ کرارے پراٹھے - فوٹو: غزالہ پرویز |
پٹھان کی چائے - فوٹو: عمارہ خان |
البتہ گروپ گائیڈ کا کچھ پتا نہیں تھا۔ وہ حسب روایت ایک گھنٹہ دیر سے آئے۔ ان سے پہلے ہم سب ایمپریس مارکیٹ کی تقریباً خالی پارکنگ میں اپنے اپنے پسندیدہ پلاٹس پر اپنی گاڑیاں پارک کر چکے تھے۔ جس کا نیتجہ واک کے آخر میں سب نے بھگتا۔ لیکن کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک، مستقبل کو کس نے دیکھا۔ ناشتے کے دوران گائیڈ بھی اپنی بلیلہ سمیت تشریف لے آئے۔ ناشتے ختم کر کے ہم سڑکیں ناپنے اٹھ کھڑے ہوئے۔
تاجِ آتش کدہءِ اہل زرتشتانِ کراچی صدر تصویر: آلموسٹ فوٹو گرافی - بائی ماجد حسین |
ایمپریس مارکیٹ سے داود پوتہ روڈ پر دار ِ مہر یعنی پارسی آتشکدہ یا جماعت خانہ، کچھی میمن مسجد کے سامنے سے گزرتے ہوئے درمیان سے شارٹ کٹ مار کرالفنسٹن یا الفی المعروف زیب النساء سٹریٹ اور عبداللہ ہارون اسٹریٹ سے ہوتے ہوئے اور قدیم عمارتوں کو دیکھ کر انگلیاں دانتوں میں اور تصاویر کیمروں میں دباتے ہم جانے کہاں ایک پتلی گلی میں جا گھسے جس کا بظاہر کوئی اگلا سرا نظر نہیں آرہا تھا، ہم واپس پلٹنے ہی والے تھے کہ سامنے سے آتے ہوئے ایک صورت خضر نے ہم سے دریافت کیا کہ ہم کہاں جانا چاہ رہے ہیں اور پھر ہمیں راستہ بتا کر آگے چل دیا لیکن ہم نے اس کے ساتھ موجود ننھے فرشتے کو تصویر لیے بغیر آگے نہ جانے دیا۔
وہ راستہ پیچ دار گلیوں سے گزرتا ہوا ہمیں اللہ والی کالونی نامی ایک ہندو بستی کے اندر لے گیا۔ جہاں رات ہی کوئی مذہبی تہوار منایا گیا تھا اور اسکی باقیات ابھی تک مشاہدہ کی جاسکتی تھیں۔ بستی سے باہر نکلے تو سیدھے سندھ سیکرٹریٹ میں واقع احتساب بیورو کے دفتر کے درمیان لینڈ کیا ۔ جو ہمارے پروگرام میں بالکل بھی شامل نہیں تھا۔ لیکن مفت ہاتھ آئے تو برا کیا۔ کچھ بزرگ برگد کے درختوں سے ملاقات کی، ان کے سائے میں تصاویر کھنچوائیں اور کھینچیں اور شرافت سے باہر نکل آئے، باہر نکلنے سے پہلے ایک چوکیدار نما چیز نے ہم سے ہماری نیت و اعمال جاننے کی کوشش کی جسے ہم نے "فوجیں" آگے کر کے ناکام بنا دیا۔
پتلی گلی - تصویر: نسرین غوری |
سندھ سیکریٹریٹ کا برگدِ بزرگ- تصویر: نسرین غوری |
جافریوں سے بنی چوطرفہ بالکنیوں پر مشتمل ایک عمر رسیدہ عمارت، جو کبھی خوبصورت تھی تصویر: نسرین غوری |
سندھ سیکریٹریٹ سے نکل کراپنے کیمروں کو ہائی کورٹ سے پردہ کراتے ہم نے پھر سے نیو ایم اے جناح روڈ پکڑ لی جو اب نام بدل کر شاہرہ لیاقت ہوچکی تھی، پاسپورٹ آفس کی مشہور کچوریوں کی قدیم از قدیم دکانیں بند پڑی تھیں۔ پھر جانے کن کن "خشبو دارو گل و گلزار" گلیوں سے گزرتے ہوئے ڈی جے سائنس کالج کا بیرونی دیدار کیا اور پاکستان چوک سے ہوتے ہوئے ، راستے میں لگے ہوئے اتوار بازاروں سے نظریں چراتےہوئے ہم بندر روڈ پر کے ایم سی بلڈنگ کے بالکل سامنے جا نکلے۔ اب تک چل چل کر دو تین لوگوں کا تراہ نکل چکا تھا۔ کسی کا جوتا کاٹ رہا تھا تو کوئی ہماری محبت میں بحالت مجبوری و شوق سلیپرز میں ہی چلا آیا تھا ۔ سو یہاں ہم نے پانچ منٹ کا آرام کا وقفہ لیا جو دو ہی منٹ میں پورا ہوگیا۔
ڈی جے سائنس کالج - تصویر: فریال عثمان خان |
پاکستان چوک پر ایک خوبصورت عمارت تصویر: عمارہ خان |
اندرون شہر کی گلیوں کے سواریاں تصویر: نسرین غوری |
ایم اے جنا ح روڈ پر چہرہ اوپر کئے ایک ایک کلاسک بلڈنگ کے ماضی پر واہ واہ کرتے اور حال پر آہیں بھرتے ہم میری ویدر ٹاور پہنچ چکے تھے۔ یہاں ہمارا ٹاکرہ ایک ممی ڈیڈی بچوں کے ٹورسٹ گروپ سے ہوا جو ایک عدد سجی بنی ڈبلیو گیارہ میں بھر کر ایک گائیڈ اور ایک نہتے سیکورٹی گارڈ کے ساتھ کراچی کی سیر کو نکلےتھے۔ ایک ایسا ہی گروہ ہمیں الفی اسٹریٹ پر ملا تھا جن کا گائیڈ انہیں "موسیٰ جیز" کی تاریخ بتا رہا تھا۔ لیکن ٹاور والا گروپ غالباً دوسرا تھا اس میں بندے زیادہ تھے اور دو چار فارنرز بھی تھے۔ہم نے ان سے اورانہوں نے ہم سے وہی سلوک کیا جو پہلے والوں نےہم سے اور ہم نے ان سے سے کیا تھا کہ "جیسے جانتے نہیں"۔ ویسے بھی ہمارے پہنچتے ہی وہ سارے اپنی ڈبلیو گیارہ میں بیٹھ کرٹاور ہمارے حوالے کر کے اگلی منزل کی طرف چل دیے۔
میری ویدرکلاک ٹاور صدر کراچی تصویر: نسرین غوری |
غالباً کوئین میری ، میری ویدر ٹاور کے چاروں طرف براجمان تصویر: نسرین غوی |
HBL ID - تصویر: نسرین غوری |
UBL Towers - تصویر: نسرین غوری |
ہم سب بھی ٹاور پہنچ کر پھاوے ہوچکے تھے، اور دھوپ بھی کچھ تیز ہوچلی تھی۔ کچھ مزید کراچی ایکسپلور کرنا چاہ رہے تھے،کچھ تھک چکے تھے، کچھ تذبذب میں تھے کہ کدھر جائیں ادِھر یا اُدھر۔ اسی تذبذب میں ہم آئی آئی چندریگر روڈ پر مڑ چکے تھے۔ فائنلی یہ فیصلہ ہوا کہ کے پی ٹی کو اگلی کسی فوٹو واک کے لیے چھوڑ دیا جائے اوراب واپسی کا قصد کیا جاوے۔ چلو واپس ایمپریس مارکٹ چلو ۔ اب کیسے چلو ، کیوں نہ رکشہ کر لیا جائے، کیوں نہ بس کی سواری کی جائے۔ یہاں ٹوور گائیڈ اور اکلوتے کیمرہ مین کے درمیان بحث ہوگئی کہ یہاں سے کوئی بڑی بس نہیں آتی ہے یا نہیں۔کیونکہ مزدا بسیں ایمپریس مارکیٹ نہیں جاتیں۔
دونوں کی اس بحث میں کہیں سے سٹی اسٹیشن کی چائے آگئی۔ کہ سر دست سٹی اسٹیشن قریب ہے تو کیوں نہ سٹی اسٹیشن کی چائے پی جائے ۔ چلو چلو سٹی اسٹیشن چلو ۔ سٹی اسٹیشن سے پہلے پیچھے سے ایک عدد 2-K چلی آئی جسے دیکھ کر کیمرہ مین کی خوشی دیکھنے والی تھی کیونکہ مقابل کے حق میں ایک ووٹ آچکا ہوا تھا کہ وہ درست فرما رہے ہیں ۔ اب کیمرہ مین کی رائے نےایک نہیں دو رائے کو شکست دی تھی۔ خوش ہونا تو بنتا تھا باس ۔ویسے بھی ان کے اکلوتے ڈی ایس ایل آر نے ہم سب کی "فوٹو" واک کی عزت رکھی ہوئی تھی۔ گروپ گائیڈ بھی پوری ذمہ داری سے اپنا ڈی ایس ایل آر لائے تھے لیکن اتنی ہی غیر ذمہ داری سے اسے چارج کرنا بھول گئے تھے۔ لہٰذہ اب اپنے لاڈلے کو کاندھے پر لادے پھر رہے تھے۔ ہم سمیت باقی سارے سیلوگرافرتھے۔
دونوں کی اس بحث میں کہیں سے سٹی اسٹیشن کی چائے آگئی۔ کہ سر دست سٹی اسٹیشن قریب ہے تو کیوں نہ سٹی اسٹیشن کی چائے پی جائے ۔ چلو چلو سٹی اسٹیشن چلو ۔ سٹی اسٹیشن سے پہلے پیچھے سے ایک عدد 2-K چلی آئی جسے دیکھ کر کیمرہ مین کی خوشی دیکھنے والی تھی کیونکہ مقابل کے حق میں ایک ووٹ آچکا ہوا تھا کہ وہ درست فرما رہے ہیں ۔ اب کیمرہ مین کی رائے نےایک نہیں دو رائے کو شکست دی تھی۔ خوش ہونا تو بنتا تھا باس ۔ویسے بھی ان کے اکلوتے ڈی ایس ایل آر نے ہم سب کی "فوٹو" واک کی عزت رکھی ہوئی تھی۔ گروپ گائیڈ بھی پوری ذمہ داری سے اپنا ڈی ایس ایل آر لائے تھے لیکن اتنی ہی غیر ذمہ داری سے اسے چارج کرنا بھول گئے تھے۔ لہٰذہ اب اپنے لاڈلے کو کاندھے پر لادے پھر رہے تھے۔ ہم سمیت باقی سارے سیلوگرافرتھے۔
سٹی اسٹیشن میں پھر ہمارے ارادوں پر شک کا اظہار کیا گیا جس کو ہم نے فوج کی مدد سے اپنے حق میں اس طرح استعمال کیا کہ پھر تو بند کیفے بوگی ہمارے لیے دن دیہاڑے کھلوایا گیا اسپیشل چائے بنوائی گئی جسے ہم سب نے کوک کا تڑکہ مار کر حلق سے اتارا۔کیفے بوگی کی ایک بوگی پر ہماری یار غار کے شہر کا نام نامی کندہ تھا۔ بس پھر کیا تھا ہم نے فوراً ایک سیلفی ان کی طرف واٹس ایپ کی۔
سٹی اسٹیشن سے واپسی پر پھر کسی نے ٹیکسی منگوائی، کسی نے رکشہ کیا، اور کسی نے پیدل واپسی کا قصد کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ سواری والوں کے واپس ایمپریس مارکیٹ پہنچنے سے پہلے ہی پیدل والے ایمپریس مارکیٹ پہنچ گئے۔ کیسے، یہ معمہ اب تک حل نہیں ہوسکا۔
🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼
کراچی میں یہ گل کھلنے کا موسم ہے
سبھی بِچھڑوں کے آملنے کا موسم ہے
یہی زخموں کے پھر سلنے کا موسم ہے
محمود شام
💗💗💗💗💗💗💗💗💗