Friday, December 16, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ نہم / اختتامیہ)

چلو اب گھر چلیں ساغر ، بہت آوارگی کرلی 


صبح سویرے ہی روشنی ہونے سے آنکھ کھل گئی۔ اکا دکا لوگ جاگ چکے تھے لیکن اپنے اپنے مقام استراحت پر "اینڈنے" میں مصروف تھے۔ "اینڈنا"یہ ہماری ذاتی ایجاد کردہ اصطلاح ہے، یعنی آنکھ کھلنے کے بعد کی نیند ، الارم بجنے یا امی کے جگانے کے بعد جو ایک نیند کا پیریڈ ہوتا ہے اسے ہم اینڈنا کہتے ہیں۔"ہاں بس پانچ منٹ اور" والی نیند، اور جو سواد اس نیند میں ہوتا ہے وہ ساری رات کی نیند میں نہیں ہوتا۔ پر ہر گزرتے منٹ کے ساتھ روشنی بڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی گرمی بھی۔ چار و ناچار ہر ایک اٹھ بیٹھا، ناشتے کے لیے چائے چڑھا دی گئی۔ گرمی اور حبس اتنا تھا کہ دل کرتا تھا اٹھ کے بھاگ لو ۔ ابھی سات بھی نہیں بجے تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ابھی سب دوبارہ آبشار کی طرف جائیں گے، واپس آکر ناشتہ کریں گے اور پھر نو بجے تک واپسی کے لیے نکلیں گے۔ 

لیکن سورج کے مزاج شریف خاصے اونچے تھے۔ ہم تینوں نے مشورہ کیا کہ ہم نے آبشار میں جہاں تک جانا تھا وہ کل دیکھ لیا، مزید دیکھنے کی تاب نہیں۔ گرمی کا عالم ابھی یہ ہے تو نو بجے کیا عالم ہوگا ۔ اگر ہم ابھی واپسی کے لیے نکل پڑیں تو سورج سوا نیزے پر آنے سے پہلے کافی سفر طے ہوجائے گا۔ اور یہاں گرمی میں سب کا انتظار کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ خضدار کے ہوٹل میں انتظار کر لیا جائے۔ ہم نے جلد واپسی کا فیصلہ کر کے انتظامیہ کو مطلع کر دیا اور اپنے گائیڈ اور ڈرائیورکو تلاش کیا۔ ڈرائیور اور گائیڈ دونوں کی کوشش تھی کہ ہم سب کے ساتھ ہی واپس ہوں۔ انہوں نے مختلف تاخیری حربے بھی آزمائے، لیکن ہمارے ارادوں کو متزلزل نہ کرسکے ، آخر کار انہیں چلنا ہی پڑا۔ برائے نام ناشتہ کر کے ہم واپسی کے لیے چل پڑے۔ بعد میں ہمارا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ دن چڑھنے کے ساتھ ساتھ گرمی بڑھ رہی تھی۔ 
دی گائیڈ اینڈ دی ڈرائیور

ہم انہی راہوں پر ان ہی نظاروں میں واپس چل پڑے ، گو راستہ وہی تھا لیکن جن زاویوں سے ہم نے ان نظاروں کو گزشتہ دوپہر دیکھا تھا اب ان زاویوں سے ایک سو اسی ڈگری مختلف زاویے سے دیکھ رہے تھے ، چونکہ گرمی کم تھی اور راستے کی طوالت اور شدت کا اندازہ تھا تو راستہ اتنا برا بھی نہیں لگ رہا تھا، اور پھر اب ہمارے ڈرائیور کو کسی اور ڈرائیور سے مقابلہ بھی درپیش نہیں تھا تو وہ بھی شرافت سے گاڑی چلا رہا تھا۔ ہمارے گائیڈ تندہی سے ہماری یادداشت کا امتحان لینے کے لیے راستے میں آنے والے ہرگاؤں کا نام ہم تینوں سے دریافت کر رہے تھے ، اور ہم اتنی ہی ذمہ داری سے ان کے امتحان میں فیل ہورہے تھے۔

راستے میں ہم نے ایک بچے، ایک اما ں جی ، ایک بابا جی اور ایک بندے کومختلف مقامات سے لفٹایا بھی۔ یعنی پک اینڈ ڈراپ سروس دی۔ جو اگر ہمیں نہ ملتے تو شاید سارا سفر پیدل ہی طے کر لیتے، کیوں کہ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر بس فور بائی فور گاڑیاں ہی ہیں اور وہ بھی اکا دکا، کوئی باقاعدہ ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ راستے میں ایک جگہ سخت دھوپ میں  فل لوڈِڈ گاڑی کا پنکچر ہوئی کھڑی تھی ۔ ہمارے ڈرائیور نے اپنا اضافی ٹائر اسکے ناکارہ ٹائر سے تبدیل کر لیا۔ ان بیاباں راستوں پر سمندر ی راستوں کےباہمی امداد کے اصول چلتے ہیں کہ آپ نے کسی کی مدد سے انکار نہیں کرنا۔ جسے بھی جو بھی چاہیے اگر آپ کے پاس ہے تو آپ نے انکار نہیں کرنا، دے دینا ہے تاکہ بوقت ضرورت آپ کو بھی ایسی ہی غیر مشروط مدد میسر آسکے۔ مولہ میں مقامی طور پر کاشت کیا جانے والا چاول"سُگداسی" بہت ہی خوشبودار ہوتاہے۔ راستے میں ایک گاؤں سے مقامی چاول بھی لئے گئے ۔ جو انہوں نے بلا معاوضہ دے دئیے، ہم نے بھی اصرار نہیں کیا کیونکہ یہ ان کی مہمان نوازی کی ناقدری ہوتی ۔

راستے میں ایک مقام پر پانی میں پکنک منانے کے لیے رکے، یہاں پانی خاصہ گہرا اور ٹھنڈا تھا، ہمارے دونوں ساتھی پانی دیکھ کر آپے سے باہر ہوئے جارہےتھے، ایک نے ہمیں بھی ڈبانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ کچھ لوگوں کا یا شاید اکثر لوگوں کا انجوائے منٹ کا اپنا ایک مخصوص نظریہ ہوتا ہے اور ان کے خیال میں اگر کوئی انکے طریقے سے انجوائے نہیں کر رہا تو وہ سرے سے انجوائے ہی نہیں کر رہا۔ جبکہ ہر ایک کا انجوائے کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، جو آپکے طریقے سے مختلف ہوسکتا ہے۔ اگر آپ اپنا طریقہ دوسرے پر زبر دستی ٹھونسنے کی کوشش کریں گے تو یہ مزہ نہیں بلکہ سزا ہوگی دوسرے کے لیے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ لوگ اپنی حد نگاہ سے آگے دیکھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ 
صحرا لگے کبھی، کبھی دریا دکھائی دے

چلتے چلتے ہم ایک جگہ ناشتے کے لیے رکے، یہ ایک دکان جمع چائے کا ہوٹل کا مجموعہ تھی، جس کے پیچھے ہی صاحب دکان کا گھر تھا۔ مٹی سے بنا سادہ اور کشادہ روایتی بلوچی گھر۔مرد دکان میں ہی رک گئے جبکہ ہم دونوں خواتین پیچھے گھر والے حصے میں چلے گئے۔ جہاں ان کی بیگم اور بہت ساری چھوٹی بڑی بچیاں ہمارے استقبال کو موجود تھیں ۔ ان کے رنگین اور سجے ہوئے ڈرائینگ روم نما کمرے میں شدید گرمی میں دو عدد پیڈسٹل فین شمسی توانائی کی مدد سے قابل سکون ہوا دے رہے تھے، اس گرمی میں بھلا اور کیا چاہیے تھا۔ ساتھ ہی چائے کے ساتھ لوازمات اور درخت سے توڑی ہوئی تازہ تازہ کیریاں نمک لگا کر ۔ اور فرمائشی لسی بھی جو ہم نے پی کم اور پیپسی کی خالی بوتل میں بھر کے ساتھ رکھ لی۔ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو ٹھکراوگے۔ یہ کہنا تو چڑھتے سورج کو چھپانے کے مترادف ہوگا کہ ہم نے وہاں ان کے گھر اور بچیوں کے خوبصورت پیراہنوں کی فوٹو گرافی نہیں کی ہوگی ۔ پیاری پیاری شرماتی ہوئی اور اردو تو کیا بلوچی سے بھی نابلد بچیاں اپنی تصاویر کیمرے میں دیکھ دیکھ کے خوش ہورہی تھیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ان کی تصاویر کے پرنٹ نکلوا کر بذریعہ گائیڈ انہیں پہنچا دیں۔ 
ایک خوبصورت روایتی  بلوچ مہمان خانہ

چائے اور حسب توفیق و لالچ و میموری تصاویر کھینچ کر ہمارا سفر پھر سے جاری ہوگیا۔ویسے ہی اچھلتے کودتے، چائے بسکٹ کی لسی بناتے، قدرت کی صناعی پر حیران ہوتے، اسے آنکھوں اور کیمرے میں بساتے۔ ہمارا اگلا اسٹاپ گرانڈ کینئن میں ہارس شو ماؤنٹین کی چھاؤں میں ایک اورگاؤں تھا جہاں ایک سادہ سا ہوٹل اور ہوٹل کے ساتھ تھکے مسافروں کو آرام دینے کے لیے سایہ دار کاروانِ سرائے بنیں تھیں، سامنے چند درخت، درختوں کے ساتھ ٹیوب ویل اور درختوں کے پرے کھیت تھے، کھیتوں کے بعد ہارس شو ماؤنٹین اور اسکے پیچھے سے بادل ایسے اٹھا ہوا تھا جیسے ایٹم بم کی چھتری نے پہاڑ پر سایہ کیا ہوا ہو۔
دا موسٹ آف-رپیٹڈ پکچر آف دی بلاگ

درختوں کے نیچے گاڑیاں آتیں اور رک جاتیں، کچھ لوگ اور سامان اتار کر اور چائے پی کر یا کھانا کھا کر گاڑیاں دوبارہ روانہ ہوجاتیں اور ان کی جگہ دوسری گاڑی لے لیتی، ایسے ہی ایک درخت کے نیچے ڈرائیور نے ہماری گاڑی پارک کردی۔ ناکارہ ٹائر مرمت کے لیے دے دیا، گاڑی کو ٹھنڈا ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔ ہم تینوں نے پہلے تو ہوٹل کے اندر باہر اور ارد گرد کی فوٹو گرافی کی، پھر ایک دوسرے کی، دوپہر ہوچلی تھی، فیصلہ کیا گیا کہ یہیں لنچ کر لیا جائے تو مناسب ہے۔ اتنی دیر میں گرمی کاپیک پیریڈ بھی گزر جائے گا۔ سو ایک کوٹھڑی پر قبضہ کر کے کھانے کا آرڈر دے دیا۔ گرما گرم سبزی اور دال ، سلاد اور ساتھ میں گرما گرم لسی بھی ۔ سواد آگیا۔ 
کاروان سرائے

یہ واپسی کے راستے پر آخری گاؤں تھا۔ یہاں سے چلے تو پھر وہی بے آب و گیاہ ویران میدان جس کے کناروں پر پہاڑوں کی جھالر تھی۔ اب یہ جھالر ہمارے پیچھے رہ گئی تھی۔ میدان پار کر کے مولہ آبشار کی نشاندہی کرنے والے اسی چھوٹے سے بورڈ کے قریب سے واپس خضدار سکھر موٹر وے پر چڑھ گئے ۔ رولر کوسٹر رائیڈ کا اختتام ہوا ، سانس میں سانس اور موبائل میں سگنلز واپس آئے، گھروں اور پیچھے رہ جانے والی جیپوں سے رابطے کیے گئے۔ فوجیں امارات ہوٹل پہنچیں، فریش ہوئے، کچھ ٹھنڈے ہوئے، مٹی اتاری اور پڑ کر سو گئے، جب تک باقی سپاہی شام ڈھلے واپس ہوئے، ہم تازہ دم ہوچکے تھے۔ ان کی آمد کے ساتھ ساتھ ایک طوفان باد گرد بھی چلا آیا، خوب چمکا، خوب گرجا، ہماراخیال تھا کہ اب برسا کہ تب برسا، لیکن ہم کراچی والے جہاں جائیں باران رحمت وہاں سے کان لپیٹ کر نکل  جاتا ہے۔

لنچ نما ڈنر کے بعد بمشکل تمام فوجیں کراچی واپسی کے لیے روانہ ہوئیں ۔
الامارات ہوٹل ، خضدار



ہم سے مت پوچھ راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے


---------------------------------------------------------------------

خصوصی شکریہ برائے مشاورت: جناب ابو ذر نقوی، جناب جام اقبال صاحب اور جناب ماجد حسینصاحب

پاکستان میں سیاحت کے حالات کا ایک جائزہ پڑھئیے۔

سیاحت کے شعبے میں سرکاری اور نجی سیکٹر کا احوال جانئیے۔

بلوچستان کے بارے میں مزید جانئیے ۔ ۔ ۔