خوبیاں، خامیاں، مواقع اور اندیشے
دیوسائی، فوٹو کریڈٹ بشکریہ: فیضان قادری |
جنگلات اور چراگاہوں سے نیچے نظر ڈالیں تو دریائے سندھ کے میدانی علاقے جو اپنی زرخیزی کے باعث بریڈ باسکٹ آف پاکستان کہلاتے ہیں۔ پھر شمالی لینڈ اسکیپ سے بالکل مختلف سندھ اور بلوچستان کے خطے ہیں۔ جن کا اپنا انفرادی جغرافیہ ہے ۔ ایک طرف سندھ کے گرم میدانی علاقے جو کھجور اور آم کی فصلوں کے لیے مشہور ہیں رفتہ رفتہ تھر پارکر کے عظیم صحرا میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو بالآخر سندھ کے ساحلوں سے جاملتے ہیں ۔ دوسری جانب بلوچستان کا پتھریلا مگر خوبصورت لینڈاسکیپ ہے جسے ماونٹین اسکیپ یا راک اسکیپ کہنا زیادہ مناسب ہے، جس کے ساتھ بلوچستان کے ان چھوئے ،خوبصورت اور شفاف پانیوں والے ساحل بچھے ہیں ، پر پاکستان ان ساحلوں پر ختم نہیں ہوجاتا، سمندروں میں پاکستانی حدود میں متعدد جزائر ہیں جو سرزمین پاکستان کا حصہ ہیں ۔ ان میں استولا، چرنا اور منوڑا مشہور ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً سمندر میں نمودار ہوتے اور دوبارہ سمندر برد ہوتے رہتے ہیں ۔ ان خطوں کے اپنے موسم ہیں۔کہیں ساحلی ہوائیں، کہیں گرد باد، کہیں بارش، کہیں برفباری۔
خطہ ءِ ارض ِ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور ان ہزاروں سالوں کے دوران جو تہذیبیں اور قومیں یہاں رہی یا یہاں سے گزری ہیں ان کے آثار سرزمین پاکستان میں بکھرے پڑے ہیں۔ شمال میں دو سے چار ہزار سال قدیم گندھارا تہذیب کے آثار، وسط میں 5000 سال پرانی وادی مہران یا انڈس ویلی کی تہذیب کے اہم مراکز ہڑپہ اور موئن جوداڑو ، بلوچستان میں 9000سال قدیم ترین[7000 قبل مسیح] تہذیب مہر گڑھ ، تقریباً ہزار سال قدیم لسبیلہ میں شہر روغان نامی غاروں کا شہر جو پہاڑیوں پر بسا ہے اور جسے بدھ مت کی عبادت گاہ سے منسوب کیا جاتا ہے ۔
شہر روغان Cave City لسبیلہ بلوچستان: فوٹوکریڈٹ: کشف جی |
اس خطہ زمیں سے دارائے اعظم اور سکندر اعظم گزرے ، موریہ سلطنت کے عظیم بادشاہوں چندر گپت، اسکے پوتے اشوک اعظم، مغل بادشاہوں بابر اور اکبراعظم، ملکہ برطانیہ نے حکومت کی، ان عظیم شخصیات سے منسوب آثار پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو پاکستان چار بڑی اور متعدد چھوٹی چھوٹی ثقافتوں کا مجموعہ ہے جن میں سے ہر ایک اپنے آپ میں ایک مکمل تہذیب ہے ۔ جن کی اپنی اپنی منفرد ثقافت ہے ۔
غرض پاکستان میں وہ سب کچھ ہے جس کے لیے کسی سیاح کو شاید کئی ملکوں جانا پڑے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاحت کو وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010 میں بین الاقوامی سیاحت کا حجم تقریباً ساڑھے نو لاکھ سیاح تھا ۔ جو کم ہو کر 2013 میں ساڑھے پانچ لاکھ رہ گیا تھا اور 2014 میں مزید کم ہوکرابتدائی چھ ماہ میں دولاکھ سیاحوں سے بھی کم رہ گیا تھا یعنی سال بھر میں کوئی چار لاکھ ۔
نیشنل ٹورزم کے حوالے سے پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق سن 2009 میں 46 ملین پاکستانی سیاحوں نےاندرون ملک سفر کیا ۔ ان "سیاحوں" میں سے صرف 14 فیصد نے خالص سیر و تفریح کی غرض سے سفر کیا باقی لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملاقات، کاروبار، علاج معالجہ یا زیارات کی غرض سے عازم سفر ہوئے۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان آنے والے بین الاقوامی سیاحوں میں سے تقریباً پچاس فیصد بیرون ملک خصوصاً یورپ میں رہائش پذیر پاکستانی ہوتے ہیں جو سالانہ چھٹیوں میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی غرض سے وطن واپس آتے ہیں ۔
بین الاقوامی غیر ملکی سیاحوں کے پاکستان کا رخ نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست امن و امان کی غیر تسلی بخش صورت حال اور سیاحوں کے لیے مطلوبہ سہولتوں کی عدم فراہمی ہیں جن کے پیچھے حکومت کی اس سیکٹر سے عدم دلچسپی کا واضح ہاتھ نظر آتا ہے۔ سیاحت کئی ملکوں کے لیے ایک بہت اہم سیکٹر ہے جس سے ٹرانسپورٹ، مواصلاتی خدمات جیسے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز، ہوٹلز، ریسٹورینٹس، ریسٹ /گیسٹ ہاوسز، ٹورسٹ/ سووینیر شاپس، مقامی سوغاتوں اور ہنرمندوں کی ترقی، ٹریول گائیڈز، ٹوور آپریٹرز ، پورٹرز کا کاروبار اور روزگار منسلک ہے اور یہ سیکٹر ان ذیلی سیکٹرز میں ایک بہت بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع اور ریونیو پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی ٹورزم اینڈ ٹریول تقابلی انڈیکس کی 2015 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سیاحت کے حوالے سے دنیا کے 141 ملکوں کی فہرست میں 125 ویں نمبر پر ہے ۔
سیاحت جیسے اہم سیکٹر میں حکومت کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ کبھی اسکو وزارت مذہبی امور کے ساتھ منسلک کردیا گیا، کبھی وزارت تجارت کے ماتحت کردیا گیا، کبھی پی ٹی ڈی سی قائم کردی، کبھی وزارت ثقافت و کھیل کے حوالے کردیا ۔ کبھی یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ ٹورزم وفاقی معاملہ ہے یا صوبائی۔ پاکستان کی پہلی سرکاری سیاحتی پالیسی کا اجراء 1990 میں ہوا ۔ لیکن فنڈز کی کمی کے باعث یہ پالیسی کبھی بھی پورے طور پر نافذ نہ ہوسکی۔ 2010 میں ایک اور سیاحتی پالیسی تیار کی گئی لیکن وہ 18ویں ترمیم کے بعد سیاحت کا محکمہ صوبوں کے حوالے کردینے کے باعث نافذ نہ ہوسکی۔ صوبوں کی حکومتوں کو کرنے کو اور بھی کام ہوتے ہیں۔
ملکی/قومی سیاحت
بقول پلڈاٹ اندرون ملک سفر کرنےوالوں میں سے صرف 14 فیصد پاکستانی خالص سیاحت کی غرض سے سفر کرتے ہیں ۔ روایتی طور پر پاکستان میں سیاحت کی غرض سے نیچے سے اوپر یعنی کراچی سے بالائی شہروں کی طرف رخ کرنے کا رجحان ہے سیاحوں کا بہاو ملک کے جنوبی علاقوں سے پاکستان کے شمالی اور انتہائی شمالی علاقوں کی طرف ہوتا ہے۔ کون کتنا شمال کی طرف رجوع کرتا ہے یہ بندے کے فنڈز اور ہمت پر منحصر ہوتا ہے۔ کچھ کراچی سے حیدرآباد یا ٹھٹھہ جا کر ہی خوش ہوجاتے ہیں، کچھ لاہور تک جا پاتے ہیں ، کچھ راولپنڈی اسلام آباد اور مری گھوم کر تفریح کر لیتے ہیں ۔
مری جی پی او: فوٹو کریڈٹ بشکریہ محمد احسن |
مری کافی عرصے تک جنوبی پاکستان کے میدانی اور شہری یعنی گرم علاقوں کے شہریوں کے لیے مرکزی سیاحت کا مرکز بنا رہا اور آج بھی ہے۔کوئٹہ بھی موسم گرما میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا رہا ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے بلوچستان میں بد امنی کے بارے میں سچی کم اور جھوٹی زیادہ افواہوں کے باعث لوگ ادھر جانے سے کتراتے ہیں۔ مری اور کوئٹہ کے علاوہ ناران کاغان کی مشہوری کرنے میں محمد علی زیبا، ندیم شبنم اور نشو اور غلام محی الدین وغیرہ نے حسب توفیق کافی حصہ لیا ۔ بہت ہوا تو شوقین لوگ سیف الملوک تک جاپہنچے۔
پچھلے چند برسوں میں ملک کے انتہائی شمالی علاقوں میں ملکی سیاحت بہت تیزی سے بڑھی ہے ۔ اور سیاحت صرف سیر و تفریح سے بڑھ کر جہاں گردی، کوہ نوردی اور ٹریکنگ کی حددود میں داخل ہوچکی ہے۔ کراچی کے علاوہ لاہوراور اسلام آباد و پنڈی وغیرہ کے نوجوان ستاروں سے آگے اور جہاں ڈھونڈنے کے ٹو بیس کیمپ تک سیاحت اور ٹریکنگ کی غرض سے جانے لگے ہیں۔ اس سے پہلے بھی لوگ ان مقامات تک جاتے تھے لیکن وہ زیادہ تر ٹریکر اور کوہ نورد ہوا کرتے تھے اور ان کی خبریں ان ہی کی کمیونٹی تک محدود رہتی تھیں۔ عام لوگوں کو جہاں گردی کا " وائرس" اتنا متاثر نہیں کرتا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا کی آمد نے یہ حجاب اٹھا دیا ہے ۔ اب ٹریکرز اور کوہ نوردگان کی دیکھا دیکھی عام لوگ بھی سیاحت کی غرض سے ان علاقوں کی طرف جانے لگے ہیں اورشوقیہ اور پروفیشنل ٹریکرز و کوہ نوردگان کی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ نہ صرف حضرات بلکہ خواتین اور تنہا خواتین کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ان مشکل علاقوں میں ٹریکنگ کے لیے جانے لگی ہے، جن میں خاصی تعداد باحجاب خواتین کی بھی ہے۔
فیری میڈوز: گلگت بلتستان، فوٹو کریڈٹ: طلحہ شکیل |
یہ شوق پیدا کرنے ، اسے مہمیز دینے اور شمالی علاقوں کی طرف سیاحوں کی ڈاریں بھیجنے میں بلاشبہ سب سے زیادہ کریڈٹ پاکستان کے مایہ ناز کوہ نورد مستنصر حسین تارڑ کو جاتا ہے۔ انہوں نے ملک کے شمالی علاقوں کے بارے میں دسیوں سفرنامے لکھے جنہوں نے عام لوگوں تک ان جنت نظیر مقامات کی ایسی تصویر کشی کی کہ لوگ دیوانے ہوگئے۔ تارڑ صاحب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آنے کے بجائے اک داستاں اٹھا لائے۔ انکی کتابیں چلتا پھرتا متعدی مرض ہیں، جس کو چھو جائیں وہ گیا کام سے۔ صرف وہی نہیں اکثر غیر ملکی سیاح بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستانی شمالی علاقے سوئٹزر لینڈ سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔ مشہور کوہ پیما میسنر جو دنیا بھر کے پہاڑی سلسلے اپنے پیرو ں تلے روند چکا ہے بار بار دوڑ کر پاکستان چلا آتا ہے اس کا کہنا ہے کہ " میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے شمال کو محفوظ کرلوں اورسالوں بعد کوئی بچہ مجھ سے پوچھے کہ جب یہ دنیا بنی تھی تو کیسی تھی تو میں اسے یہاں لاوں اور دکھاوں کہ جب دنیا بنی تھی تو ایسی تھی۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقے جنت نظیر ہیں۔ لیکن یہ پاکستان کی خوبصورتی کا صرف ایک پہلو ہے۔ جو اپنی جائز پروموشن کے باعث پاکستان کی دیگر خوبصورتیوں پر حاوی ہوگیا ہے۔ خاص کر پاکستان کے جنوبی علاقوں کی خوبصورتیوں پر۔ ۔ ۔
رنی کوٹ، سندھ، فوٹوکریڈٹ بشکریہ فیضان قادری |
--------------------------------------------
حصہ دوئم
یہ بلاگ مورخہ 20 اپریل 2016 کو ہم سب پر شایع ہوچکا ہے۔
جنوبی پاکستان کے سیاحتی مقامات کے بارے میں جانئے ۔ ۔ ۔
مولہ چٹوک، کنڈ ملیر، شہر غاراں [گوندرانی/ ماہی پیر]، استولہ آئی لینڈ
یہ بلاگ مورخہ 20 اپریل 2016 کو ہم سب پر شایع ہوچکا ہے۔
جنوبی پاکستان کے سیاحتی مقامات کے بارے میں جانئے ۔ ۔ ۔
مولہ چٹوک، کنڈ ملیر، شہر غاراں [گوندرانی/ ماہی پیر]، استولہ آئی لینڈ