Thursday, October 22, 2015

مکران کوسٹل ہائی وے کے جلوے


بوزی پاس سے ذرا پہلے، مکران کوسٹل ہائی وے، سطح سمندر سے تقریباً 250 میٹر کی بلندی پر
"دادو ۔۔۔ کب آئے گا " 

یہ وہ سوال تھا جو ہمارے پیر پٹھو/سخی داتار کے سفر کے دوران فاطمہ نے بیسیوں بار ابو سے پوچھا ہوگا ۔ ہم سویرے سویرے پیرپٹھو ، ٹھٹہ کے لیے گھر سے چلے تھے ۔ لیکن راستے میں پیالہ ہوٹل پہ ناشتہ وغیرہ کرتے کچھ وقت گزرا، پھر ہم نے ایک نئے راستے سے بذریعہ سجاول بائی پاس جانے کا فیصلہ کیا جو شاید ٹھٹہ میں سے گزرنے کی نسبت زیادہ طویل لیکن رش سے مبرا تھا ۔ سو جب ہم اپنے میزبانوں کے ہاں پہنچے تو تقریباً رات ہو چکی تھی ، درمیان پر ایک جگہ لنچ کے لیے بھی رکے ۔ جہاں ہم جارہے تھے فاطمہ وہاں بچپن سے جاتی ہے۔ کئی بار جاچکی ہے، وہاں ہر سائز اور عمر کے بچے ہوتے ہیں جو اردو بالکل نہیں جانتے لیکن بچوں کا ڈاک خانہ زبان کی سرحدوں سے بلند و بالا ہوتا ہے۔ سو اس کی بچوں کے ساتھ خوب بنتی ہے۔ پھر وہاں گائے، گدھے، مرغیاں، بلی کتے اور بکریاں وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اسکا دل خوب لگتا ہے۔ اب کچھ تو راستے کی طوالت اور کچھ وہاں مزے کرنے کی جلدی نے فاطمہ کو بیزار کیا ہوتا تھا اور اس نے بار بار ابو سے " دادو کب آئے گا" پوچھ پوچھ کر باقیوں کو بے زار کر دیا تھا ۔

"فاطمہ ۔۔ اگر ہم تمہیں کنڈ ملیر لے کر جائیں گے تو وہ تو بہت دور ہے ، اگر تم یہاں بور ہو رہی ہو تو کنڈ ملیر کیسے جاو گی" ابو نے فاطمہ سے پوچھا۔ کنڈ ملیر فاطمہ کی کمزوری تھا۔ فاطمہ نے کنڈ ملیر کے پچھلے ٹرپس کی بے تحاشا تصاویر دیکھ رکھی تھیں اور دیکھ دیکھ کر اور قصے سن سن کر اس کا پیمانہ ءِشوق کنڈ ملیر جانے کو لبریز تھا بلکہ ابلا پڑتا تھا۔ باقی لوگ کنڈ ملیر اس سے پہلے جا چکے تھے لیکن فاطمہ نے ابھی تک نہیں دیکھا تھا۔

چرنا آئی لینڈ کے ٹرپ کے دوران مسٹر اینڈ مسز مزمل نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش وہ کبھی کنڈ ملیر پر نائیٹ کیمپنگ کر سکیں۔ہم اس سے پہلے کنڈ ملیر پر نائیٹ کیمپنگ کر چکے تھے۔ ایک بار ایک اور فیملی کے ساتھ اور دوسری بار بس ہم ہی ہم تھے تن تنہا ۔ سو مزمل سے یہ سنتے ہی ہم نے انہیں نائیٹ کیمپنگ کی آفر کر دی اور وعدہ کر لیا کہ ہم جب بھی کنڈ ملیر جائیں گے، انہیں ساتھ لے جائیں گے۔ سو یہ طے ہوگیا کہ ہم دو خاندان ایک ساتھ کنڈ ملیر پر نائیٹ کیمپنگ کریں گے، اس میں کچھ انکا شوق اور کچھ کچھ ہماری اپنی غرض بھی شامل تھی۔ 

کنڈ ملیر جنت نظیر ارض پاک پر ایک ایسا خطہ ہے جہاں حضرت انسان کے قدم کم ہی پڑے ہیں۔ گو کہ اب سوشل میڈیا کی آمد کےساتھ ساتھ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اور سنی سنائی کی بنیاد پر آمد و رفت بڑھ گئی ہے لیکن پھر بھی ایک اندازے کے مطابق کے ٹو بیس کیمپ جانے والوں کی تعداد آج بھی کنڈ ملیر جانے والوں سے زیادہ ہی ہوگی۔ اسکی ایک وجہ تو شمالی علاقوں کی مشہوری ہے۔ جو مستنصر حسین تارڑ المعروف چاچا جی نے حسب توفیق کی ہے، باقی کثر انکے بہکائے ہوئے نوجوانوں نے مزید پوری کر دی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے شمالی علاقے اس تعریف اور مشہوری کے شایان شان ہیں۔ لیکن پاکستان کے جنوبی علاقے بھی اپنی ایک شان بلکہ شانِ بے نیازی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے جنوبی علاقے ،شمال کی طرح ہر ایک کی آنکھوں کو اپنے حسن سے خیرہ نہیں کرتے۔ جنوبی پاکستان کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک خاص ذوق اور ایک خاص نظر چاہیے جو ہر ایک کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک طرف "گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نا پرانا" تو دوسری طرف " میرا کالا ہے دلدار تے گوریاں نوں پراں کرو" ۔ جن کو سانولی سلونی سی محبوبہ چاہئیے ہو ان کے لیے چٹِیاں کلائیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

اب سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک کی آمد کے ساتھ ہی آن لائن ٹوور آپریٹرز کی مشرومنگ سے ملکی سیاحت کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے اور پاکستانیوں کے قدم ان اونچائیوں اور وسعتوں تک پہنچنے لگے ہیں جہاں اس سے پہلے فرنگی کافر ہی پہنچ پاتے تھے۔ جہاں شمالی علاقوں میں ملکی ٹوورزم بڑھا ہے وہاں ملک کے جنوبی حصوں میں بھی نقل حرکت نظر آنے لگی ہے۔ کراچی والے بے چارے جن کے لیے لے دے کر ایک ساحل ہی ہے تفریح کے لیے ،وہاں بھی نئے سال، کرسمس، عید بقرعید پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ ایسے میں کراچی کے نوجوان کراچی کے نزدیک ترین لیکن کراچی سے باہر تفریحات تلاشنے لگے ہیں۔ گڈانی تو اب وہ رضیہ بن چکا ہے جو مکمل طور پر غنڈوں میں گھر چکی ہے۔ شب بریکنگ یارڈز نے گڈانی کے خوبصورت ساحل کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ اور آنے جانے والوں کو ٹھیک ٹھاک ہراساں کرتے ہیں۔ سو اب کراچی والے" پرے سے پرے سے پراں اور بھی ہیں" کے مطابق کنڈ ملیر جانے لگے ہیں۔ چند ایک ٹوور آپریٹر بھی باقاعدہ ہر ویک اینڈ پر کنڈ ملیر ٹرپس لے جانے لگے ہیں۔ گو کہ ابھی تک بلوچستان کی دہشت باقی ہے، بی ایل اے کا خوف اور افواہیں بھی گردش میں رہتی ہیں۔ پھر بھی دیوانے رسیاں تڑا کر نکل ہی جاتے ہیں۔ 

مکران کوسٹل ہائی وے شاید پاکستان کی خوبصورت ترین شاہراہ ہے جہاں وقت اور فاصلے کی ساری پیمائشیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اور راستہ فیول اور پانی سے ناپا جاتا ہے۔ راستے میں کہیں صحرا،کہیں بیاباں، کہیں پہاڑ،تو کہیں سمندر، کہیں کہیں نخلستان۔پہاڑوں کی قدرتی سنگ تراشی سے بنی اشکال ، اللہ اللہ۔ اس شاہراہ کو متصور کرنے والوں، ڈیزائن کرنے والوں، تعمیر کرنے والوں اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں پر اللہ اپنی رحمتیں نازل کرے۔ ایسا لگتا ہے جیسے

دین، زمین، سمندر ، دریا، صحرا ، کوہستان
سب کے لیے سب کچھ ہے اسمیں، یہ ہے پاکستان
اسی خطہ ارضِ پاک کے لیے کہا گیا تھا۔

فاطمہ اور مزمل سے کیے وعدے کو دو سال ہونے کو آئے لیکن درمیان میں کچھ نہ کچھ ایسا ناگہانی ہوتا رہا کہ وعدہ وفا ہونے کا موقع آہی نہیں رہا تھا ۔ ابو سدا کے آوارہ مزاج ، ہر ہفتے کسی نہ کسی کے ساتھ اپنا کنڈ ملیر کا پروگرام بنا کر آجاتے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ پروگرام کینسل ہوجاتا۔ شروع شروع میں تو ہم ایسی اطلاع پر ابو کو جذباتی بلیک میلنگ کر کے باز رکھنے کی کوشش کرتے کہ اب آپ ہمارے "اکلوتے والدین" رہ گئے ہو ، اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ہم کیا کریں گے، لیکن جب تواتر سے پروگرام فیل ہونے لگے تو ایسی اطلاعات پر ہم بس مسکرا کر انہیں دیکھتے اور کہتے کہ ہاں ہاں ٹھیک ہے، چلے جائیں ۔ اور پھر پروگرام کینسل ہوجاتا اور ابو شدید مایوس ہوتے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ہم نے کہا کہ چھوڑیں سب کو ہم مزمل سے پوچھ لیتے ہیں اگر وہ ہاں کرتا ہے تو اسی ہفتے چلتے ہیں، موسم بھی مناسب ہے ۔اور مزمل اینڈ کمپنی تو جیسے انتطار میں بیٹھی تھی۔