Friday, October 30, 2015

استولا 2:خوابوں کا اک جزیرہ ہو

سارا سامان کشتی سے اتار کر ساحل پر ڈھیر کر دیا گیا ، ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر کیمپ سائیٹ تک جانا تھا اور تقریباً تیر کر جانا تھا کیوں کہ پانی چڑھاو پر تھا۔ ہم نے اپنا سارا سامان اکھٹا کیا اور ایک بڑے پتھر پر ڈھیر کردیا۔ دیکھا تو ہمارے سامان میں ہماری ہوائی چپل اور سلیپنگ بیگ غائب تھا ۔ چپل تو مل ہی گئی لیکن سلیپنگ بیگ نہ مل کے دیا۔ کافی دیر ہم سلیپنگ بیگ کے لیے پریشان اور خوار ہوئے لیکن مل کے نہ دیا۔ سامان میں دو ہی سلیپنگ بیگ تھے جو بقیہ سلیپنگ بیگز سے جدا ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے تھے ایک بیگ تو ایک اور خاتون کا تھا، دوسرا نہ جانے کس کا تھا۔ جب ہم اپنے سلیپنگ بیگ کی تلاش سے بہت ہی بےزار ہوئے تو دوسرے لاوارث سلیپنگ بیگ پر قبضہ کر لیا کہ جس کا بھی ہوگا ڈھونڈتا ہوا آئے گا ہمارا دے جائے اپنا لے جائے ۔ ورنہ بس یہی ہمارا سلیپنگ بیگ تھا۔

Wednesday, October 28, 2015

چلو چلو ، استولا چلو

استولئینز، فوٹو کریڈٹ: خضر ایم راشد

پھر اک جزیرہ خواب میں مجھے بلانے لگا

چرنا آئی لینڈ ایڈونچر کے دوران مزمل نے ذکر کیا تھا کہ اسکا ارادہ استولا آئی لینڈ جانے کا بھی ہے۔ اور میں نے اسے کہا تھا کہ جب بھی پروگرام بنے مجھے ضرور اطلاع دے۔ ایک ہفتے پہلے کنڈ ملیر نائیٹ کیمپنگ کے دوران مزمل نے دوبارہ استولا کا ذکر کیا اور کہا کہ کوئی بندہ پرائیویٹ لی استولا جانے کا پروگرام کر رہا ہے شئیرنگ کی بنیاد پر۔ میں نے اسے تفصیل بتانے کا کہا، تفصیل اس وقت اسے بھی یاد نہیں تھی۔ سو اس نے وعدہ کیا کہ واپس جا کر مجھے لنک بھیجے گا۔ 

کنڈ ملیر سے واپس آنے کے دوسرے ہی دن میں نے اسے ای میل کی کہ مجھے استولا والے پروگرام کی تفصیل بھیجو۔ اس نے ایک آن لائن دعوت نامہ قسم کا لنک بھیج دیا ۔ گھر آتے ہی فوراً چیک کیا تو مالک مقام دعوت نے ہمیں پکڑ لیا۔ دھڑ سے اسی لنک پر ایک چیٹ باکس کھل گیا ۔ "اسلام وعلیکم نسرین۔آئی ایم سو این سو، آپ کو اس پروگرام کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ لیں۔" یہ تھے جناب خواجہ خضر ۔ ہم نے کیا پوچھنا تھا۔ سب کچھ تو اس شیٹ پر لکھا تھا۔ الٹا ہمارا انٹرویو شروع ہوگیا۔ "پہلے کبھی کہیں گئی ہیں، کسی ٹووور آپریٹر کے ساتھ ٹور کیا ہے،آپ کس کے ریفرنس سے ہیں۔ کیوں ہیں، یہ کیا ہے وہ کیا ہے" ، ساتھ میں اپنے ٹو آئی سی محسن کو بھی ملا لیا اور دونوں نے مل کر ہمیں اتنا بدحوا س کیا کہ ہمیں ان کی ٹرین روکنے کے لیے اپنی ممکنہ ہمسفر کے کےٹو بیس کیمپ ٹریک کی تڑی لگانی پڑی۔

اس شیٹ پر ممکنہ مسافروں کے نام بمعہ فون نمبرز اور کنفرمیشن اسٹے ٹس درج تھے، جیسے ہی ہم نے اپنا نام اور فون نمبر ڈالا، ہمارا فون بجنا شروع ہوگیا۔دوسری جانب خواجہ خضر تھے۔ "نسرین آپ آج میٹنگ میں آرہی ہیں؟"

ہم حیران پریشان "کون سی میٹنگ، کب اور کہاں؟"

"آج شام چھ بجے، میرے گھر پہ، مزمل نے آپ کو میٹنگ کا نہیں بتایا؟"

Thursday, October 22, 2015

مکران کوسٹل ہائی وے کے جلوے


بوزی پاس سے ذرا پہلے، مکران کوسٹل ہائی وے، سطح سمندر سے تقریباً 250 میٹر کی بلندی پر
"دادو ۔۔۔ کب آئے گا " 

یہ وہ سوال تھا جو ہمارے پیر پٹھو/سخی داتار کے سفر کے دوران فاطمہ نے بیسیوں بار ابو سے پوچھا ہوگا ۔ ہم سویرے سویرے پیرپٹھو ، ٹھٹہ کے لیے گھر سے چلے تھے ۔ لیکن راستے میں پیالہ ہوٹل پہ ناشتہ وغیرہ کرتے کچھ وقت گزرا، پھر ہم نے ایک نئے راستے سے بذریعہ سجاول بائی پاس جانے کا فیصلہ کیا جو شاید ٹھٹہ میں سے گزرنے کی نسبت زیادہ طویل لیکن رش سے مبرا تھا ۔ سو جب ہم اپنے میزبانوں کے ہاں پہنچے تو تقریباً رات ہو چکی تھی ، درمیان پر ایک جگہ لنچ کے لیے بھی رکے ۔ جہاں ہم جارہے تھے فاطمہ وہاں بچپن سے جاتی ہے۔ کئی بار جاچکی ہے، وہاں ہر سائز اور عمر کے بچے ہوتے ہیں جو اردو بالکل نہیں جانتے لیکن بچوں کا ڈاک خانہ زبان کی سرحدوں سے بلند و بالا ہوتا ہے۔ سو اس کی بچوں کے ساتھ خوب بنتی ہے۔ پھر وہاں گائے، گدھے، مرغیاں، بلی کتے اور بکریاں وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اسکا دل خوب لگتا ہے۔ اب کچھ تو راستے کی طوالت اور کچھ وہاں مزے کرنے کی جلدی نے فاطمہ کو بیزار کیا ہوتا تھا اور اس نے بار بار ابو سے " دادو کب آئے گا" پوچھ پوچھ کر باقیوں کو بے زار کر دیا تھا ۔