Tuesday, October 18, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہشتم)

یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی 


درہ مولہ کی منفرد ٹوپوگرافی
جاتے ہوئے ہمیں پیدل جانے میں اتنا مزہ آیا کہ واپسی پر جب ہمیں جیپ رائڈ آفر ہوئی تو ہم نے انکار کردیا اور پیدل واپس آنے کو ترجیح دی۔ ریسٹ ہاؤس پہنچے تو جھٹپٹے کا عالم تھا نہ مکمل روشنی نہ مکمل تاریکی۔ کچھ لوگ ہم سے پہلے کے واپس آچکے تھے، تمام مقامی اور ڈرائیور حضرات لنچ یا ڈنر میں مشغول تھے، ہم بھی منہ ہاتھ دھو کر لائن میں لگ گئے، ریسٹ ہاؤس کیونکہ چاروں جانب سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ہوا کا نام و نشان نہیں تھا شدید حبس کی کیفیت تھی۔ اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید لوگ آبشار سے واپس آنا شروع ہوگئے، ریسٹ ہاؤس کے کمرے دن بھر کی گرمی جذب کر کے اب گرمی خارج کرنا شروع ہوگئے تھے، لہذہ کمپاؤنڈ میں دریاں بچھا کر بڑے کھانے کا انتظام کیا گیا، جس کے ساتھ ایک بڑی ایل ای ڈی فلیش لائیٹ لگا کر بظاہر روشنی کی گئی تھی مگر اس کے نتیجے میں باقی سارا جہان گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا ، اور ارد گرد کی خلق خدا نابینا ، نابینا سا محسوس کرنے لگی۔

لائٹ جلاتے ہی صدیوں سے روشنی کو ترسے ہوئے ہر قسم کے پتنگے اور کیڑے مکوڑوں نے لائٹ پر حملہ کردیا، اور حسب ذائقہ و توفیق پلیٹ اور نوالوں میں بھی شامل ہوتے رہے، ایک دم تازہ پروٹین کی فراہمی گو کہ پروگرام میں تو شامل نہیں تھی۔ لیکن مفت دستیاب تھی۔ ویسے بھی ٹوور آپریٹرز کے پروگرام میں کئے گئے سارے وعدے کب پورے ہوتے ہیں۔ ایک سہولت بنا وعدے کے ہی دستیاب تھی تو مقام شکر ہے۔ ورنہ تو پروگرام میں جنریٹر اور بجلی کے پنکھے بھی تھے لیکن صرف منہ دکھائی کے لیے۔ شاید اس لیے کہ پروگرام میں ڈیزل کا وعدہ نہیں تھا۔

کھانے میں مزیدار حلیم والوں کے مختلف قسم کے روغنی کھانوں کے ٹن پیکس ساتھ دال اور سبزی کے ٹن کا تبرک بھی تھا۔ سب نے مرغوں اور بکروں کو ذبح کرنا شروع کردیا، سوری مرغوں اور بکروں کے ٹن کھولنے شروع کئے، ہم نے دال اور سبزی سے رجوع کیا۔ ہمارا یقین ہے کہ سفر میں بندہ کم کھانے سے نہیں مرسکتا لیکن زیادہ کھانے سے مرسکتا ہے۔ ویسےمکس سبزی تھی بڑے مزے کی۔

کھانے کے بعد گرما گرم کولڈ ڈرنک سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ گو کہ ابلی ہوئی کولڈ ڈرنک ابلے ہوئے پانی سے زیادہ مزے دار ہوتی ہے، پر صد شکر کے پورے دن کے بعد ٹھنڈے پانی کا انتظام تھا تو ہم تو گرما گرم کولڈ ڈرنک کے مزے لینے سے صاف انکاری ہوگئے۔ لیکن ہم سفر نے اپنے پیسے پورے کئے، اس پٹھان کی طرح جو اپنے پیسے کھاتا تھا بلکہ دو بار پورے کئے۔ ہمیں پورے دن کے جوڑ توڑ بلکہ ہڈی توڑ سفر کے بعد چائے کی شدید خواہش تھی۔ ہم نے کسی ایک منتظم کی جھلک پاتے ہی چائے کا نعرہ بلند کردیا، ہمارے نعرے میں کچھ اور آوازیں بھی شامل ہوگئیں۔ 

کھانے کے بعد کچھ لوگ وہیں دری پر ہی تاش وغیرہ کھیلنے لگے۔ کچھ لوگ کمروں میں ان بیان ایبل اشیاء سے شغل فرمانے لگے۔ باقی کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا کے مصداق کسی نے کسی کونے میں کرسی ڈال لی، کسی نے کہیں ڈیرہ جمالیا۔ ہمارے پیٹ میں بھی کھانا پڑتے ہی قیلولے کی بڑی زبردست لہر جسم میں دوڑنا شروع ہوگئی، پورا دن کے سفر اور تھکن کے بعد اب دل چاہا کہ کمر سیدھی کر لی جائے۔ پر دری پر کھانے کی باقیات بکھری پڑی تھیں، اور کمرے بڑے سائز کے تندور میں تبدیل ہوچکے تھے۔ ہم دیکھ چکے تھے کہ ایک فور بائی فور پر بہت سارے سرخ رنگ کے قالین اور گاؤ تکئے لدے ہوئے تھے۔ ہم سفر کو ٹپ دی کہ اس سے پہلے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہے، اپنا بندوبست کرلیا جائے، وہ فوراً ہی دو عدد سرخ قالین اور دو عدد گاؤ تکئے جو تقریباً گائے کے سائز کے ہی تھے اٹھا لے آئے۔

 ہم تینوں نے سارے رش سے دور ایک نسبتاً اندھیرا کونا تلاشا ، سارے کمپاونڈ میں ہر سائز اور شیپ کے پتھر تھے، قالین کے نیچے سے چند ایک پتھر ہٹا کر اپنا پلاٹ ہموار کیا اور وہاں اپنی بے در و دیوار جھونپڑی ڈال لی۔ ایک قالین بچھایا، تکئے لگائے اور ذرا سکون کا سانس لیا۔ گرل فرینڈ نے واپس آتے ہوئے دریائے مولہ میں تاری لگا لی تھی، انہیں بھیگے ہوئے کافی دیر ہو رہی تھی اور اب سردی لگنے کے بعد بخار کے مرحلوں میں داخل ہونے لگی تھی۔ دوسرا قالین انہوں نے بطور کمبل اوڑھ لیا، بلکہ قلوپطرہ کی طرح اس میں رول ہوگئیں، ڈسپرین کے قبیل کی کوئی سی دو عددگولیاں اندر انڈیلیں اور جلد ہی خواب خرگوش کے مزے لینے لگیں۔ 

یہ ٹھیک ہے کہ ہم بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے لیکن شام کے آٹھ بجے کس کراچی والےکو نیند آتی ہے۔ گرل فرینڈ کا تو اسپیشل کیس تھا۔ ہم نے اپنے ٹیبلٹ پر قابل برداشت آواز میں دوسروں کو بور کرنے والے گانے لگا لیے اور ہم سفر سے گپیں لگانی شروع کردیں ،دونوں طرف سے بچپن، اسکول، کالج، یونیورسٹی، دوست، آوارہ گردیاں، گھر ، باہر ، غرض آسمان کے نیچے ہر موضوع کا احاطہ کر لیا ہوگا۔ ہم باتیں کرتے رہے اور چائے پکتی رہی ۔

 اسی دوران کسی ظالم نے روشنی کے دھارےکا رخ ایسے بدلا کہ ہم جو تاریکی میں بے فکری سے آڑے ترچھے پڑےتھے، اب ہمیں سنبھل کر بیٹھنا پڑا۔ بار بار کہنے کے باوجود روشنی کا رخ ہماری جانب ہی رہا، ہمیں ان مچُھڑ انکل پر شک ہے کہ یہ ان کی کوئی سازش تھی جن کی فرینڈ ریکویسٹ ہم نے پچھلے مہینے سکھر خیر پور کے دورے کے بعد قبولنے سے انکار کر دیا تھا بلکہ رسید بھی نہیں دی تھی، سازش انکی ہو نہ ہو پر فلیش لائیٹ ان ہی کی تھی۔ اب بھلا بتاو کہ اگر کسی ٹرپ پر پچاس لوگ ساتھ ہوں تو کیا پورے 50 لوگوں کو فیس بک میں شامل کر لیں ۔ اس طرح تھوڑی ناں ہوتا ہے ۔

چائے کے دور کے بعد اللہ اللہ کر کے لائیٹ بند ہوئی، سب ہی تھکے ہوئے تھے۔ چائے کے بعد تاش کی بازی لپیٹ دی گئی اور کچھ لوگوں کو یاد آیا کہ ستاروں کو بھی تو تاڑنا تھا۔ لہذہ لائیٹ آف کردی گئی، ہم نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ ہماری باتیں بھی اب کافی سے زیادہ ہوگئی تھیں، کچھ کچھ نیند بھی غالب آتی جارہی تھی، سو ہم بھی لیٹ کر آسمان تکنے لگے۔ دوسروں کو آسمان پر جانے کیا کیا نظر آرہا تھا ، جانے کون کون سی کہکشائیں اور کون کون سے زودائیک سائنز، پر ہمیں تو بس ایک سیاہ دوپٹے پر بہت سارے تارے ٹنکے ہوئے نظر آئے، ہمارے پڑوسی کو عینک اتارنے کے بعد وہ بھی نظر نہ آتے تھے۔۔ ہمارے لیے تو یہی بہت ہوتا ہے کہ ستارے ہوں اور بہت سارے ہوں، کیونکہ کراچی کے آسمان پر زمینی روشنیوں کی ملاوٹ کے باعث اِکا دُکا ستارے ہی نظر آپاتے ہیں ۔ آخر کار ہم بھی اونگھنے کے مرحلوں میں پہنچے، ٹیبلٹ آف کیا اور تاروں کی چھاوں میں آنکھیں موند لیں۔ رات گئے کسی پہر آنکھ کھلی ، تمام روشنیاں گل ہوچکی تھیں ، اور آسمان تاروں سے جگمگا رہا تھا۔ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی آسمان میں۔
یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی
تیری اک نگاہ پہ نثار ہے
تصویر بشکریہ: شعیب رومی



حصہ نہم : کمنگ سوووون

---------------------------------------------------------------------

خصوصی شکریہ برائے مشاورت: جناب ابو ذر نقوی، جناب جام اقبال صاحب اور جناب ماجد حسینصاحب

خصوصی شکریہ برائے تصویر: جناب شعیب رومی صاحب

پاکستان میں سیاحت کے حالات کا ایک جائزہ پڑھئیے۔

سیاحت کے شعبے میں سرکاری اور نجی سیکٹر کا احوال جانئیے۔

بلوچستان کے بارے میں مزید جانئیے ۔ ۔ ۔