Friday, October 7, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہفتم)

لنگ آجا پتن چناں دا یار


مولہ چٹوک کی سیال چاندی
فوٹوکریڈٹ: آلموسٹ فوٹوگرافی - ماجد حسین
مولہ آبشار کی سمت سے پانی آنے کا بس یہی ایک راستہ تھا۔ سارے پانی ہمارے سامنے سے ہماری طرف آتے تھے۔ جہاں جیپ نے آگے بڑھنے سے انکار کیا تھا وہاں ایک تنگ درہ ہے جس سے راستہ اندر جاتا ہے یعنی پانی جس راستے سے باہر آتا ہے، دونوں جانب اونچے پہاڑ ہیں۔ اگر پیچھے کہیں دو چار روز پہلے بارش ہوئی ہو تو اچانک فلیش فلڈ آنے کی صورت میں لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ لیکن لاعلمی بڑی نعمت ہے، اسی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہم کبھی پانیوں پر اور کبھی پانیوں میں اٹھکیلیاں کرتے چل رہے تھے۔ پانی اپنی فطری زگ زیگ روش پر رواں دواں تھا ہم کبھی پانی کراس کر کے دائیں ہوجاتے، کبھی بائیں، اور کبھی درمیان میں پانی میں چھپا چھپ کرتے ایک دوسرے پر چھینٹے اڑاتے۔ کبھی ہمارے ٹیبلٹ سے نورجہاں تانیں اڑاتیں اور کبھی ہمسفر اپنی آواز کا جادو جگاتے جس میں ہم دونوں اپنی بھونڈی آواز ملانے کی کوشش کرتے اور پھر اپنی ہی آواز سے گھبرا کر چپ ہوجاتے۔ یا ہنس پڑتے۔ ہماری جیپ خراب نہیں ہوئی تھی بلکہ ہماری جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔


جیپ پارکنگ لاٹ
تھوڑی دور جا کر نظرپڑی کہ تین عدد جیپیں بمعہ شاہی جیپ پارک ہوئی ہوئی ہیں۔ اس جگہ سے آگے بڑے بڑے گول اور بیضوی پتھر جنہیں چٹانیں کہنا زیادہ مناسب تھا راستہ روکے ہوئے تھے۔ جب ہم گھر پر ہوتے ہیں تو ہمارے گوڈے گٹے اٹھتے بیٹھتے، خاص کر سیڑھی کے ہر قدم پر دہائی دیتے ہیں کہ ان پر ظلم نہ کیا جائے، لیکن شکر اللہ کا کہ کبھی بھی کسی ٹرپ یا ٹریک پر دغا نہیں دیتے، چوں بھی نہیں کرتے، لہٰذہ ہم باآسانی ان چٹانوں کے پار ہوگئے۔ ٹریک کیا تھا ایک طلسم کدہ تھا، کبھی یک دم ایک تنگ درہ، کبھی پھیل کر ایک وادی، ارد گرد مختلف اشکال، ہیئت اور رنگوں کے پہاڑ، اور درمیان میں پانی ،کہیں نرم روئی سے بہتا ہوا، کہیں چھوٹے چھوٹے جھرنوں کی صورت گنگناتا ہوا، کہیں دھارے مل کر کسی تنگ مقام سے گزرتے جہاں پانی کی تیزی اور گہرائی سے قدم اکھڑتے تھے۔ راستہ دونوں اطراف ہی اونچے نیچے پہاڑوں سے گھرا تھا، سورج پہلے ہی اپنا سفر طے کر کے آرام کرنے جارہا تھا ،دھوپ راستے سے جاچکی تھی، پر روشنی ابھی باقی تھی، گرمی سے کچھ آرام ملا، کچھ ہم نے بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھو لیا۔ تقریباً آدھے راستے میں ہمارے گائیڈ ہم سے آملے اور تقریباً زبر دستی ہمارا بیک پیک ہم سے لے لیا، بالکل میشاء کی طرح۔

میشاء قاہرہ میں ہمارا کلاس میٹ تھا، سابق سوویت یونین سے نو آزاد شدہ جمہوریہ جارجیا سے تعلق رکھنے والا میشاء اور اسکی ہم وطن سِیرا ہمارے سارے ساتھیوں میں سے ہمارے دل کے سب سے نزدیک ہیں۔ میشاء کا اصلی نام مائیکل یا میکائل/ میخائیل تھا جس کا تلفظ جارجین زبان میں میشائل کے نزدیک ترین ہے، سو سب اسکو میشاء کہتے تھے۔ انتہائی نفیس طبیعت، شرمیلا اور جنٹلمین۔ ہم اپنی پوری زندگی میں جتنے بھی حضرات سے ملے ہیں ان میں سے اگر کوئی لفظ "جنٹلمین" پر پورا اترتا ہے تو صرف میشاء ۔ ہمارے ہاسٹل بھی ایک ہی بلڈنگ میں تھے، ہاسٹل سے انسٹی ٹیوٹ مشکل سے سو قدم کے فاصلے پر ہوگا۔ لیکن میشاء ہمیشہ ہم ساری خواتین کے ہاتھ سے کتابیں یا لیپ ٹاپ زبر دستی لے لیتا۔ ہم لاکھ کہتے کہ "میشا یہ بہت بھاری نہیں ہے"، "میشاء میں اسے اٹھا کر باآسانی چل سکتی ہوں"، "میشاء رہنے دو"، پر نہ جی،۔ "ہاں تو ٹھیک ہے نہ بھاری نہیں ہے تو میں اٹھا لیتا ہوں" یا پھر "اچھا لیٹ می سی کہ واقعی بھاری نہیں ہے" اور سامان لے کر یہ جا اور وہ جا،  لو کر لو گل۔

 ہم ماونٹ سینائی گئے، تقریباً 8 خواتین اور تین مرد۔ سینائی اچھا خاصہ مشکل ٹریک ہے، ساری خواتین کے پاس کچھ نہ کچھ سامان تھا، میشا صاحب کبھی کسی کا سامان اٹھا رہے ہیں، کبھی کسی کا، ایک مرحلے پر تو آگے پیچھے اس کے کاندھوں پر پورے 8 بیگ ٹنگے تھے، جو اس نےسب سے تقریباً زبر دستی لیے تھے۔ صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں ، اجنبیوں کے ساتھ بھی اس کا رویہ یہی تھا۔ ہاسٹل کے ارد گرد کے سارے نوجوان اسکے دوست بن گئے تھے، کبھی کسی کی شادی میں جہیز کا سامان اٹھانے جارہا ہے تو کسی کو روڈ پار کروارہا ہے۔ اللہ میاں اسے بہت خوش رکھیں، ہمارے ایک سعود ی ہم جماعت کے بقول میشاء میں اگر کوئی کمی ہے تو صرف یہ کہ وہ مذہباً عیسائی ہے ورنہ وہ ایک مکمل عملی مسلمان ہے۔

ہمارے ہاں اس قسم کی شائستگی شو کرنےوالے حضرات کی مردانگی پر شک ہی کیا جاتا ہے، ہم اس روئیے کے عادی نہیں تھے۔ میشاء نے ایک سال میں ہماری خوب عادتیں بگاڑیں ، باقی خواتین مشرقی یورپ یا افریقہ سے تھیں، ان کے لیے میشاء کا یہ رویہ نارمل تھا۔ دو سال پہلے جب ہم فیری میڈوز کے ٹریک پر تھے ، اور اپنا وزن کچھ نہ کچھ خود بھی اٹھاتے تھے تو سینائی ٹریک اور میشاء کے مہربان روئیے کو خوب خوب اور با آواز بلند یاد کرتے تھے اور ہمارے سارے ساتھی ہمیں چھیڑتے تھے اور معنی خیز انداز میں "ہمم " کرتے تھے، انہیں کیا پتا کہ میشاء کا ساتھ ہونا کیسا ہوتا ہے۔ پر ہمیں یقین ہے کہ ہم آئیندہ جب کوئی ٹریک کریں گے تو ان دونوں نوجوانوں کو یاد کریں گے جنہوں نے فیری میڈوز ٹریک میں ہمارا بے حد خیال رکھا تھا۔ شکریہ دوستو، شکریہ میشاء ، آئی اسٹل مس یو لڑکے۔

ہم نے ٹریک کی ابتدا میں ایک پتھر پر لکھے گئے سیاسی نعرے کا بیک گراونڈ جاننے کے لیے گائیڈ سے رجوع کیا ، انہوں نے بتایا کہ کافی سال پہلے کچھ بلوچ لوگ پہاڑوں پر چلے گئے تھے، حکومت نے انہیں نیچے بلا کر پھانسی دے دی تھی، یہ انہیں کے بارے میں تھا۔ ہمارے کان پھر سے کھڑے ہوئے۔ ہم نے بچپن سے کہیں نہ کہیں یہ پڑھ رکھا تھا کہ بھٹو صاحب کے دور میں کچھ علیحدگی پسند بلوچ پہاڑوں میں چلے گئے تھے اور حکومت نے ان سے مذاکرات کر کے انہیں واپس بلایا تھا اس وعدے پر کہ ان کو معاف کردیا جائے گا اور جب وہ واپس نیچے اترے تو حکومت وقت نے انہیں پھانسی دے دی تھی۔ 

ہمارے پوچھنے پر انہیں بھی یاد آیا اور انہوں نے تصدیق کی کہ یہ وہی پہاڑ ہیں۔دروغ بر گردن راوی ، لیکن اس کا مطلب ہے کہ بلوچستان میں حالات اتنے بھی سازگار نہیں ہیں۔ یہ ٹریک اپنی بناوٹ کے لحاظ سے ایسا ہے کہ اگر داخلی درے پر ایک بندہ بھی بندوق لے کر بیٹھ جائے تو نہ کوئی اندر آسکے نہ کوئی باہر جاسکے۔تاہم راستے میں اب تک ہمیں متعدد جگہوں پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا اور پینٹ کیا ہوا نظر آیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس علاقے میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش ہے۔ ہماری مزید تسلی کرنے کے لیے علاقہ کے ڈی سی نے مناسب مقدار میں سیکورٹی بھی مہیا کردی تھی جس نے ہمیں علاقے کے لیے نقصان دہ نہ گردانتے ہوئے ہراول دستوں کے ساتھ جانا زیادہ مناسب سمجھا۔
دی گائیڈ: ہمارا بیک پیک اٹھائے مولہ آبشار کی جانب رواں دواں ہیں

فلیش فلڈز کا ذکر آیا تو گائیڈ نے آگاہ کیا کہ چند سال پہلے وہ دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ ادھر آئے تھے، اچانک پیچھے سے پانی آگیا اور انہیں تین دن تک پہاڑوں پر گزارنے پڑے، جب پانی اترا تب وہ واپس جاسکے۔ اس دوران دیہاتیوں سے بکری لے کرذبح کی اوراس طرح کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑا۔ فلیش فلڈز یا اچانک آجانے والے سیلاب عموماً کسی دور علاقے یا پہاڑوں میں ہونے والی بارش کے نتیجے میں نشیبی علاقوں میں اچانک بہت سارا پانی آجانے کو کہا جاتا ہے۔ متمدن دنیا میں تو اب مہینوں پہلے سے موسم کی پیش گوئی ممکن ہے کہ کب اور کہاں کتنی مقدار میں بارش متوقع ہے اور اس بارش کے نتیجے میں کون کون سے علاقے متاثر ہونگے، لیکن بلوچستان میں عموماً یہ فلیش فلڈز بے خبری میں بستیوں کی بستیاں ویران کر جاتے ہیں۔ بلوچستان کی جغرافیائی ساخت ایسی ہے کہ زیادہ تر بلوچستان کوہ سلیمان اور اسکے درمیان ندی نالوں اور وادیوں پر مشتمل ہے۔ اگر کہیں دور نارمل بارش بھی ہو تو وہ نشیب میں کسی نہ کسی علاقے میں فلیش فلڈ کا باعث بن سکتی ہے۔ شاہ نورانی کے علاقے میں چند سال پہلے ایسے ہی دو تین بسیں فلیش فلڈ میں پھنس گئی تھیں ، وہاں یہ عام بات ہے۔گزشتہ مارچ اپریل 2016 میں گلگت بلتستان اور کے پی کے میں بھی یہی ہوا تھا۔ 
نشانِ منزل : مولہ آبشار کا آغاز

ان ہی باتوں کے دوران ہمارے سامنے جیسے ایک دیوار سی آگئی۔ یہ مولہ آبشار کا آغاز تھا، گرل فرینڈ اور گائیڈ ہم سے آگے آگے بلکہ کافی آگے پہنچ چکے تھے، ان کے پیچھے ہم اور ہم سے پیچھے ہم سفر فوٹوگرافی کرتے چل رہے تھے۔ ہم جیسے ہی منزل مقصود پر پہنچے، تو سامنے ایک ایسے منظر پر نظر پڑی کہ ہم بس وہیں ساکت ہوگئے، دو طرح کے منظر آپ کو پتھر کر دیتے ہیں، ایک بہت خوبصورت اور دوسرے بہت بد صورت۔ آپ یقین نہیں کر پاتے کہ کوئی شے اتنی خوبصورت یا بد صورت بھی ہوسکتی ہے۔ ہم فیصلہ نہ کر پارہے تھے کہ کس طرف نظر کی جائے، خوبصورتی کی طرف یا بد صورتی کی طرف۔

 ہمارے سامنے دریائے مولہ کے پانی جو نسبتاً تیز اور گہرے تھے آبشار کے اندر کی طرف سے آرہے تھے ۔ سب سے پہلے ایک تقریباً بیس فیٹ گہرا تالاب تھا جس کے دونوں جانب اونچی اور نوکیلی پہاڑی چٹانیں تھیں۔ ہم تینوں نے ہی گہرے پانیوں کی طرف نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا اور ہم باقی سب سے ہٹ کر دوسری جانب پانی کے دھاروں میں پیر ڈال کر چٹانوں پر بیٹھ گئے۔ منظر کیسا بھی ہو خالی پیٹ کچھ زیادہ اچھا نہیں لگتا، اپنے اپنے بیگ ٹٹولے گئے ، چپس، نمکو ، ٹافیاں" جو کچھ بھی ملا ساماں لے کر" اسے معدے کی گلیوں کی جانب روانہ کیا۔
موج مستی @ مولہ آبشار
فوٹوکریڈٹ: آلموسٹ فوٹوگرافی - ماجد حسین

کچھ لوگ تالاب میں تیراکی کر رہے تھے، کچھ "لگے دم، مٹے غم" پر عمل پیرا تھے، ایک دو لوگ مچھلی پکڑنے کے ڈوری کانٹے لے کر آئے تھے وہ مچھلی پکڑنے کی کوشش کرنےلگے، اتنی اچھل کود میں مچھلیوں نے نہ جانے کیا فیصلہ کیا تھا۔ کچھ لوگ تالاب کو پار کر کے مزید آگے جانے کی کوششوں میں تھے،کچھ آگے جاچکے تھے، اگلے پچھلوں کو آگے لے جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کے لیے رسی باندھنے کی کوشش میں تھے۔ اندر جانے والوں کے بیان غیر حلفی کے مطابق چھوٹی بڑی پانچ آبشاریں ہیں۔ پہلی دو آبشاروں کے سامنے نسبتاً گہرے تالاب ہیں، جبکہ پیچھے کی جانب کم گہرائی والے تالاب ہیں۔ دو آبشاریں بڑی جبکہ تین چھوٹی ہیں۔
 پانی کے مسلسل بہاوکے باعث اندر چٹانیں پیٹرا کے غاروں کی طرح چکنی ، خوبصورت اور خطرناک ہوگئی ہیں۔ جن پر پیر ٹکانا یا سہارا لینا مشکل ہے۔ گوگل میپ کے مطابق دریائے مولہ میں پانی پیچھے جھلوان / جھل مگسی کے پہاڑوں سے آتا ہے لیکن بتانے والوں کے مطابق ایک تالاب کے اندر نیچے سے بھی چشمہ ابل رہا تھا۔ کسی کسی پہاڑ سے رستا ہوا پانی بہت زیادہ ٹھنڈا تھا جس کے بارے میں مقامی افراد نے بتایا کہ پہاڑی پر اگنے والی ایک خاص گھاس کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ پانی کو برف میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور اس گھاس سے گزر کر آنے والا پانی ٹھنڈا یخ ہوتا ہے۔ 
مولہ آبشار، فوٹو کریڈٹ: جام اقبال صاحب
ہر کوئی اپنی دھن میں مگن تھا، مغرب ہونے والی تھی کہ ہم واپسی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ، ہمارا ارادہ تھا کہ رش ہونے سے پہلے پہلے ریسٹ ہاؤس پہنچ کر فرصت سے چینج کر کے فریش ہولیں۔ ہم پھر پانی میں چھپا چھپ چل پڑے، چھوٹے چھوٹے مینڈکوں کو ڈراتے، وہی راستہ، پانی اور اٹھکیلیاں۔راستے میں جہاں دل چاہا بیٹھ گئے، کسی کا دل چاہا تو اس نے پانی میں لوٹ لگا لی، الٹی سیدھی تصویریں اور حرکتیں ۔ جیسے بچپن لوٹ آیا تھا ہمارا۔ یہ سچ ہے کہ فیملی کے ساتھ تفریح کرنے کا اپنا مزا ہے لیکن دوستوں کے ساتھ تفریح کرنے کا سواد بھی سوا ہی ہے۔

پا کستان میں سیرو تفریح پر عموماً مردوں کا حق زیادہ سمجھا جاتا ہے بہت ہوا تو بچے بھی شامل تفریح کر لیے، خواتین کا خصوصاً اپنی فیملی سے ہٹ کر کہیں سیر و تفریح کرنے کا تصور ہی نہیں ہے۔ اور فیملی کے ساتھ تفریح میں خواتین فیملی کی خدمت میں ہی مصروف رہتی ہیں، گھر سے بھی دگنی ذمہ داریاں ان پر آجاتی ہیں جبکہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ ٹھیک ہے آپ ایک ذمہ دار خاتون ہیں، ایک خاندان کا مرکز ہیں۔ آپ سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے تین سو پچاس دن اپنی فیملی کو دیں، ان کی فکر کریں، کھانے پکائیں، خدمتیں کریں لیکن ہر سال کم از کم دو ہفتے صرف اپنی زندگی جئیں۔ ان دو ہفتوں میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہ ہو ، کوئی فکر نہ ہو، خاص کر یہ فکر کہ" آج کیا پکے گا"۔ ہم مسلسل اپنی دوستوں کو بہکاتے رہتے ہیں لیکن خواتین ، ، ، بس رہنے دیں انہیں انکو۔ مفکر پاکستان ایسے ہی تو نہیں فرما گئے کہ "لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے"۔


حصہ ششم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

حصہ ہشتم : کمنگ سوووون

---------------------------------------------------------------------

خصوصی شکریہ برائے تصویر و مشاورت: جناب ابو ذر نقوی، جناب جام اقبال صاحب اور جناب ماجد حسینصاحب

پاکستان میں سیاحت کے حالات کا ایک جائزہ پڑھئیے۔

سیاحت کے شعبے میں سرکاری اور نجی سیکٹر کا احوال جانئیے۔

بلوچستان کے بارے میں مزید جانئیے ۔ ۔ ۔