Saturday, September 24, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ششم)

"مجھے آرزو تھی جس کی"


اور پھر وادی مولہ کا آغازہوگیا، جس کا علم مزید بے سمت ، مزید صحتمند اور مزید گول گول پتھروں سے پر راستے سے ہوا، راستہ جیسے ایک قلعہ کی جانب بڑھا جارہا تھا، جیپ نے ایک پہاڑ کے گرد کسی قوس قزاح کی طرح بڑا سا چکر کاٹا، اس چکرکاٹنے میں جیپ کے اندر والوں پہ جو گزری ، نہ پوچھیں، ہم پہلے ہی گرل فرینڈ اور ہم سفر کے درمیان سینڈوچ بنے بیٹھے تھے جنہیں کم از کم ایک ایک سائیڈ ہینڈل خود کو سنبھالنے کے لیے مہیا تھا، لیکن ہم بے پیندے کے لوٹے، خود کو لڑھکنے سے بچانے کےلیے سامنے کی دونوں سیٹوں کی پشت کو سختی سے تھامے بیٹھے تھے اور خیال رہے کہ دوپہر سے بیٹھے تھے اور اب شام ہوچلی تھی۔ اور ہمارے ہاتھ تقریباً اسی پوزیشن میں اکڑ گئے تھے۔ جیپ چکر کھا کر ایک مزید درے کے اندر داخل ہوگئی، جہاں سے دور سے ہی ایک سطح مرتفع پر ایک پیلے رنگ کی چپٹی سی لکیر نظر آرہی تھی، جو بقول گائیڈ ریسٹ ہاؤس تھا۔ جب تک اس لکیرنے ایک باقاعدہ عمارت کی صورت اختیار کی ہم تینوں بشمول گائیڈ جیپ میں ایسے اچھلتے رہے جیسے آگ پر رکھے برتن میں مکئی کے دانے نچلے نہیں بیٹھ سکتے اور شرارتیں کرتے رہتے ہیں۔ 

ریسٹ ہاؤس چاروں طرف پہاڑوں سے گھری ایک چھوٹی سی سطح مرتفع پر واقع ہے جس کے تین اطراف سے دریائے مولہ ایک نیم دائرہ بناتا ہوا بہتا ہے۔ ریسٹ ہاؤس 4/5 پکے کمروں پر مشتمل ہے جو اپنی نوجوانی کےزمانے میں یقیناً اس بے آباد ویرانے میں کسی پنج ستارہ ہوٹل کے کمروں سے کم نہیں ہونگے، تاہم ابھی بھی پانچ ستارہ نہ سہی لیکن اطراف کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک یا دو اسٹار دئیے جاسکتے ہیں۔ کمروں میں ڈبل بیڈ جو اتنے برے بھی نہیں اور دو تین سنگل صوفے موجود ہیں ، کم از کم دو کمروں میں چینجنگ رومز اور واش رومز کی سہولت بھی مہیا ہے، ایک ڈائننگ ہال بھی ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر اسکا ایک بڑا سا کمپاونڈ ہے جسے کیمپ سائیٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسے اگر تھوڑا سا صاف کردیا جائے یعنی موٹے اور چبھنے والے پتھروں کو ہٹا دیا جائے تو ایک بہترین کیمپ سائیٹ ہے۔ 

ہم جب ریسٹ ہاؤس پہنچے تو ہم سے پہلے ہی چند جیپیں پہنچی ہوئی تھیں تھیں اور بہت سارے مسافر ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ ان جیپوں نے مولہ پہنچنے کے لیے کرخ والا راستہ اختیار کیا تھا جو مولہ پاس کی نسبت 40 /45 کلومیٹر زیادہ لمبا تھا لیکن اس راستے پر تقریباً 70/75 کلومیٹر روڈ پکا ہے، جبکہ باقی روڈ مولہ روڈ کی نسبت زیادہ رولر کوسٹر ہے۔ مغرب سے گھنٹہ پہلے ریسٹ ہاؤس پر اترے تو ٹانگیں اکڑ چکی تھیں ، سامان تلاش کیا جو جانے کس جیپ میں تھا ، سامان ملا تو ہمارے بیگ شرابور تھے۔ غالباً کسی جیپ نے ہمارے بیگز سمیت دریائے مولہ کی کسی شاخ میں اشنان کر لیا تھا۔ انتظامیہ میں سے ایک جانی پہچانی صورت نے ہدایت دی کہ آپ لوگ فلاں کمرے میں چلے جائیں۔ ریسٹ ہاؤس کا داخلی گیٹ توپ کے گولوں کے سائز کے گول مٹول پتھروں سے پٹا پڑا تھا، غالباً یہاں سال میں ایک آدھ مرتبہ ہی کوئی آتا ہوگا تو باقاعدہ گیٹ لگانے کا تکلف نہیں کیا گیا، پتھروں سے ہی دروازے کا کام لے لیا جاتا ہے۔ 

انہی پتھروں پہ چل کے اندر پہنچے، کمرے میں سامان رکھا ،گرما گرم پانی سے ہاتھ منہ دھو کر قریباً سوانا باتھ کے مزے لیے اور گرم پانی پی کر اندر باہر کا ٹمپریچر یکساں کیا۔ مغرب ہوئی جارہی تھی، ہمارے گائیڈ راستے بھر مصر رہے کہ اس وقت مولہ آبشار پر جانا مناسب نہیں کیوں کہ آبشار پہاڑوں کے درمیان ہے اور وہاں اندھیرا جلدی ہوتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ ریسٹ ہاؤس پہنچ کر پہلے لنچ وغیرہ کر لیا جائے اور صبح اٹھ کر مولہ آبشار جایا جائے کیونکہ ہم سب نے ہی صبح نو بجے کا ناشتہ کیا ہوا تھا ، اور اب پیٹ میں چوہے ریسلنگ کر رہے تھے ۔ ہم تین میں تھے نہ تیرہ میں کہ ہم علاقے کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے، کھانا مہیا کرنا ہمارے ہاتھ میں نہ تھا، اس بارے میں بھی کوئی اطلاع نہیں تھی کہ لنچ جو اب ڈنر ہوا جارہا تھا کہاں ہوگا، ریسٹ ہاؤس پر یا آبشار پر، اور یہ فیصلہ بہر حال ٹور کے منتظم یا انتظامیہ کے ہاتھ میں تھا۔ منتظم اعلیٰ اب تک ہمیں کہیں نظر نہیں آئے تھے اور ان تمام آپشنز میں انتظامیہ کی واحد دلچسپی جلد از جلد آبشار پر جانے میں تھی۔ 

لہذہ ایک بار پھر ہدایت دی گئی کہ اپنی جیپ میں بیٹھ جائیں آگے جانے کے لیے۔ ہم نے ہدایات پر عمل کیا، ہم کچھ فیصلہ نہ کر پارہےتھے کہ سامان یہاں چھوڑیں یا ساتھ لے چلیں، سو تینوں نے اپنے بیک پیکس جیپ میں لادے اور پھر سے جیپ میں فکس ہوگئے۔ جیپ نے یو ٹرن لیا، ریسٹ ہاؤس کے عقب سے نیچے اتری، نیچے جھک کر دو پہیے مولہ سے آنے والے پانیوں میں ڈالے اور وہیں بیٹھ گئی، آگے جانے سے انکاری ہوگئی۔ہم تو پاگل تھے جیپ کا دماغ تھوڑی خراب ہوا تھا۔ ڈرائیور نے لاکھ منتیں کیں لیکن ٹس سے مس نہ ہوئی۔
"مجھے آرزو تھی جس کی، وہ مقام آگیا ہے"
ہم تینوں گائیڈ اور ڈرائیور سمیت بے یارو مددگار کھڑے تھے، جب منتظم اعلیٰ کی جیپ شاہانہ کرو فر کے ساتھ ہمارے سامنے سے گزری، ہمارے ساتھ ایک کپل اور بھی تھا۔ ڈرائیور پیدل واپس جا کر انتظامیہ کو جیپ کی خرابی کی اطلاع کر آیا تھا اور اسی کی زبانی اطلاع ملی کہ ایک اور جیپ ہمیں لفٹنے کے لیے بھیجی جائے گی، آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا دوسری جیپ کا کہیں پتا نہ تھا۔ ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ جیپ ہمیں کتنی دور تک لے جائے گی اور اسکے بعد کتنا فاصلہ پیدل طے کرنا ہوگا۔ جب سب جیپ سے جارہے تھے تو ہمیں بھی جیپ سے ہی جانا تھا، شاید دور جانا تھا ، یہ تو بعدمیں پتا چلا کہ جیپ کا تکلف ایویں ہی تھا ورنہ فاصلہ اتنا زیادہ نہ تھا کہ جیپ کے بغیر طے نہ کیا جاسکتا۔ جیپ نے ہمیں مزید چند گز بعد ٹاٹا بائی بائی کردینا تھا پھر محمود و ایاز کو ایک ہی لائن میں آجانا تھا۔ 

لیکن یہ تو بعد کی بات ہے، فی الحال تو ہمیں یہ معلوم تھا کہ جیپ سے آگے جانا ہے اور کتنا جانا ہے اللہ جانے ، ہم اگلی جیپ کے انتظار میں تھے کہ ہمیں منتظم اعلی کی جیپ نیچے آتی نظر آئی، ہم میں سے ہر ایک کو توقع تھی کہ وہ کم از کم جیپ کی کھڑکی میں سے اپنا دیدار عطا کر کے ہمیں تسلی دیں گے کہ فکر نہ کریں اگلی گاڑی آرہی ہے، لیکن انہوں نے تو اے سی جیپ کی کھڑکی کا شیشہ تک نیچے کرنا گوار ہ نہ کیا۔ ہم سب کی نظریں اس طرح جیپ پر جمی تھیں جیسے کسی عقاب کی نظریں اپنے شکار پر، اور ہم ہر لمحے یہ توقع کر رہے تھے کہ جیپ اب رکی، اب رکی ، اب رکی، لیکن جیپ خراماں خراماں نیچے اتری، پانی سے گزری، اور ایک شان بے نیازی سے ہمارے سامنے سے ہوتی ہوئی آگے چلی گئی۔ ہم جو پہلے ہی گرمی میں جلے بھنے ہوئے ہوئے تھے بھنوٹ ہو گئے، اتنی غیر ذمہ داری اور لاتعلقی کی توقع کم از کم ہم نے ایک ذمہ دار اور مشہور ٹوور آپریٹر سے نہیں رکھی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا، اور فیصلہ کیا کہ "اِناں نو نئیں چھڈنا"
مولہ چٹوک آبشار ٹریک کا داخلی دروازہ

طےہوا کہ پیدل ہی چلتے ہیں اور کوئی آپشن رہ ہی نہیں گیا تھا۔ کیونکہ جن سے کوئی امید تھی جب انہوں نے ہی کوئی امید نہیں چھوڑی تھی تو ہم اور کسی کی ذمہ داری تو نہیں تھے۔ اور ہمسفر کے بقول "صبح سے جیپ میں بیٹھے بیٹھے اپنا تو پیندا فلیٹ ہوگیا" سب کے پیندوں کا یہی حال تھا۔ اپنا اپنا بیک پیک اپنے کاندھوں پر ڈالا اور چل پڑے، ہمارے ساتھ والے کپل کو بہت جلدی تھی وہ جلدی جلدی قدم بڑھا کر ہم سے کہیں آگے چل دئے ، سیکیورٹی بھی ان ہی کے ساتھ آگے چل دی، گائیڈ پیچھے ڈرائیور کے ساتھ رہ گئے ، اور رہ گئے ہم تینوں۔ گرل فرینڈ، ہم اور ہم سفر۔

حصہ پنجم پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

حصہ ہفتم پڑھئے

------------------------------------------------

تصاویر: بہ کیمرہ مصنف

خصوصی شکریہ جناب ماجد حسین صاحب برائے یادداشت و معلومات

پاکستان میں سیاحت کے حالات کا ایک جائزہ پڑھئیے۔

سیاحت کے شعبے میں سرکاری اور نجی سیکٹر کا احوال جانئیے۔

بلوچستان کے بارے میں مزید جانئیے ۔ ۔ ۔