ناکامی سے کامیابی کے سفر کی ایک داستان
بی اے کے امتحان میں جامعہ کراچی میں سینٹر پڑا تو یونیورسٹی میں پڑھنے کا خیال آیا۔ بی اے کے بعد جامعہ میں داخلے کے لیے درخواست دی۔ عمرانیات کے مضمون میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کیا ، جامعہ نے، ورنہ ہم نے تو ماس کوم کو پہلے آپشن پر رکھا تھا۔
چند نا گزیر وجوہات کی بناء پر فیس جمع کروانے میں تاخیر ہوئی۔ فیس جمع کروانے کا آخری دن تھا۔ کاونٹر پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ میٹرک کی اصل سند تو گھر بھول آئے ہیں اسکے بغیر داخلہ نہیں ہوسکتا۔ اسی وقت جامعہ سے واپس گھر اور گھر سے دوبارہ جامعہ پہنچے۔ دوبارہ سے کاونٹر پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ بی اے پارٹ ون کی مارکس شیٹ ڈپلی کیٹ ہے۔ اس لیے داخلہ ندارد ۔ اس میں ہمارا کیا قصورکہ اوریجنل مارکس شیٹ آج تک کورئیر والوں نے ڈلیور نہیں کی تھی۔ ایک دن میں دوسری ناکامی۔
جامعہ کے گیٹ سے ایڈمن بلاک تک چار چکر پیدل لگانے اور تقریباً ہر جگہ سے انکار سننے کے بعد ایک اہلکار نے بتایا کہ اصل مارکس شیٹ کے گم ہونے کی ایف آئی آر کٹوائیں اور اسکی کاپی فارم کے ساتھ لگائیں تو داخلہ ممکن ہے۔ دن کے بارہ بجے تھے، ایک بجے کاونٹر بند ہوجانا تھا۔ کچھ دیر گلشن اقبال کا تھانہ ڈھونڈنے میں لگی۔ خیر سو روپے کے عوض ایف آئی آر کٹوائی ، کاپی حاصل کی اور اس طرح آخری لمحوں میں جامعہ کراچی میں داخلے کا اعزاز حاصل کیا۔
جس وقت کانوکیشن میں چانسلر کے ہاتھ سے تالیوں کی گونج میں گولڈ میڈل وصول کیا ساری تھکن جاتی رہی۔ خیر جناب تعلیم کے بعد ملازمت تلاش کی تو ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ کہیں سے عبایا اور اسکارف پہننے پر تو کہیں سے اورنگی ٹاون میں رہائش کے جرم میں اور کہیں سے انگریزی کمزور ہونے کے صلے میں انکار سننے کو ملا۔
کراچی کے ایک بڑے غیر سرکاری تعلیمی ادارے سے تو باقاعدہ عزت افزائی کے بعد انکار کیا گیا ۔ سرکاری ملازمتوں پر پابندی تھی۔ اس طرح دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ ان ناکامیوں کے بعد جنوری 2003 میں سندھ پبلک سروس کمیشن کا ایک اشتہار نظر سے گزرا جس میں ہم BS-17 کی آسامیوں کے لیے قابلیت پر ہم پورا اترتے تھے۔ اور عمر کی حد فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ کے ایک دن بعد حد سے باہر ہوتی تھی، Devine Comdedy، فارم جمع کروایا۔ فارم جمع ہونے کے بعد کچھ ناکام امیدواروں نے ڈرایا کہ خواہ مخواہ وقت، محنت اور پیسہ برباد نہ کرو، یہاں صرف سفارش اور رشوت والوں کو کامیابی ملتی ہے۔
کمیشن بھی درخواست لے کر بھول ہی گیا۔ تقریباً پانچ ماہ بعد ایک لیٹر موصول ہوا کہ ایک ہفتے بعد آپ کا ٹیسٹ ہے۔ بغیر کسی تجربے اور گائیڈ کے جو سمجھ میں آیا وہ تیاری کی۔ پتا ہی نہیں تھا کہ اس قسم کے ٹیسٹوں کی تیاری کہاں سے اور کتنے میں کروائی جاتی ہے، زندگی میں کبھی ٹیوشن پڑھی ہو تو ناں۔ ہم تو ہمیشہ اپنی ہی کوششوں سے ناکام و کامیاب ہوتے رہے تھے۔ ٹیسٹ والے دن دیگر امیدواروں کے ہاتھ میں موٹی موٹی کتابیں دیکھ کر دل مزید ڈوب گیا۔ ہمارے ہاتھ میں بس ایک فل اسکیپ کاغذ تھا وہی ہماری ساری تیاری تھا۔ خیر ٹیسٹ دیا۔
ایک ماہ بعد انٹرویو کی تاریخ مقرر ہوئی۔ کراچی میں کبھی نہ برسنے والے بادل اس دن دل کھول کر برسے۔ سندھ سیکریٹریٹ کے سامنے سیلاب آیا ہوا تھا۔ گھٹنے گھٹنے پانی میں سے تیر کر انٹرویو دینے گئے، وہاں ایک سے ایک بڑھ کر وڈیرے اور وڈیرنیاں۔ ہر کوئی انٹرویو پینلسٹس کے آباء و اجداد تک پہنچا ہوا۔ غلطیوں اور بد حواسیوں سے بھرپور زندگی کا پہلا انٹرویو دیا اور روزانہ اخبار دیکھنا شروع کردیا۔ جب آنکھیں تھکنے لگیں تو اخبار میں ریزلٹ آگیا۔ اخبار میں نام دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اللہ تعالی کی مدد شامل حال ہے۔ ورنہ ہم کہاں اور گزیٹڈ افسری کہاں۔
پھر متعلقہ محکمے سے لیٹر آنے کا انتظار شروع کر دیا۔ جو آکے نہ دیا۔ ایک دن ابا نے کہا کہ ڈائرکٹری سے نمبر لے کرفون پر معلوم کرو ۔۔ فون جن صاحب نے بھی اٹھایا، ہمارا استفسار سنتے ہی بولے "آپ نسرین غوری ہیں، کہاں ہیں آپ، ہم کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں فوراً آجائیے، دوسرے امیدوار تو آفر لیٹر کو شرف قبولیت دے بھی گئے ہیں"۔ جا کر آفر لیٹر لیا، اس کے بعد میڈیکل ہوا، تمام کاغذات محکمے میں جمع کروائے۔ کورئیر کمپنی پر اعتبار نہ رہا تھا لہذہ روز فون کر کے پوسٹنگ آرڈر کا معلوم کرتے، تقریباً دو ہفتے بعد نوید ملی کہ آپ کل آجائیں۔ اور ڈیوٹی جوائن کرلیں۔ آج اپائمنٹ لیٹر ہاتھ میں ہے اور جاب کا پہلا دن ہے۔
نوجوانوں کے لے خصوصاً مقابلے کے امتحانات میں شریک ہونے والے نوجوانوں کے لیے ہمارا یہ پیغام ہے کہ اپنی درست قابلیت کا فیصلہ خود کریں۔ ہر شخص کو اپنی قابلیت خود پتا ہوتی ہے، لیکن دوسرے اس کا اعتماد متزلزل کردیتےہیں۔ اگر آپ خود کو کسی پوسٹ کے لیے اہل سمجھتے ہیں تو ضرور کوشش کریں، کوشش کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ آپ کو ڈرانے اور ہمت توڑنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ایک معقول تعداد آپ کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کی بھی ہوگی۔ کبھی اپنے اپ کو دوسروں سے کم تر خیال نہ کریں۔
تندی ءِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
---------------------------------------
یہ مضمون سرکاری افسری کے پہلے روز لکھا گیا اور روزنامہ جنگ میں ہفتہ 6 دسمبر 2003 کو شایع ہوا۔