منظرکشی سے تصویر کشی اورفوٹو گرافی سے "فوٹوگرافری" تک کا سفر
منظر کشی یا تصویر کشی کا خیال سب سے پہلے اس شخص کو آیا ہوگا جس نے کوئی خوبصورت یا انوکھا منظر دیکھا ہوگا اور اس نے اسکی خوبصورتی کو اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر اور سیلیبریٹ کرنا چاہا ہوگا۔ زمانہ قبل از تاریخ کے غاروں میں موجود ڈرائینگز اسی خیال کی عملی تصاویر ہیں۔ خاکہ کشی (Sketching)، خط کشی (Drawing) اور مصوری(Painting) سے گزر کر یہ خیال تصویر کشی (Photography) تک پہنچا۔ یہاں تک کہ حضرت انسان کو ڈی ایس ایل آر کیمرے نصیب ہوگئے۔ ڈی ایس ایل آر ہاتھ میں آتے ہی ہر ایرا غیرا فوٹوگرافر کے عہدے پر فائز ہوگیا ۔ اور لگا دھڑا دھڑ تصویر کشی اور تصویر سازی(photo editing) کرنے.
فوٹو گرافی دراصل آوارہ گردی کی بائی پراڈکٹ ہے۔ یہ دراصل آوارہ گرد تھے جنہیں یہ شوق ہوا کہ جو منظر وہ دیکھتے ہیں انہیں دنیا کو بھی دکھائیں، پہلے پہل انہوں نے عام کیمروں سے اپنے دیکھے ہوئے منظر دنیا کو دکھائے لیکن کچھ مزہ نہیں آیا۔ پھر ڈی ایس ایل آر کیمروں نے اینٹری ماری۔ جن کی تصاویر عام کیمروں کی نسبت اصل سے ذرا اور قریب ہوتی تھیں۔ فیس بک پہلے ہی ایجاد ہوچکی تھی۔
تصویری نمائش کے اور بھی بہت سے فورمز تھے اور ہیں لیکن فیس بک کو اس میں جوعوامی مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کسی اور ویب سائیٹ کو ملی۔ چنانچہ ڈیسلآری مناظر کی فیس بک پر خوب خوب شو ماری گئی اور مستقل ماری جا رہی ہے۔ (اس میں قطعی دو رائے نہیں کہ قومی سطح پر سیاحت کی جو لہر اٹھی ہے اس میں ڈیسلار فوٹوگرافرز اور فیس بک دونوں کا برابر کا حصہ ہے)۔ رہی سہی کسر فوٹو ایڈیٹنگ سافٹ وئیرز نے پوری کردی۔ اوراس طرح یہ آوارہ گرد منظر باز ڈی ایس ایل آر کیمروں کو پیارے ہوگئے اور فوٹو گرافری سے بڑھ کر "فوٹوگرافری" کرنے لگے۔
اب جہاں دیکھئیے ڈیسلآری اپنے کیمروں کو نومولودوں کی طرح سینے سے لگائے، گود میں اٹھائے یا پیٹھ پر جھولا جھلاتے نظر آتے ہیں۔ کسی ٹور یا ٹرپ پر دیکھئیے یہ ڈیسلآری اپنے ساتھیوں سے بے نیاز، دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے "راج دلاروں" کی ناز برداریوں میں مصروف ہونگے۔ ہمارے ایک جاننے والے کے بقول ڈیسلآری اپنے دوستوں یا ساتھیوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے کیمروں کے ساتھ ٹرپ پرجاتے ہیں۔
ڈی ایس ایل آر یقیناً تصویر کی کوالٹی کے معاملے میں عام کیمروں سے کہیں بہتر ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ ایڈیٹنگ یعنی تصویر سازی کی وبا اتنی عام ہوئی کہ تصویریا منظر کا اصل کہیں پیچھے رہ گیا اور ہر تصویر ایک پینٹنگ محسوس ہونے لگی۔ یہ وبا اب ڈیسلآریوں سے ہوتی ہوئی سیلوگرافرز تک پہنچ چکی ہے۔
بہر حال اگر آپ ایک کامیاب ڈیسلآری بننا چاہتے ہیں تو نوٹ کرلیں کہ ایک ڈیسلآری کے لیے لازم ہے کہ وہ مندرجہ ذیل مناظر کی تصویر کشی لازمی کرے ورنہ وہ ڈیسلآری کے مرتبے پر فائز نہیں ہوسکتا۔
- ایک عدد داڑھی والا گندہ سندہ بوڑھا فقیر : تصویر میں اسکے چہرے کی ایک ایک جھری اور داڑھی کا ایک ایک بال الگ الگ نظر آنا چاہئے۔
- ایک عدد گندہ سا بچہ جس کی ناک بھی بہہ رہی ہو، ایک دو مکھیاں بھی بھنبھنا رہی ہوں تو سونے پر سہاگہ۔
- ساحل سمندر پر غروب آفتاب کا منظر جس میں سورج کے سامنے سے کوا غوطہ لگاتا ہوا گزر رہا ہو۔ ڈیسلآری عموماً طلوع آفتاب کی تصاویر سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس کے لیے بہت سویرے اٹھنا پڑتا ہے جو اوکھا کام ہے۔
- ایک پھول کے اندر رہائش پذیر مکھی یا بھنورا
- ایک عدد پرانی عمارت جس پر بھوت بنگلے کا گمان ہو
- ایک متروکہ بند دروازہ یا کھڑکی
- روتے ہوئے بچے کے گال پر ایک ٹھہرا ہوا آنسو
- بیوہ کی مانگ کی طرح سونی/خالی سڑک
- کھڑکی کے شیشے یا کسی پتے پر بارش کے قطرے کی تصویر
- آتش بازی کی پھلجڑیاں
- ایک خیمے کے اندر لائیٹ جلا کر روشن خیمے کے ساتھ ستاروں/ کہکشاں کی تصویر
- لائیٹ ٹریلز : یہ دراصل وہ تصاویر ہیں جن میں فوٹوگرافر کا ہاتھ اسکے قابو میں نہیں رہتا، شروع شروع کے ڈیسلاری ان تصاویر پر بہت شرمندہ رہا کرتے تھے لیکن پھر "تخریبی" آرٹ کی طرح یہ ان بگڑی ہوئی تصاویر کو اپنا ماسٹر پیس قرار دینے لگے اور اس طرح "لائیٹ ٹریلز" فوٹوگرافی کی ایک باقاعدہ صنف ٹھہری۔
پھر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ اکثر پروگراموں میں کیمرہ تو یاد کرکے لے جاتا ہے لیکن "بیٹری چارج" کرنا بھول جاتا ہے۔ ٹورز پر کیمرہ بوجھ لگنے لگتا ہے سو کیمرہ لےجانے کے بجائے موبائل سے ہی تصاویر لیتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جو منظر آپ آنکھ سے دیکھتے ہیں، کوئی کیمرہ بھی وہ منظر کسی اور کو نہیں دکھا سکتا، اس کا محض 5 فیصد ہی ناظرین تک پہنچتا ہے۔
📷📱📷📱📷📱📷📱📷📱📷📱📷
یہ بلاگ دلیل ڈاٹ کام پر مورخہ 6 ستمبر کو شایع ہوچکا ہے۔
لفظوں سے تصویر سازی کی ایک کوشش
ایک شام کی تصویر پڑھیے