Thursday, September 28, 2017

گائے گی دنیا گیت میرے

ملکہ ترنم نور جہاں: ایک ٹریبیوٹ


تنویر نقوی کا لکھا یہ گیت جب ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا ہوگا ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہی گیت ایک دن ان کے فن کا بہترین تعارف بن جائےگا۔ پاکستان کی کوئی ایسی گلوکارہ نہیں ہوگی جس نے اپنے پورے دور گلوکاری میں ملکہ ترنم کا کوئی گیت نہ گایا ہو، صرف گلوکارہ ہی نہیں بہت سے گلوکار بھی ان کے گانے گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ہیں۔ جہاں جہاں اردو بولی اور سنی جاتی ہے، ممکن ہی نہیں کہ وہاں ان کی آواز کا نور نہ جگمگایا ہو۔


خود ہم نے قاہرہ جاتے ہوئے دوحہ ائیر پورٹ پردوران ٹرانزٹ اسلام آباد سے آنے والے اپنے دوسرے کورس میٹ کو نورجہاں کی آواز سے پہچانا تھا۔ وہ اپنے موبائل میں "چن ماہیا، تیری راہ پئی تکنی آں" انجوائے کرتے ہوئے ہمیں تلاش کرتے پھر رہے تھے، ہمارے کانوں میں تو جیسے کسی نے شہد انڈیل دیا ہو۔ ہم نے نور جہاں کی آواز پر مڑ کر دیکھا کہ یہ کون شیر جوان ہے جو یہاں نورجہاں کو با آواز بلند انجوائے کر رہا ہے۔ہم نے انہیں اور انہوں نے ہمیں دیکھا، پر شیر اتنا بھی جوان نہیں تھا۔ 😋😋😋


بلا شبہ وہ بر صغیر کی بہترین مغنیہ ہیں جن کے فن کا لوہا بلبل ہند لتا منگیشکر بھی مانتی ہیں۔ان کی بھر پور آواز سے کوئی بھی دھن، کوئی بھی نغمہ پوری طرح رچ بس جاتا ہے۔

کافی پہلے ایک بار ایک روسی موسیقار نے ان کی آواز کے بارے میں کہا تھا پاکستان کے موجودہ ساونڈ ریکارڈنگ سسٹمز میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ کہ ان کی آواز کی خوبیاں پوری طرح ریکارڈ اور بیان کرسکیں۔ اگر آج جدید ڈجیٹل ساونڈ سسٹم پر ان کے ان پلگڈ گانے سنے جائیں تو اس موسیقار کی بات سچ معلوم ہوتی ہے۔


ہمارا فن موسیقی کا علم صرف گانے سننے تک محدود ہے لیکن ہماری رائے میں ان جیسی تان شاید ہی کوئی اٹھا سکتا ہو۔جس طرح وہ نیچے سروں سے شروع ہوکر اونچے سروں تک جاتی ہیں ان ہی کا کمال ہے۔ اردو ہو یا پنجابی، گانا ہو، غزل ہو یا نظم نور جہاں کا راج ہر صنف پر نظر آتا ہے۔ لا تعداد گانے جن کے ساتھ آپ بے اختیار ہوکر خود بھی گنگنا اٹھتے ہیں:

آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے

جواں ہے محبت حسین ہے زمانہ

چن ماہیا ، تیری راہ پئی تکنی آں

لٹ الجھی 

میں بن پتنگ اڑ جاوں

جیا دھڑکے سکھی ری جور سے

تیرے در پر صنم چلے آئے

چاندنی راتیں

اظہار بھی مشکل ہے

ہو تمنا اور کیا

یار صدقے دلدار صدقے

ونجلی والڑیا

سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے

جیو ڈھولا

کبھی تو دلدار 

جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

جگر کی آگ سے

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ

میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا

دل کے افسانے 

چھن چھن باجے پائل باجے

چٹھی ذرا سیاں جی کے 

میری زندگی ہے نغمہ

سانوں نہر والے پل تے بلا کے

تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے

یہ وادیاں

چلو اچھا ہوا تم بھول گئے


ان کا ہی تصور ہے

آ بھی جا

صدا ہوں اپنے پیار کی

کیا جانے کیا ارمان لے کر 

گائے گی دنیا گیت میرے

سیوں نی میرا ماہی 

اینڈ دی لسٹ گوز آن اینڈ آن اینڈ آن ۔ ۔ ۔ 

آواز کی دنیا کی تو وہ بلا شبہ اور بلا شرکت غیرے ملکہ ہیں ۔ لیکن ان کا ادکارانہ کیریر بھی نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں۔ قبل از تقسیم سے لے کرپاکستان بننے کے بعد تک ان کی فلمیں یادگار ہیں۔ انمول گھڑی، زینت، خاندان، کوئل ، نیند، پاٹے خان، انتظار، دوپٹہ، انارکلی

اس ضمن میں یہ بات قابل غور ہے کہ اداکارہ نورجہاں جب تک ہیروئین آتی رہیں انہوں نے فلموں میں اداکاری کی۔ لیکن بھابھی اور ماں کے کرداروں کے ذریعے انہیں فلموں سے وابستہ رہنا یا عرف عام میں لٹکے رہنا گوارہ نہ ہوا اور انہوں نے اداکاری سے کنارہ کر کے خود کو فلمسازی اور گلوکاری سے وابستہ کر لیا اور خوب نام کمایا۔


پاکستان کی فلم انڈسٹری آج جو کچھ ہے اس میں ہمارے اپنے انڈسٹری کے لوگوں کا ہاتھ ہے لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری نے جو عروج پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں دیکھا اس میں اور لوگوں کے علاوہ نور جہاں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ہر شعبے کی طرح فلمی دنیا کے حالات بھی ناسازگار تھے، لوگ خود پاکستان کے مستقبل کے بارے میں شکوک کا شکار تھے۔ جبکہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری مضبوط بنیادوں پر کھڑی تھی۔ پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بالی ووڈ کے درجہ اول کے مسلمان فنکاروں نے بھی ایک نوزائیدہ مملکت کی نازائیدہ فلم انڈسٹری کے مبہم مستقبل سے خوف کھاتے ہوئے ہندوستان میں رہنا ہی پسند کیا کہ وہاں وہ نامور ہیرو، ہیروئن ، موسیقار، شاعر یا گلوکار مانے جاتے تھے اور ان کی فلمیں چلتی تھیں۔ ایک نوزائیدہ مملکت جس کے اپنے وجود کے بارے میں وہ پر یقین نہیں تھے وہاں قسمت آزمانے کا رسک انہوں نے نہ لیا اور ہندوستان کی عافیتوں میں ہی مقیم رہے۔


یہ صرف نورجہاں اور ان کے شوہر سید شوکت حسین رضوی تھے۔ جنہوں نے پاکستان کو اپنایا ، فلم انڈسٹری میں حقیقتاً scratches یا زیرو سے اسٹارٹ لیا۔ اسٹوڈیو قائم کرنے کے لیے نئی مشینری منگوانی چاہی پتا لگا کہ نئی انڈسٹری یا کارخانہ یا اسٹوڈیو لگانے پر بین لگا ہے، پھر کسی نے مشورہ دیا کہ کسی کباڑی سے کسی بھی قسم کی پرانی مشینیں خرید لو اور اسٹوڈیو قائم کرلو، پھر اسٹوڈیو کو اپ گریڈ کرنے کے لیے مشینری خریدنے کی درخواست دے دو، اس طرح شاہ نور اسٹوڈیو قائم ہوا جس میں لاتعداد فلموں کی شوٹنگ ہوئی۔ 

نور جہاں اس وقت صف اول کی ہیروئن تھیں، ہندوستان میں ان کی کئی فلمیں کامیاب ہوچکی تھیں۔ہندوستان میں ایک کامیاب مستقبل ان کی راہ دیکھ رہا تھا۔ ایک نئے ملک میں جہاں فلم انڈسٹری کا نام و نشان نہیں تھا وہاں آنے کا فیصلہ ایک جوئے سے کم نہ تھا، تخت یا تختہ۔ اور وقت نے انہیں ملکہ ترنم بنا کر ہمیشہ کے لیے تخت موسیقی پر بٹھا دیا۔

تھینکیو ویری مچ مادام، پاکستان کی فلم انڈسٹری آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتی۔


 🎶🎷 🎸 🎵 🎹 🎺 🎻 🎼


یہ مضمون مورخہ 27 ستمبر 2017 کو دلیل ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔

فردوس اور اعجاز کی شاہکار فلم ہیر رانجھا پر تبصرہ 

کوک اسٹوڈیو لو اسٹوری