ونس اپون اے ٹائم ایک اکلوتا پی ٹی وی ہوتا تھا جسے گھر یا اکثر اوقات محلے کے اکلوتے ٹی وی سیٹ پر دیکھا جاتا تھا۔ وہ جہاں اردو نشریات دیتا تھا وہیں 6 بجے سے پہلے پہلے علاقائی زبانوں میں بھی نشریات ہوتی تھیں۔ روشن تارہ، ناٹک رنگ اور اسی قسم کے علاقائی زبانوں کے پروگرام پورے پاکستان میں نشر ہوتے تھے. پی ٹی وی ہی ہفتے یا مہینے میں ایک اردو اور باقی وقت سٹر ڈے نائٹ سینما یا ویک اینڈ سینما کے نام سے انگریزی موویز بھی دیتا تھا۔
پھر سردیوں میں اکثر لیٹ نائیٹ اکلوتا نیشنل جیوگرافک کا پروگرام جسے سب مل کر دیکھتے تھے. لوک میلہ جو ساری نشریات اور پروگرامز پر چیری آن دا ٹاپ ہوتا تھا- سارے پاکستان سے لوک گلوکاروں کا ایک گلدستہ، پٹھانے خان، ریشماں، مائی بھاگی، سلیمان شاہ، طفیل نیازی، استاد محمد جمن، مہ جبین قزلباش،معشوق سلطان، عاشق جٹ, اللہ دتہ لونے والا،عارف لوہار، شوکت علی، منصور ملنگی، پروانہ مستانہ، شاہدہ پروین، ثریا خانم، زرسانگہ، خیال محمد، علن فقیر .. ناموں اور چہروں کی ایک کہکشاں ہے جو نظروں کے سامنےبچھی جاتی ہے۔ آوازوں اور لوک گیتوں کا ایک گیت مالا کانوں میں رس گھولنے لگتاہے:
پی ٹی وی کی سنسر پالیسی کو ہم جتنا بھی براکہیں لیکن یہ پی ٹی وی ہی تھا جس نے ہم عام لوگوں کو ہر زبان سے، ہر زبان کے فنکاروں سے ان آوازوں کے ذریعے باندھ رکھا تھا۔ ہم جس ذوق و شوق سے رنگ ترنگ دیکھتے تھے اسی ذوق و شوق سے ناٹک رنگ، روشن تارہ اور سوجھرو بھی دیکھا کرتے تھے۔
خاص کر ناٹک رنگ جس میں اکثر و بیشتر سندھی شادیوں سے متعلق ڈرامے پیش کئے جاتےتھے اور ہم وہ ساری رسومات بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے کہ وہ ہماری شادیوں کی رسومات سے مختلف اور دل چسپ ہوا کرتی تھیں۔ یا پھر سندھ کے ہیروز اور لوک داستانوں پر مشتمل کہانیاں ڈرامائی شکل میں پیش کی جاتی تھیں۔ ان ڈراموں میں موسیقی اور گیت لازمی جز ہوتےتھے۔ بعد میں سندھی اور دیگر زبانوں کے لانگ پلے بھی سب ٹائٹلز کے ساتھ قومی نیٹ ورک پر نشر کیے گئے۔
خاص کر ناٹک رنگ جس میں اکثر و بیشتر سندھی شادیوں سے متعلق ڈرامے پیش کئے جاتےتھے اور ہم وہ ساری رسومات بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے کہ وہ ہماری شادیوں کی رسومات سے مختلف اور دل چسپ ہوا کرتی تھیں۔ یا پھر سندھ کے ہیروز اور لوک داستانوں پر مشتمل کہانیاں ڈرامائی شکل میں پیش کی جاتی تھیں۔ ان ڈراموں میں موسیقی اور گیت لازمی جز ہوتےتھے۔ بعد میں سندھی اور دیگر زبانوں کے لانگ پلے بھی سب ٹائٹلز کے ساتھ قومی نیٹ ورک پر نشر کیے گئے۔
آج سپیشلائزیشن کا دور ہے ٹی وی چینلز کی بہتات ہے۔ ہر چینل کی کوئی مخصوص فیلڈ ہے مخصوص زبان ہے۔ آج نیوز چینل الگ ہیں، تفریحی چینل الگ، ڈرامہ چینل الگ، مووی چینل الگ، موسیقی چینل الگ۔ اسی طرح اردو کے علاوہ بلوچی، سندھی، پنجابی، سرائیکی پشتو اور ہندکو چینلز سر فہرست ہیں۔ جب پر دن رات کے 24 گھنٹے کچھ نہ کچھ آرہا ہوتا ہے۔
آج اتنی چوائس ہے کہ کچھ بھی پسند نہیں آتا، ڈراموں کی اتنی بھر مار ہے کہ بھیڑ چال کے ڈراموں کے درمیان سنجیدہ اور اچھے موضوعات پر بنے ڈرامے بھی نظر نہیں آپاتے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ ہم اپنی علاقائی زبانوں اور فنکاروں سے دور ہوگئے ہیں .. آج ہمیں فرصت ہی نہیں کہ ہم سندھی, سرائیکی, پشتو, بلوچی یا پنجابی چینلز پر چند سیکنڈ توقف کرلیں ۔ ہمیں تو درجہ اول کے چینلز پر جاری جنگ ہائے عظیم سوئم دیکھنی ہوتی ہیں یا پھر اینٹرٹینمنٹ کے نام پر ایکسٹرا میریٹل افئیرز۔ اس سے بھی بڑاغضب یہ ہے کہ علاقائی چینلز بھی ترقی اور بقا کی جنگ میں یہی کچھ دکھانے میں مصروف ہیں۔
آج مقامی زبانوں کے فنکاروں کے پاس پورے چینلز موجود ہیں جن پر وہ اپنے فن کا مظاہرہ یقیناً پہلے سے زیادہ کرتے ہونگے لیکن چینلوں کی بہتات نے ان سے نیشن وائڈ ایکسپوژر چھین لیا ہے۔ خواہ وہ کسی چینل پر 24 گھنٹے آتے رہیں لیکن ان کی وئیورشپ محدود لوگوں تک رہ گئی ہے۔
پی ٹی وی کے زمانے میں ہر سہ ماہی میں ڈراموں کا شیڈیول جاری ہوتا تھا جن میں کراچی اور لاہور کے علاہ پنڈی، پشاور اور کوئٹہ سینٹرز کے ڈرامے بھی قومی سطح پر دکھائے جاتے تھے جن کے موضوعات اور معیار کسی بھی طرح کراچی اور لاہور سے کم نہیں ہوتے تھے بلکہ بعض ڈراموں نے تو کراچی اور لاہور کے ڈراموں کو کھلا چیلنج بھی دیا۔ کوئٹہ سینڑ کے چھاوں، کردار اور دھواں نے جو دھومیں مچائیں ان کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے اور ویڈیو چینلز پر اب تک دکھائی دیتی ہے۔ پنڈی سینڑ کا گیسٹ ہاوس، بندھن اور ایک تھی گڑیا جسے سیاسی انتقامی کارروائی کے نتیجے میں بند ہونا پڑا، آغوش، پشاور سینٹر کا گل لالہ ۔
ان ڈراموں سے ہمیں اپنے ملک کی مختلف ثقافتوں سے بھی آگہی و آشنائی ہوتی تھی۔ اب تو ڈراموں کا صرف ایک ہی کلچر ہے، الیٹ کلچر جو تیزی سے ہماری قومی اور مقامی ثقافتوں کو ہڑپ کرتاجارہا ہے اور جس کے پھیلاو میں تمام چینلز پیش پیش ہیں۔
ان ڈراموں سے ہمیں اپنے ملک کی مختلف ثقافتوں سے بھی آگہی و آشنائی ہوتی تھی۔ اب تو ڈراموں کا صرف ایک ہی کلچر ہے، الیٹ کلچر جو تیزی سے ہماری قومی اور مقامی ثقافتوں کو ہڑپ کرتاجارہا ہے اور جس کے پھیلاو میں تمام چینلز پیش پیش ہیں۔
پرائیوٹ پروڈکشن، چینلوں کی بہتات اور ڈرامہ انڈسٹری کا کراچی اور لاہور میں محدود ہوجانا ان تینوں عوامل نے ایک طرف ہمیں ان فنکاروں اور انکے فن سے محروم کردیا دوسری طرف مقامی فنکاروں پر بڑا ظلم کیا۔ ان پر روزگار کے دروازے بند ہوگئے۔ کچھ فنکاروں نے کراچی اور لاہور کا رخ کیا لیکن فنکاروں کی اکثریت لاہور اور کراچی منتقل ہونا افورڈ نہیں کرسکتی تھی، ان کا ایکسپوژر اور پھر رفتہ رفتہ روزگار کم سے کم اور ختم ہوتا گیا۔
آج عبدالقادر، محمد نواز، جمیل احمد، نجیب اللہ انجم، شارقہ فاطمہ، نوشابہ، سجاد کشور کے نام کسی کو یاد بھی نہیں ہونگے۔ ڈرامہ سیریل گیسٹ ہاوس کے اسٹاک کیریکٹرز یاد کریں آج ان میں سے کسی کا چہرہ کہیں نظر نہیں آتا، دھواں ڈرامے کے ہیرو اور نبیل کے علاوہ پوری کاسٹ کا کچھ پتا نہیں۔ ابھی حال ہی میں "اب میں بولوں کہ نہ بولوں" فیم حرفیاں سنانے والے افتخار قیصر کا کس کسمپرسی میں انتقال ہوا ہے۔
یہ مضمون 21 ستمبر 2017 کو دلیل ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔
ایک کامیاب نیوز چینل کے اجزا جانیے۔
ایک اشتہار اور سو افسانے
مشتہرین کو لاحق کچھ غلط قسم کی خوش فہمیاں
میڈیا اخلاقیات
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
💔💔💔💔
یہ مضمون 21 ستمبر 2017 کو دلیل ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔
ایک کامیاب نیوز چینل کے اجزا جانیے۔
ایک اشتہار اور سو افسانے
مشتہرین کو لاحق کچھ غلط قسم کی خوش فہمیاں
میڈیا اخلاقیات