Wednesday, June 29, 2016

ایک اشتہار اور سو افسانے

تکنیکی اغلاط اور کمزوریوں کو چھوڑ کر مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس اشتہار پر اتنا رن کیوں برپا ہے۔ اور صرف حضرات کو ہی اس میں کیوں فحاشی نظر آرہی ہے، خواتین کو کیوں نہیں نظر آرہی، کیا اس لیے کہ خواتین فحش نہیں ہوتیں یا فحاشی بھی خوبصورتی کی طرح دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔ 

مجھے تو اس اشتہار سے یہ سمجھ آتا ہے کہ اب پاکستانی خواتین بھی وہ کارنامے انجام دے سکتی ہیں جن کے میدان اب تک صرف مردوں کے زیر تصرف تھے۔ اور یہ کارنامے خواتین پہلے سے انجام دے رہی ہیں، پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم الحمداللہ مردوں کی موجودہ ٹیم سے بہتر کھیل پیش کر رہی ہے اور جیت رہی ہے۔ اگر خواتین کے کرکٹ کھیلنے پر اعتراض ہے تو کرکٹ ٹیم بنانے پر اعتراض کرنا تھا اشتہار پر کیوں، اشتہار تو محض اس ٹیم کا ایک ڈپلی کیٹ ہے، کرکٹ سے ہٹ کر ایک پاکستانی خاتون دنیا کے ہر براعظم کی بلند ترین چوٹی سر کر کے آئی ہے، ایک خاتون نے دو آسکر ایوارڈ جیتے ہیں۔ تو پھر مرد اس اشتہار سے کیوں خوفزدہ ہیں۔ 

مجھے یہ اشتہار یہ پیغا م دیتا ہے کہ بیٹیاں بھی باپ کا نام دنیا بھر میں روشن کر سکتی ہیں اگر انہیں مواقع مہیا کئیے جائیں، انہیں سپورٹ کیا جائے اور ان پر اعتبار کیا جائے۔ مجھے یہ اشتہار دیکھ کر تھری ایڈیٹس یاد آجاتی ہے جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ اپنے بچوں کو اس فیلڈ میں نام پیدا کرنے دو جس میں اس کی اپنی دلچسپی ہے۔ اسے اپنے جنون کو اپنا پروفیشن بنانے دو پھر دیکھو وہ کیسے دنیا میں نام پیدا کرتا ہے۔ 

مجھے اس اشتہار سے یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ اپنی بیٹی کے جائز شوق اور مطالبات کے لئے ڈٹ جائے گی، اسے سپورٹ کرے گی، اس کی خوشی میں خوش ہوگی۔ 

کہیں ایسا تو نہیں کہ متعرضین اس وقت سے خوفزدہ ہیں جب خواتین تقویت یافتہ ہونگی اور ان کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہی ہونگی۔

پی ایس: مملکت خدادا د کے باقی سارے معاملات میں بڑی شریعت انسٹالڈ ہے جو اس اشتہار میں شریعت کے حوالے دیے جارہے ہیں۔ لڑکے تو جیسے شرعی داڑھی، ٹوپی اور شلواریں ٹخنوں سے اونچی کر کے کرکٹ کھیلتے ہیں۔

پی پی ایس: اعتراض کرنے والوں کو لکس صابن اور ہئیر ریموونگ کریمز کے اشتہار نظر نہیں آتے۔ 

-------------------------------------

یہ مضمون 28 جون 2016 کو ہم سب ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔