Wednesday, July 6, 2016

رفتگاں کی یاد

چاند رات 


کل چاند رات کو بیٹھے بیٹھے ایسے ہی بچپن کی چاند راتیں اور عید یاد آگئیں۔ بچپن کی چاند رات اب سے کہیں زیادہ ایڈونچرس ہوتی تھی۔ عید کی ساری تیاری تو شروع رمضان میں ہوجاتی تھی، امی اور پڑوس کی چند خواتین مل کر اپنے سارے بچوں کے ساتھ بازار جاکرعید کے لیے کپڑوں اور جوتوں کی شاپنگ کرتے تھے۔ کپڑوں سے بڑھ کر جوتوں کے لیے سارے بچوں کو ناپ کے لیے ساتھ لےجانا ضروری ہوتا تھا۔ جوتے ایک نمبر بڑے خریدے جاتے تھے تاکہ زیادہ دنوں تک قابل استعمال رہیں۔ بچوں کی تعداد کافی ہوتی تھی، ایک بار لالو کھیت میں شاپنگ کے دوران پڑوسن کا ایک بچہ ادھر ادھر ہوگیا، جب ملا تو ایک دکاندار نے فقرہ لگایا کہ اتنے سارے بچوں کو ایک رسی میں باندھ کر چلا کرو۔ عموماً ساری شاپنگ لالوکھیت سے ہوجایا کرتی تھی سوائے چوڑیوں کے۔ چوڑیوں کے لیے چاند رات کا دن مخصوص تھا۔ 
گول ٹکیا والی مہندی کا جدید ورژن
اس وقت چوڑیاں خرید خرید کر جمع کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا، چوڑیاں بس پہن لی جاتی تھیں۔ امی ہم بہنوں کو دونوں ہاتھوں میں، ایک میں لال اور ایک میں ہری موٹی مینے والی چوڑیاں بھر بھر کے پہنوا دیتیں تھیں ، وہ اس وقت تک بازووں میں پڑی رہتیں جب تک کہ ساری ٹوٹ نہ جائیں۔ بھلے وقتوں کے اسکول بھی بھلے ہوتے تھے، لہذہ کبھی مس نے یہ نہیں کہا کہ کل  سے یہ چوڑیاں اتار کر اسکول آنا۔


 آج چاند رات ہوگی یا نہیں یہ سوال ہمیشہ سے 29 رمضان کو سر پر لٹکا رہتا تھا، افطار کے بعد امی کی بازار جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، لہذہ 29 رمضان کو دن میں چوڑیاں پہنوا کر زبردست قسم کی ہدایت دی جاتی کہ کل تک ایک بھی چوڑی ٹوٹنی نہیں چاہیے۔ احتیاط سے چلنا، ٹھوکر کھا کر گر نہ جانا۔ اور اس وقت اورنگی ٹاون چٹانوں اور جنگل پر مشتمل تھا۔ کتنی ہی احتیاط کر لو کہیں نہ کہیں تو ٹھوکر  لگ ہی جاتی۔  ایک تو چوڑی ٹوٹ کر بازو میں چبھ جاتی دوسرے امی کی مارالگ سے پڑتی ۔ 

پھر افطار کے ساتھ ہی چاند کی ڈھنڈیا مچ جاتی۔ آبادی کم تھی، عمارتیں زمین پر فراش تھیں اور آلودگی کم تھی اس لیے ہم جیسے غریب غربا کو بھی سطح زمین سے ہی چاند نظر آجایا کرتا تھا، اکثر تو 29 کا چاند بھی سب کو نظر آجایا کرتا ، لیکن کبھی کبھی چاند نظر آنے سے انکار کردیتا تو زبردستی رات بارہ یا ایک بجے چاند نکلوایا اور دیکھا جاتا تھا۔ امی ہمیں نیند سے اٹھا کر مہندی لگاتیں یا مہندی لگانے کو کہتیں۔

 اور مہندی کیا ہوتی تھی، بہت ہی بچپن میں تو سادی مہندی گھول کر پوری ہتھیلی پر پھیلا کر لگا دی جاتی، ساتھ ناخنوں کو بھی ڈھک دیا جاتا، یا پھر ہاتھ کے بیچ میں ایک گول ٹکیا بنا دی جاتی اور ساتھ میں انگلیوں کی پوروں پر مہندی لپیٹ دی جاتی۔ ایک اور طریقہ یہ تھا کہ مہندی کا نسبتاً سخت گولہ سا بنا کر مٹھی میں دبا لیا جاتا، بند مٹھی پر بھی مہندی تھوپ دی جاتی اور پھر ایک کپڑے سے مٹھی باندھ دی جاتی۔ اس طرح بننے والا ڈیزائن مچھلی کٹ ڈیزائن کہلاتا تھا۔ ہمیں یہ سخت ناپسند تھا کہ اس میں دونوں ہاتھ بندھ جاتے اور مہندی انگلیوں کے بیچ کرکراہٹ والی کیفیت پیدا کرتی تھی، جس سے ہمیں بہت کوفت ہوتی۔

 کچھ بڑے ہوئے تو ڈیزائن والی مہندی کا رواج آیا، اسی  سادی مہندی کو ذرا زیادہ پانی ملا کر ٹوتھ پک کے تنکے کو مزید باریک کر کے اس سے پھول پتیاں بنائیں جاتیں۔ مہندی کا عرق بنانے کی ترکیبیں بھی مارکیٹ میں بہت مقبول ہوئیں۔ چائے کی پتی اور جانے کیا کیا ملا کر ابال کر اس محلول سے ہاتھ پر کاریگری کی جاتی۔  پھر کچھ عرصہ بعد پلاسٹک کی پنیاں جن پر پھول پتیاں کٹی ہوتی تھیں مارکیٹ میں آگئیں۔ جن کو ہتھیلی پر بچھا کر اس پر سادی مہندی پوت دی جاتی اور پھر پنی کو اٹھا لیا جاتا ، ڈیزائن ہاتھ پر رہ جاتا۔  صبح اٹھ کر مہندی کسی گملے یا کیاری میں جھاڑی جاتی اورپانی سے دھونے سے قبل ہتھیلی پر تیل لگایا جاتا پھر دیکھا جاتا کہ کس کی مہندی زیادہ گہری رچی ہے۔ 

مہندی کی گہرائی کو مد نظر رکھ کر پیکٹوں میں تیار شدہ مہندی آنے لگی، "دلہن مہندی" جو سادی مہندی کی نسبت زیادہ گہری رچتی تھی۔ لالٹین کی روشنی میں مہندی لگاتے لگاتے آنکھیں پھوٹ جاتیں۔ پر ڈیزائن سب سے منفرد، سب سے باریک اور سب سے گہرا رچا ہونا چاہئیے تھا۔ 

اس دوران امی مختلف کاموں میں لگی رہتیں، ہم زبردستی پکڑ پکڑا کے ان کے ایک ہاتھ پر کچھ نہ کچھ لکیر انداز کر ہی دیتے۔ اور سب سے گہری مہندی ان کے ہی ہاتھ پر رچتی تھی۔ جس کا ہمیں خاصہ رنج بھی ہوتا کہ ہمارے ایسی کیوں نہیں رچی۔ 

-------------------

بچپن کی عید کیسی ہوتی تھی ، یہاں جانئیے۔