میٹھی عید
رمضان بھر ہمیں میٹھی عید کا انتظار رہتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں نئے کپڑے بس عید کے عید ہی بنتے تھے یا پھر گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد نیا یونی فارم ملتا تھا۔ عید پر دو جوڑے بنتے تھے۔ ایک ریشمی جو عموماً فلیٹ کی پھولدار قمیص اور سادی میچنگ شلوار پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعد میں جب سادی شلوار قمیص کا دور آیا تو پہلے لیڈی کریپ اور پھر کنگ پیلس نامی کپڑے کا سادہ سوٹ اور ساتھ ڈیزائن دار دوپٹہ ، لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے۔ہم ابھی اس دور میں ہیں جب دوپٹے کے نام پر ایک دوفٹ لمبی اور چھ انچ چوڑی پٹی کندھے پر پن سے ٹانک دینا کافی ہوتا تھا۔ دوسرا سوٹ کاٹن یا لان کا ہوتا تھا۔
تصویر کے حقوق محفوظ ہیں |
تصویرکے حقوق محفوظ ہیں |
کپڑے عموماً ساری سہیلیوں کے ایک ہی جیسے یا ایک ہی پرنٹ کے ہوتے تھے، کیونکہ ایک ساتھ ہی شاپنگ کی جاتی تھی، بس رنگ کا فرق ہوتا تھا۔ یا پھرقمیص کے گلے کا، اس وقت کی خواتین اور لڑکیاں نئے سے نئے ڈیزائن کے گلے بنانے کے لیے بہت ایکسائیٹڈ ہوتی تھیں۔ کبھی اسموکنگ لگائی جاتی، کبھی کپڑے کی باریک باریک ڈوریاں بنا کر ان سے مینا کاری کی جاتی، کبھی کپڑے سے ہی بیلیں اور تتلیاں بنا کر ان سے گلا سجایا جاتا۔ کبھی کوٹی [کوٹ کا چھوٹا اور زنانہ ورژن] کا ڈیزائن قمیص کے سامنے کے حصے پر بنا لیا جاتا۔ مارکیٹ میں کوئی ایک ڈیزائن آتا اور دبا دب ساری خواتین یکے بعد دیگرے اسی ڈیزائن سے اپنے گلے سجا لیتیں۔ ایک دوسرے کا گلا کاٹںے کی روایت ابھی خال خال تھی۔
عید کے دن صبح صبح امی سویاں پکا کر ہمیں جگاتیں، تیار کرتیں، ریشمی والا سوٹ پہناتیں اس ہدایت کے ساتھ کہ کپڑے خراب نہیں کرنے۔ پھر ساتھ میں میچنگ کے ہار بندے ، ٹیکا یا ماتھا پٹی لگائی جاتی، اور پرس اور چشمہ تو لازمی تھا۔ عموماً مقامی بازار میں جو بھی لیٹسٹ ماڈل کے ہار بندے اور پرس آیا ہوتا ، ہم ساری سہیلیوں کے پاس اسی ماڈل کی ایک جیسی جیولری اور پرس ہوتے، کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہماری جیولری یا پرس سب سے الگ ہو۔ چشمہ تو اکثر وہ وہ گول والا گتے کا ہوتا تھا جس پر شاکنگ پنک کلر کی پنی لگی ہوتی تھی اور کمانیوں کے بجائے ربڑ کی ایک ڈوری کی مدد سے پہنا جاتا تھا۔ اس چشمے سے دنیا بڑی رنگین رنگین نظر آتی تھی۔ لپ اسٹک، کاجل کے علاوہ نیل پالش لگوائی جاتی کہ اس کے بغیر "میک اب" مکمل نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت "میک اب" ہی ہوتا تھا ، "میک اپ" تو بہت بعد میں ہوا۔ اور چاہے ماتھے پر ٹیکا جھوم رہا ہوتا، نیل پالش سے ابروں کے درمیان ایک بندیا ضروری تھی۔ اور ٹماٹر جیسے لال لال گال بھی۔
تیار ہوکرباری باری ایک کے بعد دوسری سہیلی کے گھر جاتے،اور اس کو بھی ساتھ لے کر اگلی سہیلی کے گھر جاتے، ایک دوسرے کی مہندی دیکھی جاتی، کس کی مہندی کیسی لگی ہے اور کیسی رچی ہے۔ کچھ نہ کچھ کھاتے اور ایک دوسرے کے والدین سے ایک ایک دو دو روپے عیدی وصول کرتے، اور پھر ساری لڑکیاں اکٹھی ہوکر سیر و تفریح پر نکل جاتیں۔ پہلے محلے کے سارے گھروں کا چکر لگایا جاتا، پھر سارے مل کر پچھلی گلی میں ہماری دادی کے گھر جاتے، پھر وہاں سے ایک گلی مزید پیچھے ایک اور سہیلی کی نانی کے گھر جاتے، اور عیدیاں وصول کرتے۔ پھرساری سہیلیاں مل کے "میلہ ویکھن " جاتے، اس وقت شاہرہ اورنگی ایک پگڈنڈی سے زیادہ نہیں تھی، جس پر ٹریفک کم اور کھوکھے اور چھابے زیادہ ہوتے تھے، چاند رات سے ہی ہر کھوکھے اور دکان کے سامنے شامیانے اور کرسیوں کا انتظام کردیا جاتا تھا۔ اور تیز آواز میں "ریکارڈنگ " بج رہی ہوتی تھی۔ جھولے والے بھی وہیں آجاتے۔
جھولوں پر بیٹھنا سختی سے منع تھا کہ گر جاو گے ، چوٹ لگ جائے گی ۔ لیکن ہر اسٹال یا ہر دکان پر جانا فرض ہوتا تھا، پھر عیدی کے پیسوں سے شامیانے کے نیچے کرسیوں پر بیٹھ کر چھولوں کی چاٹ، کولڈ ڈرنک، میٹھا پان اور کبھی کبھی آئسکریم کھائی جاتی جو عام دنوں میں پہنچ سے باہر ہوتی تھی۔ اس دوران کبھی پرس ادھر لڑھک رہا ہے، کبھی چشمہ ادھر ادھر ہوگیا، کبھی ٹیکا آگے کے بجائے پیچھے جھولنے لگتا۔ مرچوں سے آنکھ سے پانی آنے لگتا ، ناک الگ بہنے لگتی۔ پر مزا بڑا آتا۔ سارے محلے میں ،اور یاد رہے کہ محلہ اس وقت چار گلیاں آگے اور چار گلیاں پیچھے تک پھیلا ہوا تھا ، تو سارے محلے میں گھوم گھام کر جب واپس گھر آتے تو دوپہر ہو رہی ہوتی۔
اب امی کہتیں کہ بس عید اب ختم ، اب کپڑے بدلو ، اور نہ چاہتے ہوئے بھی ریشمی جوڑا اتروا کر لان کا سوٹ پہنا دیتیں، اس وقت عید کے عید کسی نہ کسی خالہ، ماموں یا چچا کی شادی طے ہوئی ہوتی تھی، جو امی ابو کے اپنے بہن بھائیوں کے علاوہ فرسٹ اور سیکنڈ کزنز تک پر مشتمل ہوتے تھے اور وہی عید کا جوڑا اس شادی میں بھی پہننا ہوتا تھا۔ لہذہ دل پر پتھر رکھ کر کپڑے تبدیل کر لیتے۔ اسی طرح سینڈل بھی وعدہ مستقبل پر اتروا کر ہوائی چپل پہنا دی جاتی۔ عید ہمیشہ سے گرمیوں میں ہی آتی تھی ، تو دوپہر میں امی زبردستی سلادیتیں ،دوپہر میں سونا اس وقت ہمیں ناگوار ترین عمل لگتا تھا ۔ دن کے وقت بستر پر لیٹنا ہمیں اپنی توہین لگتا تھا۔ اب خیر سے فاطمہ کا یہی حال ہے، سب دوپہر میں لیٹ جاتے ہیں صرف فاطمہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں دوپہر بھر پھر رہی ہوتی ہے۔
عید کا دوسرا دن نانی کے گھر جانے کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ نانی کے گھر ساری خالائیں، ماموں ، بڑی خالہ اور بڑے ماموں کے بچے ، سب جمع ہوتے، ساری برادری لائنز ایریا میں ایک ہی جگہ بستی تھی تو صرف ایک اپنی نانی کا گھر ہی نہیں، پتا نہیں کتنی نانیوں اور دادیوں کے گھر ایک ساتھ تھے، اور درجنوں کے حساب سے ماموں اور خالائیں بھی۔ وہاں سارے بچے جمع ہوکر ایک گھر سے نکلتےاور دوسرے گھر ، بلکہ ایک گھر میں سے گزر کر دوسرے اور تیسرے گھر جانے سہولت بھی مہیا تھی۔
نانی کی گلی میں ایک بڑے میاں کی دکان تھی جہاں پر چار آنے کے لچھے کاغذ پر رکھ کر اس پر خشک دودھ ڈال کر ملتے تھے، وہ نانی کے گھر جانے کا خاصہ تھا ، وہ لچھے بار بار کھانا عید کی عیاشیوں میں شامل تھا کیوں کہ ایسی کوئی "چیز" ہمارے علاقے میں نہیں ملتی تھی، ہم تو ایک جنگل میں رہتے تھے اور نانی کا گھر خیر سے شہر میں تھا۔ لچھے بولے تو وہی شے جس کو اب دبا دبا کر پتیسہ نامی مٹھائی بنا دی گئی ہے زور زبر دستی۔ نانی کے گھر دن کیسے گزر جاتا تھا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ رات کو واپسی پر گارڈن کے علاقے میں جہاں فاطمید فاونڈیشن ہے اس روڈ پر ایک بیکری سے پیسٹریاں لی جاتیں ، یہ پیسٹریاں نانی کے گھر جانے کی ترکیبِ استعمال میں شامل تھیں۔ اب دنیا بھر کے کیک کھا لیے لیکن ان پیسٹریوں میں جو ذائقہ تھا کسی میں نہیں۔ پھر ابا جو اس وقت ابو کہلاتے تھے ان کی ففٹی کی ڈگی میں بیٹھ کر نیند کے جھونکے کھاتے واپس گھر آتے ، کبھی کبھی تو ڈگی میں بیٹھے بیٹھے ہی سو جاتے اورصبح بستر سے برآمدگی ہوتی۔ اس طرح عید تمام ہوجاتی۔
-------------------------------
بچپن کی چاندرات کا احوال یہاں پڑھیں۔