Wednesday, July 13, 2016

نو عمر بچیوں کی حمایت

عالمی یوم آبادی 2016 


دنیا بھر میں ہر سال 11 جولائی کو عالمی یوم آبادی منایا جاتا ہے۔ 11 جولائی 1987 کو دنیا کی آبادی 5 ارب ہوگئی تھی، جس کے بعد کرہ ارض کی بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے دنیا بھر کی  توجہ آبادی کے مسائل  پر مرکوز کرنے کے لیے ہر سال 11 جولائی کو عالمی یوم آبادی منایا جاتا ہے۔ ہر سال آبادی سے متعلق  کسی اہم موضوع کو اس سال کے لیے عالمی یوم آبادی کا عنوان منتخب کیا جاتا ہے۔ جیسے "غربت سے لڑیں، بیٹی کو تعلیم دیں" ، "مساوات تقویت دیتی ہے"، "آپ کی کیا ضروریات ہیں ، بولیں"، مردوں کی شمولیت"، اور تولیدی صحت کی سہولیات کی یکساں فراہمی" وغیرہ وغیرہ۔

اس سال عالمی یوم آبادی کا موضوع ہے Investing in Teenage Girls یعنی نوعمر بچیوں میں سرمایا کاری کرنا  یا دوسرے الفاظ میں نو عمر بچیوں کی حمایت کرنا، انہیں تقویت دینا۔  دنیا کی آبادی تقریباً ساڑھے سات ارب (7.4)  ہوچکی ہے۔ جس میں نوجوانوں یعنی دس سال سے 24 سال تک کی آبادی 1.8 ارب یعنی تقریباً 25 فیصد ہے۔ اس میں سے کم و بیش 50 فیصد خواتین یا نو عمر بچیاں ہیں۔  اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (UNFPA) کے مطابق اس نو عمر آبادی کا ایک بڑا حصہ (90 فیصد) ترقی پذیر ممالک میں مقیم ہے۔ جس میں ایشیاء اور افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ اس وقت دنیا میں 17  ترقی پذیر ممالک ایسے ہیں جن کی 50 فیصد آبادی 18 سال سے کم عمر ہے۔


 ایشیاء اور افریقہ کے معاشرے نسبتاً روایت اور قدامت پسند ہیں۔ جہاں  یہ سوچ کر بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیج دی جاتی ہے کہ بیٹے والدین کا سہارا بنیں گے اور بیٹی پرائی امانت ہے، لہٰذہ زندگی کے بیشتر معاملات میں خصوصاً کھانے پینےمیں، صحت اور تعلیم میں بیٹوں پر invest کیا جاتا ہے اور  بچیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں کم عمری یا نوعمری کی شادیاں عام ہیں۔   ہرروز دنیا بھر میں 39 ہزار نوعمر بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ بچیاں کم عمری میں ہی ماں بن جاتی ہیں۔ نہ صرف ان بچیوں کو بچپن سے محروم کردیا جاتا ہے بلکہ نو عمری میں ہی ان پر ایک بھاری سماجی، خاندانی اور ازدواجی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے جس کے لیے ابھی وہ ذہنی و جسمانی طور پر تیار نہیں ہوتیں۔
 ایک بچی کا جسم 18 سے 19 سال کی عمر میں اس لائق ہوتا ہے کہ وہ حمل کا وزن، پیچیدگیاں اوربچے کی پیدائش کی تکالیف اورپروسیجر برداشت کرسکے۔  خاص کربچی کے کولہوں کی ہڈیوں کا درمیانی خلاء 18 سال کی عمر سے پہلے اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں سے بچے کا سر گزرنا انتہائی مشکل یا بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے۔ کم عمری کے حمل کے باعث دوران حمل اوربچے کی پیدائش کے دوران مختلف قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جن کے باعث نو عمر ماں یا تو ساری عمر کے لیے فسٹیولا کا شکار ہوکر معذور ہوجاتی ہے یا پھر پیدائش کے عمل میں رکاوٹ کے باعث اسکی یا بچے کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ 

دوسری جانب کم عمر ماوں کے بچے غذائیت میں کمی کے باعث کم وزن پیدا ہوتے ہیں اور وقت سے پہلے بھی پیدا ہوسکتے ہی۔ کم عمر ماوں کے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات درست عمر میں ماں بننے والی خواتین کے نوزائیدہ بچوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ نو عمر ماوں کے بچے کم وزن ہونے کے باعث کمزور قوت مدافعت رکھتے ہیں اور  دیگر ماوں کے بچوں کی نسبت زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بچے اسکول میں اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت سیکھنے کے عمل میں سست رہتے ہیں اور صحتمند بچوں سے پیچھے رہتے ہیں۔ اور ایک ذہنی طور پر پسماندہ پوری نسل جب معاشی میدان میں آتی ہے تو انکی کمپرومائزڈ اور غیر معیاری پیداواری صلاحیتوں کی بنا پر پوری ملکی معیشت داو پر لگ جاتی ہے۔  یہ ایک شیطانی چکر ہے جو اسی طرح نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں بچیوں کو غذائیت، تعلیم، صحت اور ترقی کے مساوی مواقع نہیں ملتے ، قوموں کی برادری میں ہمیشہ پیچھے رہے گا۔

نوعمر بچیوں کی حمایت اور تقویت سے مراد انہیں ایک بھرپورصحتمند زندگی گزارنے کے مواقع دینا ہے جیسا کہ بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن میں درج ہے کہ 18 سال سے کم عمر ہر بچےکا یہ حق ہے کہ اسے رنگ، نسل اور صنف کے تعصب سے بالا تر ہوکر، زندگی، صحت، تعلیم، آزادی اظہار، اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام حقوق کا تحفظ کرے۔

بچیوں کو تقویت دینے کے لیے صرف غذائیت، صحت، اور تعلیم کے شعبوں میں ہی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے۔ بظاہر یہ شعبے براہ راست بچیوں کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری بچیوں کو بہتر غذائیت، بہتر صحت، اور کم از کم میٹرک تک تعلیم کی اشد ضرورت ہے، بچیوں کو خاص کر بڑھتی ہوئی عمر کی بچیوں کو بچوں کی نسبت زیادہ بہتر غذا کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ انہوں نے کل کو ماں بننا ہے، صحت مند ماں ہی صحت مند بچوں کو جنم دے سکتی ہے۔ اس ضمن میں صرف غذائیت فراہم کرنا ہی کافی نہیں بلکی معاشرے میں بچیوں کی غذا سے متعلق مختلف واہموں کو ختم کرنا بھی ضروری ہے جو بچیوں میں غذائیت کی کمی کی ایک اہم وجہ ہیں۔

غذائیت سے ہٹ کر نو عمر بچیوں کے صحت کے مسائل ہیں۔ یہ وہ عمر ہے جب بچیوں اور بچوں کے بھی جسم میں اندرونی و بیرونی تبدیلیاں آرہی ہوتی ہیں، اس موقع پر انکی درست رہنمائی اور کسی پیچیدگی یا غلط فہمی  کی صورت میں علاج یا درست معلومات کی فراہمی  بہت اہم ہیں۔ بنیادی طور پر تو یہ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بچی کو بلوغت  اور اسکے متعلقہ موضوعات پر آگاہی فراہم کرے ، لیکن جس معاشرے میں تعلیم کا تناسب خصوصاً نسوانی تعلیم کا تناسب انتہائی کم ہو  اورآبادی کا تین چوتھائی حصہ دیہاتوں میں رہائش پذیر ہو وہاں ماوں سے یہ توقع رکھنا نامناسب ہے۔ نوعمر بچیوں اور بچوں کے مسائل کے حوالے سے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں ایک الگ سے آگاہی کا شعبہ یا ڈیسک ہونی چاہیے جہاں قابل ڈاکٹرز ان بچے بچیوں کے لیے درست معلومات اور اگر ضروری ہو تو علاج فراہم کرسکیں لیکن جہاں صحت کی بنیادی سہولیات ہی اب تک پوری آبادی تک نہ پہنچ سکی ہوں، وہاں ہمیں ابھی بہت دور تک سفر کرنا ہے، اردو والا سفر بھی اور انگریزی والا سفر بھی۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں اسکول جانے والی عمر کے تقریباً 50 فیصد بچے اس لیے اسکول نہیں جاتے کہ ان کے لیے اسکول ہی موجود نہیں ہیں۔  اور جہاں پرائمری کے بعد سلسلہ تعلیم ترک کردینے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ ہمیں ابھی تعلیم کے شعبے میں براہ راست بہت سارا کام کرنا ہے۔  خاص کر بچیوں کی تعلیم کے لئے۔ تعلیم نہ صرف بچیوں  کی شادی کی عمر میں براہ راست اضافے کا باعث ہے بلکہ تعلیم بچیوں کو اپنی اور اپنے خاندان کی  صحت اور غذائیت بہتر بنانے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ ماں اپنے بچے کی زیادہ بہتر دیکھ بھال کرسکتی ہے اور اس کو بیماریوں سے بچا سکتی ہے بہ نسبت ایک غیر تعلیم یافتہ ماں کے۔

لیکن ان شعبوں سے ہٹ کر ہمیں اور بھی شعبہ ہائے زندگی میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، ہمیں ان شعبوں میں بھی محنت کرنی ہوگی تاکہ آج ہماری بچیاں صحتمند زندگی گزار سکیں اور کل کو اچھی مائیں اور اچھی شہری بن سکیں۔ مثال کے طور پر ماحولیات۔ صاف ستھرا ماحول ہر شہری کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے بشمول  نو عمر بچیاں۔ خاص کر پینے کا پانی اور سیورج سسٹم۔  صاف ستھرا ماحول بچیوں کو بیماریوں سے بچاتا ہے، کسی بھی گھر کے بچے اگر کم بیمار ہونگے تو وہی رقم جو ان کی بیماری کی صورت علاج معالجے پر خرچ ہوتی ہے اسی سے ان کی غذائیت  بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

اسی طرح امن و امان کا شعبہ بہت اہم ہے ۔۔ خصوصاً بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے۔ امن وامان کی مخدوش صورت حال میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا خواتین خاص کر بچیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اگر اسکول لانے لے جانے کے لیے گھر کے کسی مرد رکن کو ذمہ داری ادا کرنی پڑ جائے تو کچھ دن بعد ہی اس بچی کی تعلیم منقطع کردی جاتی ہے۔ پرامن ماحول بچیوں کی تعلیم  میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح اسٹریٹ کرائمز اور خواتین کے خلاف مجرمانہ حملے بھی بچیوں کے اسکول و کالج جانے کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔  حالیہ برسوں میں بچیوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات بچیوں کو اکیلے اسکول یا کالج بھیجنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے رہے ہیں کیوں کہ ہر خاندان وین کی فیس افورڈ نہیں کرسکتا۔


بچیوں کی تعلیم، تربیت اور ترقی خاص کر کردار سازی میں میڈیا بہت اہم رول ادا کرسکتا ہے ۔ تعلیم یافتہ  اور ملازمت پیشہ خواتین کی درست اور مثبت نمائیندگی بہت سی بچیوں کے لیے تعلیم اور ملازمت کے دروازے وا کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ بچیوں اور خواتین کی غذائیت، صحت اور تعلیم کے حوالے سے ملک میں رائج مختلف اوہام کے خاتمے میں میڈیا بالواسطہ اور بلاواسطہ بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ معاشرے میں بیٹے اور بیٹی کی تفریق کے خاتمے میں میڈیا کا بہت کام کرسکتا ہے۔

اسی طرح موبائل فون آپریٹر کمپنیاں بھی معلومات ، آگاہی اور تعلیم کے شعبے میں کئی ملکوں میں تعمیراتی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہی کردار وہ پاکستان میں بھی ادا کرسکتے ہیں۔ نائیٹ پیکجز کے اشتہارات کے ذریعے نوجوانوں کو گمراہی اورتفریح کی طرف راغب کرنے کے بجائے معلوماتی پیکجز اور پروگرامز شروع کئیے جاسکتے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھی موبائل فونز اور موبائل سروسز کے ذریعے بچیوں کا معاشرے میں مقام بہتر بنانے میں حصہ لے سکتی ہیں۔

پچھلے سال بھارت میں بیٹیوں کے ساتھ سیلفی بنانے اور شئیر کرنے کا کا پروگرام " بیٹی بچاو، سیلفی بناو" معاشرے میں بچیوں پر فخر کرنے کی ایک مثال بنا۔اس مہم میں بہت سارے فلمی ستاروں اور کھلاڑیوں سمیت نمایاں بھارتیوں نے اپنی بچیوں کے ساتھ سیلفیز شئیر کیں جسکے ساتھ ہی عام شہریوں نے بھی اپنی بچیوں کےساتھ سیلفیاں بنائیں اور سوشل میڈیا پر فخر سے پوسٹ کیں۔  اس مہم نے والدین کو یہ پیغام دیا کہ بچیاں بھی ان کے لیے فخر کا باعث ہوسکتی ہیں اس لیے بچیوں کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل نہ کریں۔  اسی قسم کے پروگرام اور پراجیکٹس کے ذریعے موبائل فونز کو مثبت طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کو بھی مثبت طور پر استعمال کیا جاسکتاہے۔

نوعمری کی شادی پر پابندی کا قانون تو پاس ہوگیا ہے لیکن اس قانون کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا نفاذ صرف پولیس یا قانون کی ہی نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے، خاص کر ہم تعلیم یافتہ طبقے کی۔ کہ ہم اپنے ارد گرد اپنے سے کم تعلیم یافتہ یا کم آگاہ افراد کو نو عمری کی شادی کے مسائل اور نتائج سے آگاہ کریں ، انہیں بچیوں کو بہتر غذائیت، صحت کی سہولیات، علاج معالجہ اور تعلیم دلوانے پر آمادہ کریں۔

بچیوں کی فلاح و بہبود میں ہی ہماری فلاح ہے، اس معاشرے اور اس کرہ ارض کی فلاح بہبود ہے،  ہم سب نے مل کر اپنا مستقبل بچیوں کے ذریعے بہتر بنانا ہے تو سب کو مل کر اس میں حصہ ڈالنا ہوگا۔

اپنی بچیوں کو تقویت دیجئیے



--------------------------

یہ مضمون مورخہ 13  جولائی 2016 کو ہم سب ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔