Sunday, July 17, 2016

خرد کا نام جنوں

ہمارے معاشرے میں خاص کر شہری معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا الزام خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ 

خوب ۔

شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اور معاہدے دو یا زائد فریقوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں ورنہ وہ معاہدے نہیں سمجھوتے کہلاتے ہیں۔ لہذہ شادی بھی ایک ایسا ہی معاہدہ ہے جو ایک مرد اور ایک خاتون کے درمیان برابری کی بنیاد پر طے ہوتا ہے اور اسے برابری کی بنیاد پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ لیکن برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں یہ معاہدہ شاذ و نادر ہی برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں شادی دراصل شوہر کی ہوتی ہے۔

یہ ایک یک طرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں دوسرے فریق کا کام صرف پہلے فریق کا حکم بجالانا فرض کرلیا جاتا ہے۔ دوسرا فریق یعنی بیوی پہلے فریق یعنی شوہر کی مرضی کے مطابق سانس لے گی، اس کے خاندان کی خدمت بجا لائے گی۔ اسکی جنسی ضروریات اسکی مرضی اور فریکوئنسی کے مطابق پوری کرے گی، اسکی اجازت سے لوگوں سے میل ملاقات کرے گی، اسکی مرضی اور اجازت کے مطابق ملازمت کرے گی یا نہیں کرے گی۔ گویا اسکی اپنی کوئی شخصیت ، مرضی یا ضروریات نہیں ہیں۔


شادی جسے دراصل companionship یا ہمسفری ہونا چاہیے، ایک خوشی اور سکون دینے والے خاندان کی بنیاد ہونا چاہیے۔ دراصل آقا اور غلام کا رشتہ بنا دی گئی ہے۔ جس میں غلام اگر آقا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو ٹھیک ورنہ ۔۔ ۔ ارے بھائی اگر ایسا ہی ہے تو شادی کیوں کرتے ہو، ایک کتا پال لو، سارے حکم بجالائے گا ، ساتھ میں دم بھی ہلائے گا اور سامنے پیروں میں لوٹنیاں بھی لگائے گا۔ 

بہت ساری خواتین بلکہ خواتین کی اکثریت ایسی ہی شادی کے رشتے میں زندگی گزار رہی ہوتی ہیں ، جہاں خوشی اور سکون کے بجائے ناگواری اور بے سکونی ہے، خوف ہے، یا پھر انہیں یہی بتایا گیا ہے کہ ایک بیوی کا یہی فرض ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ ایک غلام کی سی زندگی گزارے سو وہ اسی حال میں مگن ہیں ، انہیں ادراک ہی نہیں کہ وہ ایک بیمار رشتے میں بندھی ہیں۔ 

اب اگر تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ خواتین اپنے آقاوں کی روش سے سمجھوتہ نہیں کرتیں اور ایک ناگوار ، غیر صحتمند رشتے سے الگ ہوجاتی ہیں تو یہ الزام ان کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ رائے عامہ ہمیشہ طاقتور اور اکثریت کے حق میں ہوتی ہے، سو جو طاقتور مردوں نے مشہور کردیا، عوام کی اکثریت نے بھی اسے من و عن قبول کرلیا۔

ایکسکیوزمی ۔ ۔ ۔ 

یہ خواتین کی تعلیم یا ملازمت نہیں ، مردوں کی فیوڈل نفسیات اور ان کی آقا بننے اور بنے رہنے کی خواہشات ہیں جو معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھنے کی اصل وجوہات ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ کم از شہروں کی حد تک خواتین تعلیم اور ملازمت کے باعث ذہنی طور پر ترقی کر گئی ہیں لیکن مرد اپنی فیوڈل نفسیات کے باعث خواتین کو اپنے برابر یا کچھ معاملات میں اپنے سے بہتر قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ایک تعلیم یافتہ بیوی گھریلو فیصلہ سازی میں رائے دینے سے نہیں ہچکچاتی، اور ایک ملازمت پیشہ بیوی خانگی معاملات میں صرف رائے ہی نہیں دیتی بلکہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے اور کر بھی لیتی ہے ۔ یہ بیوی غلط بات برداشت کرنے کے بجائے منہ پر کہہ بھی دیتی ہے اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ صرف صنف کی بنیاد پر شوہر کو اپنا غلط بھی درست بنانے کا حق ہے۔ 

اور یہی بات شوہر حضرات سے برداشت نہیں ہو پاتی، نتیجہ روز روز کے جھگڑے، مار پیٹ تعلقات اس نہج پر لے آتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ بیوی کو علیحدگی کا فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ شادی بندہ کرتا ہے ایک باعزت ، پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے۔ اور جب کسی رشتے میں یہ باقی نہیں رہتا تو ایسے بیمار ، کمزور اور ناخوشگوار تعلق سے لٹکے رہنےسے بہتر ہے کہ الگ ہوکر پرسکون زندگی گزاری جائے۔


جو خواتین کم تعلیم، کوئی اور معاشی سہارا نہ ہونے  یا خاندانی /سماجی دباو کے تحت ایسی ناخوشگوار شادی شدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں ان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کے ساتھ ساتھ انکی اولاد بھی اس صورت حال سے منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ اور اگر ان خواتین کو بھی موقع یا سہارا ملے تو وہ بھی ایسے بیمار رشتے سے باہر نکلنے کو ترجیح دیں گی کہ بار بار رونے سے ایک بار رونا بہتر ہے۔ 

تو خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر طلاق کا بوجھ رکھنے کے بجائے مردوں کو مورد الزام ٹھہرائییے جو خواتین کی تعلیم، ملازمت اور ذہنی ترقی سے مطابقت پیدا نہیں کرسکے، جو خاتون کو انسان کا درجہ نہیں دے سکے ، اور جو برابری کی بنیاد پر خاتون کو حیات میں برابر کا شریک نہیں کرسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد اب اپنی سوچ کو ترقی دیں، خواتین کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلیں، انہیں انسان سمجھیں، ان سے انسان والا سلوک کریں تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ ایسا نہیں کہ معاشرے میں ایسے مرد نہیں ، ہیں لیکن بہت کم تعداد میں۔ اور ایسے مردوں کو یہ معاشرہ بہت آرام سے زن مرید کہہ کر فارغ ہوجاتا ہے۔

خدارا اس معاملے میں اسلام کو نہ گھسیٹ لائیے گا ، کیونکہ اسلام نے عورت کوجو حقوق اور آسانیاں دی ہیں وہ آپ خواتین کو اگلے ہزار سال تک نہیں دے سکیں گے۔ اس لیے اس مضمون کو پاکستانی معاشرے میں رائج سماجی رویوں کی روشنی میں ہی پڑھ لیں۔ بڑی مہربانی ہوگی ۔ 

پی ایس: جس کو اس مضمون کا مرکزی خیال سمجھ نہ آئے وہ محض الفاظ کی پکڑ کرکے بحث و مباحثے سے گریز کرے۔

---------------

یہ بلاگ دلیل ڈاٹ پی کے پر 15 جولائی 2016 کو شایع ہوچکا ہے.

ایک ساتھی بلاگر کا جواب شکوہ ملاحظہ کریں کافی تسلی ہوگی۔