ہم تندہی سے سیڑھیوں کی صفائی کر رہے تھے، گو کہ دھوپ نہیں تھی لیکن کراچی کی آب و ہوا میں آب کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تھوڑی سی محنت سے بندے کا تیل نکل جائے۔ پسینہ بالوں سے نکل کر کانوں کے پیچھے سے ہوتا ہوا ٹھوڑی پر آکر بوندوں کی اک قطار کی صورت زمین بوس ہو رہا تھا۔ جہاں جہاں پسینے کی بوند گرتی وہاں پڑی دھول میں ایک پھول سا بن جاتا۔
ان پھولوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ ایک افسانہ لکھا جا سکتا ہے،" پیسنے کے پھول"۔ کسی سیلف میڈ شخص کی کہانی جس کی محنت رنگ لائی ہو۔ لیکن ہم ٹھہرے سیدھے سادے بلاگر، بغیر کسی لگی لپٹی کے جو من میں آئے ویسے ہی تحریر کردینے والے، ہم کہاں ایک افسانہ گھڑ سکتے ہیں۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑائی کہ کس کی کہانی افسانہ بن سکتی ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے دادا کی زندگی پر نظر پڑی۔ ایک راج مستری کے خاندان کا فرد جس نے اپنے آبائی پیشے اور خاندان سے بغاوت کی، 12 بہن بھائیوں میں سے واحد فرد جس نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی، پھر اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اولاد کو تعلیم یافتہ بنایا، پیٹ کاٹنا بطور ایک محاورہ سب نے سنا ہے ، دادا نے اسے زندگی بھر جیا ہے۔ ان کے اسکول چپراسی نے جب انہیں آلو ابال کر نمک مرچ کے ساتھ بطور لنچ کھاتے دیکھا تو کہا کہ غوری صاحب اس سے اچھا کھانا تو میں کھاتا ہوں آپ اسکول کے پرنسپل ہوکر ایسا کھانا کھاتے ہو، تو دادا نے اسے جواب دیا کہ تمہارے بچے اچھا کھانا کر چوکیدار بنیں گے اور میرے یہ کھانا کھانے کے بعد اگر میرے بچے پڑھ لکھ کر افسر بن جائیں تو کیا سودا برا ہے؟ اور اللہ میاں نے ان کی محنت اور قربانیوں کا پھل افسر اولاد اور افسر پوتا پوتی کی صورت دیا۔ دادا کے باقی بہن بھائی، ان کی اولادیں اور ان کی اولادیں آج بھی وہی راج مستری کا کام کرتی ہیں، منہ بھر بھر کر گالم گلوچ کرتی ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں ان کے حالات وہیں کے وہیں ہیں گو کہ ان کے ہاں دبئی کی کمائیاں جھولیاں بھر بھر کے آئی ہیں۔
سیلف میڈ تو ابا بھی کم نہیں۔ ابا کو جلد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ دادا پر بوجھ زیادہ ہے اور آمدنی کم، سو وہ میٹرک پاس کرتے ہی قسمت آزمانے کراچی چلے آئے۔ کپڑے کی ملوں میں کام کیا، گلیوں میں پھیری لگا کر ہر مال دو روپے کی آواز لگائی، ساتھ شام کی شفٹ میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھی، بی کام ، بی ایڈ کیا،پھردن میں اسکول کی ملازمت بھی کی اور شام میں رکشہ چلایا، ٹیوشن پڑھائے، مزدوری پر پردے سینے کا کام کیا، امی نے گھر بیٹھ کر ساتھ ساتھ پردے سئیے، کروشئیے کے پھول بنا بنا کر دکانداروں کو فروخت کئے۔ اس وقت ہم اپنے تمام رشتہ داروں میں سب سے کم ترمعاشی حیثیت میں تھے۔ ان کے ہاں دبئی کی آمدنی اور فضائل نظر آتے تھے، ٹی وی، فریج، ٹیپ ریکارڈر، وی سی آر ہم صرف رشتہ داروں کے گھروں پر ہی دیکھ سکتے تھے، جب کہ ہمارے گھر پر صرف ایک عدد سیل سے چلنے والا ریڈیو ہوتا تھا۔ آج امی ابا کی محنتیں رنگ لائی ہیں کہ ہم اپنے خاندان میں سب سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ان سب سے کہیں آگے۔ فرق اگر ہے تو ترجیحات کا ہے، کہ وسائل ہوتے ہوئے انہوں نے وسائل کہاں استعمال کیئے اوراپنے محدود وسائل کوامی ابا نے کہاں انویسٹ کیا۔ اپنے بچوں کی تعلیم میں۔ اور آج یہی فرق سب سے نمایاں ہے۔ ورنہ محنت تو یقیناً دبئی کے گرم ترین درجہ حرارت میں مزدوری کرنے والوں نے زیادہ کی تھی۔
گھر سے باہر نظر دوڑائی تو درمیان والی خالہ کی محنت انکے پسینے کو پھولوں میں تبدیل کرتی نظر آئی۔ ایک وقت تھا کہ چار چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوہ ہوگئیں۔ شوہر کی معمولی سی پینشن تھی اور پانچ افراد، جن میں سے چار اسکول جانے والے بچے تھے، اسکول سرکاری تھے لیکن اس وقت کورس مفت نہیں ملتا تھا۔ خالہ کو تو ہمیشہ یہی شکوہ رہا کہ جب ان کے بچے پرائمری پاس کر چکے تو پرائمری میں کورس مفت ملنے لگا، جب میٹرک کر کے نکلے تو سیکنڈری میں کورس فری ہوگیا۔ لیکن خالہ نے آمدنی کی کمی کو بہانہ بنانے کے بجائے سلائی مشین پکڑ لی۔ بال سفید ہوگئے،چشمہ لگ گیا، کمر میں مستقل درد بیٹھ گیا، بچے بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرتے رہے لیکن خالہ نے انہیں تعلیم سے روگردانی نہ کرنے دی، ان کا بہایا ہوا پسینہ ان کے چار تعلیم یافتہ اور بر سر روزگاربیٹوں کی صورت رنگ لایا ہے۔ پورے خاندان میں ان کے بچے ہیں جو کہیں بھی کسی سے بھی کسی بھی موضوع پر سر اٹھا کر بات کرسکتے ہیں۔ فرق وہی ہے ترجیحات کا۔
درست ترجیحات اور فیصلے آپ کے پسینے کو پھول بنا سکتے ہیں ورنہ پسینہ مٹی میں مٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے کردار آپ کے ارد گرد بھی بکھرے پڑے ہونگے. اگر آپ ایک افسانہ نگار ہیں تو پلاٹ حاضر ہے۔ ہماری توبس اتنی ہی اوقات ہے۔ ویسے بھی سیڑھیوں کی صفائی پوری ہوچکی ہے، ہم چلے بقیہ صفائی کرنے۔